پی ڈی ایم میں جمعیت علمائے پاکستان بھی شامل رہی مگراس کی کوئی حیثیت کبھی سامنے نہیں آئی تھی۔ شاہ اویس نورانی کا چہرہ اکثر میٹنگز میں دکھائی جاتا تھا ۔حالانکہ کسی زمانے میں جمعیت علمائے پاکستان ،بریلوی مکتب فکر کی پاکستان میں نمائندہ سیاسی جماعت ہوتی تھی ۔شاہ احمد نورانی صدر ہوتے تھے ، مولانا عبدالستار خان نیازی جنرل سیکریٹری ،پھر ان دونوں لیڈران میں جھگڑا ہو گیا تھا جمعیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔سیاسی ساکھ رفتہ رفتہ ختم ہوتی گئی ۔ علامہ طاہر القادری نے اپنی علیحدہ عوامی تحریک شروع کر دی ۔ کچھ پیران ِعظام نون لیگ میں شامل ہو گئے ہیں ۔کچھ نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ کچھ تحریک انصاف میں بھی شامل ہوگئے۔جمعیت علمائے پاکستان کا نورانی گروپ کراچی بلکہ شاہ اویس نورانی تک محدود ہوکر رہ گیا۔نیازی گروپ کی عمل داری بھی پنجاب میں تنظیمی سطح کی حد میں رہی ۔جمعیت کی جو طلبا تنظیم تھی ،انجمن طلبائے اسلام ،اس کے بھی کئی ٹکڑے ہوئے اور وہ دوسری طلبا تنظیموں کی طرح اپنی سرگرمیاں محدود کرتی چلی گئی ۔کراچی میں ایک سنی تحریک وجود میں آئی یا لائی گئی وہ بھی ایک خود کش دھماکے کی نذر ہو گئی ۔جمعیت علمائے پاکستان پھر سیاسی طور پرزندہ کرنے کےلئے اس کے مرکزی جنرل سیکریٹری صاحبزادہ محمد صفدر شاہ نے گزشتہ دنوں خاصی کوشش کی اور آخر میں تھک ہار کےآصف علی زرداری سے ملاقات کی ، پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحادکرنے کا اعلان کیا۔جمعیت علمائے پاکستان کے بانی علامہ سید احمدسعیدکاظمی کے فرزند سید حامد سعید کاظمی بھی اس وقت پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پرالیکشن لڑرہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری پاکستان عوامی تحریک کے سیکریٹریٹ پہنچ گئے،جہاں انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔خرم نوازگنڈا پور نےبلاول بھٹو کے ساتھ باقاعدہ پریس کانفرنس کی۔شاہ اویس نورانی کا بھی پیپلز پارٹی سے اتحاد ہے۔یعنی پاکستان میں بریلوی مکتب کےتمام اہم لوگ اور پارٹیاں پیپلز پارٹی کے ساتھ جڑتی جا رہی ہیں۔تحریک لبیک بھی اس وقت کسی کے ساتھ جڑنا چاہ رہی ہے۔یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ آصف علی زرداری کے زیر سایہ شاہ اویس نورانی اور صاحبزادہ صفدر شاہ کسی طرح ایک ہوجائیں ۔مولانا فضل الرحمن نے بھی شاہ اویس کو سمجھانے کی بڑی کوشش کی مگرشایدوہ اپنی سیاست ذات سے آگے نہیں بڑھانا چاہتے،انیس سو ستر میں یہ جماعت آٹھ حصوں میں تقسیم تھی۔ٹوبہ ٹیک سنگھ میں سنی کانفرنس ہوئی ،قمرالدین سیالوی کی صدارت پر سبھی گروپ متفق ہو گئے ۔جمعیت علمائے پاکستان ایک قوت کی صورت میں نمودار ہوئی ۔ستر کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ اسی جماعت نےحاصل کیے ۔ بھٹو اگر کسی جماعت سے خوفزدہ تھا تویہی جماعت تھی ۔مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب ’اور لائن کٹ گئی‘ میں لکھا تھاکہ جب بھٹو کو پتہ چلا کہ قومی اتحاد کا سربراہ مفتی محمود کو بنایا گیا تو انہوں نے بے پناہ خوشی کااظہار کیاکہ شکر ہےشاہ احمد نورانی اس کے سربراہ نہیں بنائے گئے ۔ بھٹو کے مقابلےمیں وزیر اعظم کیلئے الیکشن اپوزیشن نے متفقہ طور پر شاہ احمد نورانی کو لڑایا تھا۔ابھی گزشتہ الیکشن میں تحریک لبیک کی ذرا سی ہمت پر اسے حیران کن ووٹ ملےتھے۔یعنی اب بھی تمام مشائخ عظام اور علمائے کرام دوبارہ اپنی اصل پارٹی کی طرف متوجہ ہوں دوبارہ جمعیت علماپاکستان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں تو یہ پارٹی پھر سے طاقت پکڑ سکتی ہے ۔ صاحبزادہ صفدر شاہ اسی کوشش میں تھے مگرانہیں شاید ہی اس مقصد میں کامیابی ملے کیونکہ لوگوں کے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات ہیں ۔میں موجودہ الیکشن کوانیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کی طرح دیکھ رہا ہوں ۔اس کے نتیجے میں سیاست دانوں کی ایک نئی کھیپ منظر عام پرآئی تھی اور بڑے بڑے نام عملی طور پر سیاست سے باہر ہو گئے تھے ۔اس مرتبہ پھر ویسا ہی کچھ ہونے والا ہے۔ امکان ہے ستر فیصد ایسے لوگ اسمبلیوں میںپہنچنے والے ہیں جو پہلی بار انتخاب لڑ رہے ہیں۔بڑے بڑے برج الٹنے والے ہیں۔

