[email protected]

ریاست اور سیاست دونوں ہی سنگین نوعیت کے بحران سے جڑے ہوئے ہیں۔ قومی سیاست درست سمت کی طرف پیش قدمی کی بجائے مسائل در مسائل کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ سیاست کو بند گلی میں لے جانے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے۔

محض سیاسی فریقین ہی نہیں، سول سوسائٹی اور میڈیائی دانشور بھی اپنی اپنی دکان سجا کر بیٹھے ہیں۔ اس سارے منظرنامہ میں جمہوری اقدار پیچھے رہ گئی ہیں، سیاست سے جڑے فریقین اقتدار کے حصول کے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں ۔ اقتدار کے اس کھیل کا کوئی اصول نہیں ہے، واحد اصول خود کو ایک بڑے حصہ دار کے طور پر منوانا ہے۔

اقتدار کی اس جنگ میں ہر کوئی ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے ۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول انتخابات کے بعد بھی جو نئی حکومت آئے گی، اسے سیاسی ، معاشی ، سیکیورٹی سطح کے سنگین مسائل سے نمٹنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

انتخابات کا مجموعی کھیل روزانہ کی بنیادوں پر نئے نئے سیاسی تضادات کو جنم دے رہا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ سیاسی فریق تنہا اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔اس بات سے کسی کو بھی کوئی ڈر اور خوف نہیں یا ان کو حالات کی سنگینی کا احساس نہیں کہ ہماری ترقی کا عمل آگے کیسے بڑھے گا ۔ سیاست میں ڈائیلاگ کا دروازہ بند ہے، یہ سیاسی بحران کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اس لیے ملک کو درپیش مسائل کا حل اجتماعی دانش سے نکالنا ہوگا۔

ان مسائل کا حل ٹکراؤ یا سیاسی دشمنی سے ممکن نہیں ۔سیاسی محاذ پر سیاسی پنڈتوں اور تجزیہ نگاروں کو دیکھیں تو ان کی طرف سے بھی ان حالات میں درستگی کا ماحول پیدا کرنے کے بجائے تقسیم کو اور زیادہ گہرا کیا جارہا ہے ۔

مجموعی طور پرکوئی اس بیانیہ پرآنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی اپنی گفتگو یا تحریروں سے دباؤ ڈالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے کہ سیاست میں دشمنی کے کھیل کو بند کیا جائے اور سیاست کو سیاست کے ساتھ یا سیاسی حکمت عملیوں کو ہی بنیاد بنا کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہی دانش مندی ہوگی ۔

بعض تجزیہ کار تو حالات کی درستگی کی بجائے اس میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اس بات سے قطع نظر کہ انتخابات کے نتائج کیا ہوںگے اور کون مقبولیت رکھتا ہے یا ووٹرز میں پاپولر ہے، ہم سب کو یہ مشورہ دے رہے ہیں یا ان کو پیغام پہنچا رہے ہیں کہ سیاست کو سیاسی اصول سے ہی چلایا جائے ۔

قومی سیاست جوڑ توڑ اور سازش کے کھیلوں کا وسیع تجربہ رکھتی ہے اور اسی کھیل کو بنیاد بنا کر اس میں نئے سیاسی رنگ اور نئے سیاسی کردار تشکیل دیے جاتے رہے ہیں ۔وجہ صاف ہے کہ ہم اپنے نظام میں موجود خرابیوں کی اصلاح کے لیے تیار نہیں اور چاہتے ہیں کہ اسی طرز کی بنیاد پر جاری روائتی بنیاد پر چلنے والے نظام کو ایسے ہی چلایا جاتا رہے۔

لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ یہ کھیل جو کئی دہائیوں سے قومی سیاست میں چل رہا ہے اپنی اہمیت ، افادیت کھوچکا ہے اور مسلسل اس کھیل کی ساکھ منفی بنیادوں پر آگے بڑھ رہی ہے۔

ہمارا نظام برے طریقے سے بے نقاب ہوا ہے اور لوگو ں کو اندازہ ہوا ہے کہ ہم کہاں تک نیچے چلے گئے ہیں ۔ اس لیے اس بیمار نظام کو جتنی جلدی ہم سمجھ سکیں اور اس میں جو اصلاحات ہمارے لیے ناگزیر ہوگئی ہیں اس کو ایمرجنسی بنیادوں پر اختیار کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔

