وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں وسیع اصلاحات لتعارف کرانے کی اطلاع دی ہے۔ریاض میں عالمی اقتصادی فورم کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ قرضوں کا جال پاکستان کے لئے موت کا پھندا بن گیا ہے۔انہوں نے مہنگائی، موسمیاتی تبدیلیوں اور سرمایہ کاری کے متعلق اصلاحات کو ترجیح قرار دیا۔وزیر اعظم کے ان خیالات کو آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو جاری ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی قسط سے منسلک شرائط کے ساتھ پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عالمی ادارے بھی پاکستان کے نظام کو ناکارہ قرار دے کر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے بیل آوٹ پیکیج کی آخری قسط جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان کو استحکام سے مضبوط اور پائیدار بحالی کی طرف لے جانے کے لیے حکام کو اپنی پالیسی اور اصلاحات کی کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے، بشمول کمزور طبقات کی حفاظت کرتے ہوئے مالی اہداف پر سختی سے عمل کرنا؛ بیرونی منفی اثرات کو غیر موثرکرنے کے لیے مارکیٹ سے طے شدہ شرح مبادلہ کو یقینی بنانا ہو گا؛ مضبوط اور زیادہ جامع ترقی کے لیے انفراسٹرکچر اصلاحات کو وسیع کرنا ہو گا‘‘۔ یہ بیل آؤٹ ریاض میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان ملاقات کے بعد طے پایا۔عالمی مالیاتی اداریکے ساتھ موجودہ 3 بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی انتظام کی میعاد 11 اپریل کو ختم ہونے کے بعد حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک نئے معاہدہ کی درخواست کی تھی۔ پاکستان میں زراعت ، صنعت، روزگار، ہاوسنگ، آبادی ،برآمدات ، ثقافت و کھیل کے ساتھ مہنگائی و موسمی تغیر جیسے چیلنج درپیش ہیں۔بیرونی سرمایہ کار بد انتظامی اور بد عنوانی کی شکایت کرتے ہیں۔یوں مسائل کی نوعیت بہت پھیلی ہوئی ہے لیکن ان کو حل کرنے کی استعداد سکڑتی چلی جا رہی ہے۔پاکستان میں مضبوط مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی جمہوری خسارے کا باعث بنی ہے۔ قومی اور صوبائی انتخابات پاکستان میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کو زیر کرتے ہیں۔ نچلی سطح پر ہونے والے ان انتخابات پر توجہ نہ دینے سے مقامی سطح پر جمہوری نمائندگی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ جس طرح اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں نے وفاقی حکومت سے اختیارات حاصل کیے، ان میں سے کچھ اختیارات کو ضلع، قصبے اور یونین کونسل کی سطح پر منتقل کرنا بہت ضروری ہے۔ گورننس میں حقیقی اصلاحات لانے کے لیے مقامی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے ہوں گے۔ صوبائی سے مقامی سطحوں تک اختیارات کی منتقلی صرف ایک طریقہ کار نہیں ہے بلکہ گورننس کا ایک بنیادی تصور ہے۔بیورو کریسی انتظامی فعالیت کی بجائے کام میں رکاوٹ ڈالنے والی تنظیم تصور کی جانے لگی ہے۔ضلعی سطح پر بیوروکریسی کی تنظیم نو، صوبائی حکام سے ہدایات حاصل کرنے کے بجائے مقامی حکومتوں کے تحت خدمات انجام دینے کی طرف لائی جانی چاہئے،یہ پاکستانی گورننس کی حرکیات میں ایک مثالی تبدیلی کی نشاندہی کرے گی۔ ضلعی اور ڈویژنل سطح پر بیوروکریسی کے کردار کو تبدیل کرنا ضروری ہے، تاکہ یہ صوبائی حکام سے براہ راست احکامات حاصل کرنے کے بجائے مقامی حکومت کے تحت کام کرے، انتظامی بہتری بیوروکریٹک اصلاحات کی کلید ہے۔ یہ تنظیم نو منتخب مقامی حکومتوں اور بیوروکریسی کے درمیان زیادہ باہمی تعاون پر مبنی تعلقات کو فروغ دیتی ہے،مقامی حکومتوں کی بیورو کریسی صوبائی حکومتوں کی بے جا مداخلت کو ختم کرتی ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی اور عدالتی نظام کی غیر فعالیت نے عام شہری کی زندگی بے بسی کا نمونہ بنا دی ہے۔اصلاحات کا کچھ حصہ اس سلسلے میں ضرور ہونا چاہئے۔ موجودہ حکمرانی کے نظام میں، عوام اکثر بیوروکریٹک اور سیاسی اشرافیہ کے زیر تسلط فیصلہ سازی کے عمل سے خود کو باہر محسوس کرتے ہیں۔ گورننس میں شہریوں کو فعال طور پر شامل کرنا ملکیت اور ذمہ داری کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ نظام میںشمولیت شہریوں کو غیر فعالکردار سے فعال شرکاء میں تبدیل کرتی ہے۔پاکستان کے حکمرانی کے ڈھانچے میں اصلاحات کا مطالبہ ایک مضبوط اور جامع جمہوریت کے ارتقاء کے لیے ناگزیر ہے۔ مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی، بیوروکریسی کی تشکیل نو اور شہری شرکت کی حوصلہ افزائی ایک ایسے گورننس سسٹم کی تعمیر کی جانب کلیدی اقدامات ہیں جو پاکستان کے عوام کی متنوع ضروریات اور خواہشات کے مطابق ہو۔ ان ٹھوس کوششوں کے ذریعے، پاکستان ایک ایسے مستقبل کی طرف گامزن ہوسکتا ہے جہاں گورننس ایک خصوصی معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک مشترکہ کوشش ہے جو حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کرتی ہے۔درکار اصلاحات کے لئے بڑے شعبے تجارت، ٹیرف اور مالیاتی سیکٹر ہیں جن میں قومی کمرشل بینکوں کی نجکاری، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن کی اجارہ داری کو توڑنا اور اس شعبے کو نجی شعبے کے لیے کھولنا اور اعلیٰ تعلیم کا فروغ شامل ہیں۔اصلاحات مسائل کو حل کرنے کا طرقہ ہوتی ہیں۔پاکستان میں تمام طبقات کا مسائل کی موجودگی کے حوالے سے اتفاق نظر آتا ہے۔ بد عنوانی، دہشت گردی، مہنگائی،قانون کی عمل داری،تعلیم و صحت کے شعبوں میں پسماندگی سے کسے انکار ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کوئی بھی ان معاملات پر دوسرے کی تجاویز قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وزیراؑظم کے سامنے اصلاحات لانا ایک چیلنج ہے خاص طور پر ایسی حالت میں جب ان کے سیاسی حریف ان کی حکومت کے مینڈیٹ اور حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔بہتر ہو گا کہ اصلاحات کے متعلق تمام سیاسی، عسکری و انتظامی حلقے ایک وسیع مشاورت کا آغاز کریں اور طے شدہ امور پر عمل درآمد کی خاطر باہمی تعاون کو اپنے اختلافات سے ماورا رکھیں۔
QOSHE - وسیع اصلاحاتی عمل اور اتفاق رائے - اداریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

