”بابوؤں“ کا نیا کارنامہ اور حکمت؟
صدر مملکت آصف علی زرداری نے صدارتی انتخاب سے قبل اپنی طرف سے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا ”اسلام آباد میں بیٹھے ”بابو“ اس کے ذمہ دار ہیں۔ ان کی طرف سے یہ کہہ تو دیا گیا اور یہ بھی فرمایا کہ ہم اسے ٹھیک کریں گے“ وہ صدر مملکت بن گئے اور اب ان کی مصروفیات بھی سرکاری ہیں، قیام بھی اسلام آباد ہی میں ہے وہ پہلے پارلیمانی سال کا افتتاح کرتے ہوئے پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کر چکے ہیں تاہم ان کی طرف سے ابھی تک اسلام آبادی بابوؤں کو درست کرنے کی کوئی کارروائی یا تجویز سامنے نہیں آئی اور نہ ہی انہوں نے حکومت کو سفارشات کے ساتھ کوئی ہدایت کی ہے البتہ ان کی طرف سے ان کے وکلاء نے ضرور پیش قدمی کی ہے اور جو مقدمات قائم تھے ان میں باری باری صدارتی استثنیٰ لینا شروع کر دیا ہے کہ چلو پانچ سال کے لئے تو جان چھوٹے (اگر اللہ نے بھی چاہا تو) یہ تو ایک اطلاعی نوعیت کی بات ہے کہ ہمارے ملک کا نام ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہے اور قرارداد مقاصد آئین کا حصہ ہے محترم صدر مملکت کی توجہ کے لئے قائد حزب اختلاف عمر ایوب اور تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کا یہ اعتراض بھی پیش نظر ہے کہ آصف علی زرداری نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے باوجود پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین کی صدارت نہیں چھوڑی جو اس منصب کا تقاضہ ہے۔
نیوزی لینڈسے سیریز برابر ہونے کے بعد کپتان بابر اعظم کا بیانمیرے یقین کے مطابق یہ اعتراض درست اور واجب ہے کہ ان کے پیشرو اورا ن سے پہلے صدور سیاست سے لاتعلقی اختیار کر لیتے رہے ہیں تاہم شاید آصف علی........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website