مسائل کی حقیقی بنیاد تلاش کئے بغیر……
ہماری قوم سیاست افتراق و انتشار کا شکار ہے اس میں اختلاف رائے ہی نہیں ہے بلکہ بنیادی نظری و فکری تفریق بھی پائی جاتی ہے۔ یہ تفریق صرف بحث و مباحثے کی حد تک ہوتی تو اسے سیاست کا حسن قرار دیا جاتا، اسے رحمت بھی کہا جاتا کیونکہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن کہلاتا ہے یہ اسی تفریق کا نتیجہ تھا کہ ہمارا ملک دولخت ہو گیا۔ دور جدید کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی ملک کی اکثریتی آبادی یعنی بنگالیوں نے ملک کی اقلیت پنجابی، پٹھان وغیرہ سے الگ ہونے کی تحریک چلائی۔ دشمن ملک کے ساتھ مل کر اپنے آدرشوں کے مطابق، ایک علیحدہ وطن حاصل کیا،سقوط مشرقی پاکستان ہمارے اس فکری انتشار کا شاخسانہ تھا اور ایسا ہی فکری انتشار آج ہماری سیاست پر چھایا ہوا ہے، ہماری معیشت کو تار تار کر چکا ہے، ہماری معاشرت کو داغدار کر چکا ہے۔ یہ فکری انتشار اور افتراق و تفریق ہے کیا جو ہمارے قومی وجود کے لئے زہر قاتل بن چکا ہے؟
کراچی کی رہائشی شبنم نے گیس کی لوڈشیڈنگ اور فکس چارجز کے نفاذ کیخلاف بڑا قدم اٹھا لیابات دراصل یہ ہے کہ ہم آج تک،آزادی کی سات دھائیاں گزر جانے کے باوجود یہ بات طے نہیں کر پائے کہ یہاں حکمرانی کا حق کس کے پاس ہے؟ یہاں کون مقتدر ہے؟ فی الاصل حق حکمرانی کس کے پاس ہے؟ یہ ملک کس طرح چلے گا یہاں کی ہیتِ حاکمہ کیا ہوگی؟ ویسے تو کہا جاتا رہا ہے کہ یہ ملک جمہوری انداز میں قائم........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website