سعودی عرب کے شہر ریاض میں ملک کا پہلا شراب خانہ کھولا جا رہا ہے ،مجھے نہیں پتا کہ یہ کون سا اسلام ہےجو برادر اسلامی ملک میں اپنایا جا رہا ہے کیونکہ اگر ’ماضی والا اسلام ‘ٹھیک تھا تو پھر اب شراب خانے کا اجازت نامہ کس شریعت کے تحت جاری کیا جا رہا ہے؟اِن سوالوں کے جواب میں جس قسم کی تاویلیں دی جاتی ہیں اُن کا خلاصہ اگر کیا جائے تو اِس قسم کا ہوگا کہ یہ اسلام نہیں بلکہ آمریت اور ملوکیت کے ماڈل ہیں جو برادر ممالک میں رائج ہیں، وہاں بادشاہ کا کہا ہوا حرف آخر ہے جبکہ اسلام میں اللہ کا حکم چلتا ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا،شراب اگر اسلام میں حرام ہے تو اسے کسی شاہی فرمان کے ذریعے حلال نہیں کیا جا سکتا ،خواتین کیلئے اگر پردے کا حکم ہے تو اسے بہ یک جنبش قلم کوئی ختم نہیں کرسکتا،عورتوں اور مردوں کے اختلاط کی اگر دین میں ممانعت ہے تو کوئی عالم دین اسے اپنی خواہش کے مطابق بدل نہیں سکتا۔کچھ لوگ اِن جوابات سے مطمئن ہوجاتے ہیں مگر کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جویہ باتیں سننے کے بعد مزید الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں اور سوچتےہیں کہ اگر برادر ممالک میں دین درست طریقے سے نافذ نہیں ہے تو کیا ایران ، افغانستان اور پاکستان میں صحیح طور سے نافذ ہے؟اِس سوال کے جواب میں مزید تاویلیں تراشی جاتی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ نہیں یہ بھی اسلام کی اصل تصویر نہیں ، تاہم اصل تصویر کیا ہے،یہ کوئی نہیں سمجھاتااور نہ اِس بات کاتسلی بخش جواب دے پاتا ہے کہ اگر دنیا میں کہیں بھی اسلام اپنی اصل شکل میں نافذ نہیں تو ایسا کیوں ہے؟ میرا موضوع یہ نہیں کہ اسلام کی درست تعبیر کیاہے ، کہاں نافذ ہے ، کیسے نافذ کی جا سکتی ہے، اِس پر پھرکبھی اظہار خیال کروں گا، آج موضوع یہ ہے کہ سوالات کے تسلی بخش جوابا ت کیوں نہیں ملتے، کہاں ہیں وہ لوگ جو علم الکلام کے ماہرتھے ، کہاں گئے وہ عالم دین جن کا بیان سن کر دل مطمئن ہوجاتا تھا اور کہاں ناپید ہو گئے وہ حکما جو اپنی گفتگو سےہمیں مسحور کردیتے تھے...کیا معاشرے میں کوئی دانا اور صاحب ِ علم باقی نہیں رہا یا پھر نوجوان نسل کی بے چینی اور اضطراب اتنا بڑھ گیا ہےکہ عہدِ حاضر کے علما کی باتوں سے اُن کی تشفی نہیں ہوتی؟

