و اقعہ شہر میں کل تو کوئی ایسا نہ ہوا
برقی ذرائع ابلاغ میں اب زیادہ شوزلائیو ہی ہوتے ہیں لیکن ایک زمانہ تھا جب خبروں اور کچھ خاص حالات ِ حاضرہ کے شوز کے علاوہ ریڈیو پر بیشتر پروگرامز اور شوز پہلے ریکارڈ ہوتے تھے بعد میں اپنے شیڈول کے مطابق نشر کئے جاتے تھے، یہی حال پی ٹی وی کا بھی تھا حالانکہ پی ٹی وی کی شروعات لائیو شوز سے ہوئی تھیں، تب ڈرامہ بھی براہ راست نشر ہوتا تھا لیکن پھر ریکارڈنگز کی بہتر سہولتوں کے میسر آنے کے بعد یہ سلسلہ ترک کر دیا گیا تھا۔ ریڈیو میں ریکارڈنگز کی وجہ یہ بھی رہی کہ یہ ادارہ از حد محتاط تھا،سکرپٹ کی کڑی جانچ پڑتال کی جاتی تھی، بلکہ ہمارے زمانے تک تو آتے آتے یہ سختی بہت بڑھ گئی تھی اور سکرپٹ میں اتنی قطع و برید کی جاتی تھی کہ ہمیں خود اپنے موضوع کو اپنے سکرپٹ میں تلاش کرنا پڑتا تھا۔ ایک بار تو مجھے شک ہوا کہ یہ کانٹ چھانٹ بلا وجہ کی جاتی ہے پوچھنے پر سو سوالوں کا ایک ہی لگا بندھا جواب ملتا کہ یہ ہماری پالیسی کے خلاف ہے، چنانچہ ایک ذمہ دار افسر (اب حیات نہیں ہیں) کو میں نے اپنے کسی ٹاک شو کا سکرپٹ دکھایا اور انہوں نے حسب معمول کچھ سطریں کاٹ دیں میں نے پوچھا کیا یہ بھی پالیسی کے خلاف ہیں تو کہنے لگے جی بالکل اسی لئے تو کاٹ دیں، میں نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ مملکت خدادا پاکستان کے ایک معتبر ادارہ کی پالیسی کی زد میں جو سطریں آئی ہیں وہ آیات ربانی کا ترجمہ ہیں، کہنے لگے پھر آپ کو واوین(”) لگانا چاہیئے تھا نا، اسی طرح پروگرام پروڈیوسر........
© Daily AAJ
visit website