وسیع اصلاحاتی عمل اور اتفاق رائے

32 0
02.05.2024




وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں وسیع اصلاحات لتعارف کرانے کی اطلاع دی ہے۔ریاض میں عالمی اقتصادی فورم کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ قرضوں کا جال پاکستان کے لئے موت کا پھندا بن گیا ہے۔انہوں نے مہنگائی، موسمیاتی تبدیلیوں اور سرمایہ کاری کے متعلق اصلاحات کو ترجیح قرار دیا۔وزیر اعظم کے ان خیالات کو آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو جاری ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی قسط سے منسلک شرائط کے ساتھ پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عالمی ادارے بھی پاکستان کے نظام کو ناکارہ قرار دے کر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے بیل آوٹ پیکیج کی آخری قسط جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان کو استحکام سے مضبوط اور پائیدار بحالی کی طرف لے جانے کے لیے حکام کو اپنی پالیسی اور اصلاحات کی کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے، بشمول کمزور طبقات کی حفاظت کرتے ہوئے مالی اہداف پر سختی سے عمل کرنا؛ بیرونی منفی اثرات کو غیر موثرکرنے کے لیے مارکیٹ سے طے شدہ شرح مبادلہ کو یقینی بنانا ہو گا؛ مضبوط اور زیادہ جامع ترقی کے لیے انفراسٹرکچر اصلاحات کو وسیع کرنا ہو گا‘‘۔ یہ بیل آؤٹ ریاض میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان ملاقات کے بعد طے پایا۔عالمی مالیاتی اداریکے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play