ایک مثال ملاحظہ ہو۔ایک مذہبی دانشورسے ،جن کی فین فالوئنگ گوجر خان سے لے کر ملک کے چاروں کونوں تک پھیلی ہے، کسی نے سوال کیا کہ دین کیوں ضروری ہے ،اُس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ اگر آپ دین کو نہیں مانتے تو آپ ایک برے کاروباری ہیں ، کیونکہ آپ کو یہ نہیں پتا کہ یہ بڑی مختصر سی دنیا ہے اور آگے کھرب ہا کھرب سال کی نا ختم ہونے والی زندگی ہےجس کا سودا آپ یہاں ساٹھ ستّر سال میں کریں گے ،یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اگر آپ اپنے لیے مستقل جہنم کا انتخاب کریں گے تو مجھے کوئی شوق نہیں کہ آپ کو قائل کروں کہ آپ خدا کو ضرور مانیں مگر ایک انسان کے طور پر اگر آپ تاجر پیشہ ہیں یا دانشور ہیں ، پڑھے لکھے ہیں ، تو سب سے بنیادی بات جو آپ کو پتا ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ اِس مختصر زندگی کی خاطر میں کھرب ہا کھرب کی دائمی زندگی کا سودا نہیں کرسکتا اِس لیے مجھے خدا کی ضرورت ہے ...محترم دانشور کا بیان تو اِس کے بعد بھی جاری رہتا ہے مگر اُن کی بنیادی دلیل یہی ہے جو انہوں نے دین کی حمایت میں بیان کی ہے۔ جو بات انہوں نے کی وہ بلیز پاسکل نامی فرانسیسی ریاضی دان اور فلسفی آج سے چار سو سال پہلے کر چکا ہے ، اُس کی دلیل کو پاسکل ویجر کہا جاتا ہے۔ اِس دلیل سے دسویں جماعت کا بچہ تو شاید مطمئن ہو جائے مگر سوچنے سمجھنے والے نوجوان کو اگر آپ یوں قائل کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ اُلٹا مزید شکوک و شبہات کا شکار ہو جائے گا۔ پاسکل ویجر میں کئی سقم ہیں، پاسکل چونکہ کیتھولک تھا اِس لیے اُس نے فرض کر لیا کہ قیامت والے دن مسیحی خدا ہو گا جبکہ دنیا میں خدا کے ماننے والے سینکڑوں مذاہب ہیں، یہ دلیل خدا کے وجود کو ثابت نہیں کرتی بلکہ اِس میں انسان سے درخواست پوشیدہ ہے کہ اگر تم دل سے خدا کو نہیں بھی مانتے تو کوئی بات نہیں، صرف یہ ظاہر کرتے رہو کہ تم مانتے ہو، اسی میں تمہارا فائدہ ہے۔ اگر ہمارے حکما کے پاس نوجوانوں کیلئے اِس قسم کا علم الکلام ہی بچا ہے تو پھر دین کا خدا ہی حافظ ہے۔

جدید سائنسی دور میں علم الکلام کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے، مذہب سے متعلق سوالات تو صدیوں پرانے ہیں جن کے جوابات بھی موجود ہیں، مگر سائنس نے گزشتہ سو برسوں میں جو انقلاب برپا کیا ہے اُس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ سائنسی انقلاب نے بہت سے پرانے نظریات کو ملیا میٹ کردیا ہے، مافو ق الفطرت اشیا کے تصور پر کاری ضرب لگائی ہے، انسانوں کے جنسی رجحانات پر سائنسی تحقیق ہوئی ہے جس کے بعد اب ہم جنس پرستی کو لعنت نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح کلوننگ، سرو گیسی، سپرم ڈونیشن اور جنیٹک انجینئرنگ نے ایسے چکرا دینے والے مسائل کو جنم دیا ہے جن کا حل ابھی مغرب کے پاس بھی نہیں، اسی لیے فی الحال اِس قسم کی سائنسی پیش رفت قابو میں ہے، کہیں اِس پر قانون سازی جاری ہے اور کہیں اِس کے اخلاقی پہلو زیر بحث ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج سے سو پچاس سال بعد، یا اِس سے بھی پہلے، جب انسان کے جینز تبدیل کرکے نیا انسان تخلیق کیا جائے گا تو کیا اُس وقت ہمارے حکما اِس قابل ہوں گے کہ اپنے علم و دانش کے بل بوتے پراُس پیچیدہ صورتحال میں سوالات کے جواب دے سکیں؟ اگر ہماری حکمت کا یہی حال رہا جو آج ہے کہ ہم بنیادی سوالوں کے جواب بھی ایسے نہیں دے پاتے کہ جن سے نوجوان نسل مطمئن ہو جائے تو سو سال بعد جو نسل پیدا ہو گی اُس کی تشفی کیسے ہو گی؟ آج ریاض میں شراب خانہ کھُل رہا ہے، یہ شراب خانہ کابُل میں کیوں نہیں کھل سکتا، آج کے حکما اِس سوال کے جواب سے شروعات کریں ، شاید پھر ہم کہیں پہنچ جائیں!