وہ سیاسی جماعتیں جو بڑے یقین سے حکومت بنانے پر یقین رکھتی ہیں یعنی مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی ،وہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ایک اور بات بھی بڑی صاف الفاظ میںدرج کردوں کہ انتخابات والے دن کسی دھاندلی کا کوئی امکان نہیں اور نہ ہی نتائج میں کوئی رد وبدل ہوگا۔وہی لوگ جیتیں گے جنہیں لوگ ووٹ دیں گے ۔ووٹ کسے ملنے والے ہیں یہ لیڈر شپ کو معلوم ہو یا نہ ہو ۔عوام سب جانتے ہیں ۔ووٹ دینے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے کسے ووٹ دینا ہے۔ انتخابی نشان کی حیثیت تو صرف آسانی فراہم کرنے کےلئے ہوتی ہے مگراب یہ آسانیاں سوشل میڈیا نے فراہم کرنا شروع کردی ہیں جیسے پی ٹی آئی نے ایک ایپ بنا دی ہے کہ آپ اگر اپنے حلقے میں پی ٹی آئی کا امیدوار تلاش کرنا چاہتے ہیں تو اس ایپ میں اپنے حلقے کا نمبر درج کریں ۔امیدوار کا نام سامنے آجائے گا۔جہاں تک ان پڑھ لوگوں کا تعلق ہے ۔اب موبائل فون ان کے پاس بھی ہیں اور وہ بھی انہیں استعمال کرنا جانتے ہیں ۔ پھر یہ نوجوانوں کا الیکشن ہے۔ستر فیصد ووٹر نوجوان ہیں ۔ان پر ان کے بزرگ موجودہ صورتحال میں اثر انداز نہیں ہو سکتے بلکہ نوجوانوں کے بزرگوں پر اثر انداز ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں ۔میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں نون لیگ کے پانچ امیدوار سامنے بیٹھے تھے اور جلسے میں تقریر کرنے والا شخص کہہ رہا تھا کہ ہمیں سب سے زیادہ دھیان اپنے گھروں پر دینا ہو گا ۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہمارے گھروں سے ہی ہمیں ووٹ نہ ملیں ۔یعنی انہیں معلوم ہے کہ نوجوان نسل کیا سوچتی ہے۔

کرائسٹ چرچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو ڈیبیو کرنے والے اوپنر حسیب اللّٰہ تیسری گیند پر صفر پر آؤٹ ہوگئے۔

رپورٹس کے مطابق شدید دھند کی وجہ سے موٹروے ایم ون پشاور سے رشکئی تک بند کردی گئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق ایف پی ایس سی کی درخواست پر ایف آئی اے نے ایف پی ایس سی کی سیکریسی برانچ کے اسسٹنٹ ندیم گرفتار کو گرفتار کیا۔

بادشاہ اور ملکہ نے 10 منٹ تک ملکی اور عوامی دلچسپی کی خبریں پڑھیں۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا ہے کہ ہر پریشان شخص گورنر ہاؤس آجائے، جب تک شعور پیدا نہیں ہوگا، مسائل حل نہیں ہوں گے۔