سیکیورٹی معاون کا مزید کہنا تھا کہ سیستان بلوچستان میں عدم تحفظ پیدا کرنے والوں کے خلاف فیصلہ کُن اقدامات کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کا مقابلہ کسی جماعت سے نہیں اپنی ہی ماضی کی کارکردگی سے ہے، منشور میں ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا ہے تو ن لیگ کا ماضی گواہ ہے۔

پنجاب بھر کے ڈرگ انسپکٹرز کو ان سیرپ کو قبضے میں لینے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

ثمر بلور نے کہا کہ یہ لوگ کس منہ سے یہاں آکر ووٹ مانگیں گے۔

بالی ووڈ کے باصلاحیت اداکار کارتک آریان کی زندگی کا نیا رخ مداحوں کے سامنے آگیا۔

انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ کے گروپ بی کے مقابلے میں جنوبی افریقا نے اسکاٹ لینڈ کو 7 وکٹ سے ہرا دیا۔

ان مقابلوں میں ملک بھر سے تن سازوں نے اپنی مہارت کا شاندار مظاہرہ کیا۔

گوجرانوالا کے حامد اور قصور کی زارا پولیس کے محکمے میں ہیں۔

وہ ہمارے مرشد ہیں ہمیں، مار سکتے ہیں، ڈانٹ بھی سکتے ہیں، شاگرد نوید حسنین

نگراں وفاقی وزیر نے کہا کہ وطن عزیز میں ہر سال 75 ہزار آئی ٹی گریجویٹس فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔

فضل الرحمان نے کہا کہ معیشت تباہ کرنے والے نے جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ کیا۔

دانیال عزیز نے الزام لگایا ہے کہ ان کے حامیوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔

بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ میاں صاحب کراچی کے این آئی سی وی ڈی کے باہر مباحثہ کر لیں۔

گورننگ بورڈ میں آزاد جموں و کشمیر اور ڈیرہ مراد جمالی کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔

اب اس حلقے میں تھانے کچہری اور كمیشن کی سیاست نہیں ہوگی، این اے97 میں اب تبدیلی آگئی ہے، صرف عوام کی خدمت ہوگی، ہمایوں اختر

QOSHE - یاسر پیر زادہ - یاسر پیر زادہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

یاسر پیر زادہ

58 8
28.01.2024

سعودی عرب کے شہر ریاض میں ملک کا پہلا شراب خانہ کھولا جا رہا ہے ،مجھے نہیں پتا کہ یہ کون سا اسلام ہےجو برادر اسلامی ملک میں اپنایا جا رہا ہے کیونکہ اگر ’ماضی والا اسلام ‘ٹھیک تھا تو پھر اب شراب خانے کا اجازت نامہ کس شریعت کے تحت جاری کیا جا رہا ہے؟اِن سوالوں کے جواب میں جس قسم کی تاویلیں دی جاتی ہیں اُن کا خلاصہ اگر کیا جائے تو اِس قسم کا ہوگا کہ یہ اسلام نہیں بلکہ آمریت اور ملوکیت کے ماڈل ہیں جو برادر ممالک میں رائج ہیں، وہاں بادشاہ کا کہا ہوا حرف آخر ہے جبکہ اسلام میں اللہ کا حکم چلتا ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا،شراب اگر اسلام میں حرام ہے تو اسے کسی شاہی فرمان کے ذریعے حلال نہیں کیا جا سکتا ،خواتین کیلئے اگر پردے کا حکم ہے تو اسے بہ یک جنبش قلم کوئی ختم نہیں کرسکتا،عورتوں اور مردوں کے اختلاط کی اگر دین میں ممانعت ہے تو کوئی عالم دین اسے اپنی خواہش کے مطابق بدل نہیں سکتا۔کچھ لوگ اِن جوابات سے مطمئن ہوجاتے ہیں مگر کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جویہ باتیں سننے کے بعد مزید الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں اور سوچتےہیں کہ اگر برادر ممالک میں دین درست طریقے سے نافذ نہیں ہے تو کیا ایران ، افغانستان اور پاکستان میں صحیح طور سے نافذ ہے؟اِس سوال کے جواب میں مزید تاویلیں تراشی جاتی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ نہیں یہ بھی اسلام کی اصل تصویر نہیں ، تاہم اصل تصویر کیا ہے،یہ کوئی نہیں سمجھاتااور نہ اِس بات کاتسلی بخش جواب دے پاتا ہے کہ اگر دنیا میں کہیں بھی اسلام اپنی اصل شکل میں نافذ نہیں تو ایسا کیوں ہے؟ میرا موضوع یہ نہیں کہ اسلام کی درست تعبیر کیاہے ، کہاں نافذ ہے ، کیسے نافذ کی جا سکتی ہے، اِس پر پھرکبھی اظہار خیال کروں گا، آج موضوع یہ ہے کہ سوالات کے تسلی بخش جوابا ت کیوں نہیں ملتے، کہاں ہیں وہ لوگ جو علم الکلام کے........

© Daily Jang


Get it on Google Play