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف مسلط سازش نے ملک کا بیڑہ غرق کیا۔

ملزم سید مہدی ہائی ویلیو ٹارگیٹ کی ریکی کرنے کے بعد انفارمیشن اپنے گروپ کو دیتا تھا۔ انفارمشین کی بنا پر گینگ کے کارندے ٹارگیٹ کلنگ کرتے تھے۔

علی ضیاء کی عمر 66 برس تھی، انکے بیٹے حسن ضیاء نے والد کے انتقال کی تصدیق کردی۔

پولیس کے مطابق مقتول گزشتہ رات دوست کے ساتھ گھر سے نکلا تھا، اہل خانہ کی نشاندہی پر مقتول کے دوست طلحہ کو حراست میں لیا گیا ہے۔

پاکستان میں آزادی اظہار کو یقینی بنانے کےلیے مختلف یونینز، پریس کلبز، صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی ایسوسی ایشنز نے فری میڈیا کےلیے اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

بالی ووڈ ڈانسراور اداکارہ نورا فتحی ڈیپ فیک ویڈیو کا تازہ شکار بن گئیں۔

سرگودھا کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر( آر او) نے الیکشن کمشنر پنجاب کو خط لکھ دیا۔

اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کےلیے اسرائیل کو معاہدہ کرنا پڑے گا، موسیٰ ابو مرزوق

ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ کا کنٹریکٹ 15 دسمبر 2023 تک تھا۔

حافظ نعیم نے کہا کہ میاں صاحب کراچی کی بنیادی ضروریات اور صنعتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

چین پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلئے تعاون کو مزید گہرا کرے گا: چینی نائب وزیر خارجہ

QOSHE - منصور آفاق - منصور آفاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

منصور آفاق

14 0
21.01.2024

پی ڈی ایم میں جمعیت علمائے پاکستان بھی شامل رہی مگراس کی کوئی حیثیت کبھی سامنے نہیں آئی تھی۔ شاہ اویس نورانی کا چہرہ اکثر میٹنگز میں دکھائی جاتا تھا ۔حالانکہ کسی زمانے میں جمعیت علمائے پاکستان ،بریلوی مکتب فکر کی پاکستان میں نمائندہ سیاسی جماعت ہوتی تھی ۔شاہ احمد نورانی صدر ہوتے تھے ، مولانا عبدالستار خان نیازی جنرل سیکریٹری ،پھر ان دونوں لیڈران میں جھگڑا ہو گیا تھا جمعیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔سیاسی ساکھ رفتہ رفتہ ختم ہوتی گئی ۔ علامہ طاہر القادری نے اپنی علیحدہ عوامی تحریک شروع کر دی ۔ کچھ پیران ِعظام نون لیگ میں شامل ہو گئے ہیں ۔کچھ نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ کچھ تحریک انصاف میں بھی شامل ہوگئے۔جمعیت علمائے پاکستان کا نورانی گروپ کراچی بلکہ شاہ اویس نورانی تک محدود ہوکر رہ گیا۔نیازی گروپ کی عمل داری بھی پنجاب میں تنظیمی سطح کی حد میں رہی ۔جمعیت کی جو طلبا تنظیم تھی ،انجمن طلبائے اسلام ،اس کے بھی کئی ٹکڑے ہوئے اور وہ دوسری طلبا تنظیموں کی طرح اپنی سرگرمیاں محدود کرتی چلی گئی ۔کراچی میں ایک سنی تحریک وجود میں آئی یا لائی گئی وہ بھی ایک خود کش دھماکے کی نذر ہو گئی ۔جمعیت علمائے پاکستان پھر سیاسی طور پرزندہ کرنے کےلئے اس کے مرکزی جنرل سیکریٹری صاحبزادہ محمد صفدر شاہ نے گزشتہ دنوں خاصی کوشش کی اور آخر میں تھک ہار کےآصف علی زرداری سے ملاقات کی ، پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحادکرنے کا اعلان کیا۔جمعیت علمائے پاکستان کے بانی علامہ سید احمدسعیدکاظمی کے فرزند سید حامد سعید کاظمی بھی اس وقت پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پرالیکشن لڑرہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری پاکستان عوامی تحریک کے سیکریٹریٹ پہنچ گئے،جہاں انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔خرم نوازگنڈا پور نےبلاول بھٹو کے ساتھ باقاعدہ پریس کانفرنس کی۔شاہ اویس نورانی کا بھی پیپلز........

© Daily Jang


Get it on Google Play