لوگ نظام سے نالاں ہوتے جارہے ہیں اور اس کو روکنے کے لیے یا اس نظام پر لوگوں کی ملکیت کے تصور کو مضبوط بنانے کے لیے ہمیں واقعی ہر محاذ پر غیر معمولی سطح کے اقدامات کرنے ہوںگے ۔لوگوں کے معاشی سطح پر موجود سنگین مسائل ہیں۔

ان میں بے روزگاری ، بنیادی حقوق سے جڑے معاملات پر عدم رسائی ، بجلی ، گیس ، پٹرول یا ڈیزل سمیت ادویات یا کھانے پینے کی چیزوں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے امور شامل ہیں ۔گورننس یا اچھی حکمرانی کا یہ بحران لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں کم اور مشکلات کو زیادہ پیدا کررہا ہے ۔لوگوں میں یہ لگنا کہ سیاست ، جمہوریت اور انتخابات کا عمل ہماری مشکلات کو کم نہیں بلکہ زیادہ کررہا ہے، وہ زیادہ تشویش کا پہلو ہے ۔

یہ عمل سیاست اور جمہوریت کے مفاد میں نہیں اور نہ ہی اس سے ہمار ا معاشی بحران حل ہوسکے گا ۔ کیونکہ عالمی اور قومی سطح پر جو بھی مالیاتی ادارے ہیں جو معاشی حالات کا جائزہ لے کر مستقبل کی تصویر کشی کرتے ہیں، ان کے بقول بھی ہمارے حالات 2024 میں بھی بہت زیادہ مثبت تبدیلی کے ساتھ سامنے نہیں آسکیں گے ۔

یہ اس لیے ہمارے چیلنجز بڑھ رہے ہیں اور ہمیں لوگوں میں یہ اعتماد پیدا کرنا ہوگا کہ ہم بہتری کی طرف جائیںگے۔ کیونکہ نوجوان نسل میں جو مایوسی بڑھ رہی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ سب نوجوانوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ انھوں نے ملک کو چھوڑنا ہے ۔ہمارے مسائل کا حل نئی نسل سمیت مختلف فریقوں کو گالی دینے ، ان کو برا بھلا کہنے یا کسی کی حب الوطنی کو چیلنج کرنے یا ان میں ہر سطح پر غداری کے لفظوں سے ممکن نہیں ۔ ہمیں لوگوں کو جوڑنا ہے اور ان کے ساتھ سیاسی بنیاد پر حل بھی تلاش کرنا ہے ۔

ہمیں جو حکمت عملی یا سنجیدگی یا سخت گیر فیصلے کرنے ہیں یا جو کڑوی گولیاں کھانی ہیں اس کے لیے ہم تیار نہیں ۔ ٹھوس منصوبہ بندی کی بجائے وقتی بنیادوں پر فیصلے کرکے حالات سے جان بچانے کی ہی کوشش کی جا رہی ہے ۔

ایسے لگتا ہے حالات سے نمٹنے کے لیے ہمارے فیصلوں میں یا اقدامات میں جو گہرائی نظر آنی چاہیے اس کا ہمیں ہر سطح پر فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ تعمیر اور ترقی کا کام پیچھے رہ گیا ہے ۔اس لیے حکومتی ادارے ، پالیسی ساز سمیت اہل سیاست خود کا بھی محاسبہ کریں اور قوم کو بھی یہ پیغام دیں کہ ریاست ان کے بنیادی حقوق کے ساتھ کھڑی ہے ۔

یہ جو مختلف طرز کے مضبوط مافیاز کھڑے کردیے ہیں ان کو کمزور کرنا ، آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ، سیاسی اور جمہوری اقدار کا فروغ اور عام آدمی کی ترقی کو بنیاد بنا کر ہی ہم مستحکم پاکستان کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں ۔ اگر ہر فریق اپنے اپنے آئینی اور قانونی یا سیاسی دائرہ کار میں رہ کر کام کرے اور کسی کے کام میں مداخلت نہ کی جائے تو مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔

QOSHE - قومی سیاست کا منظر نامہ - سلمان عابد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

قومی سیاست کا منظر نامہ

12 4
05.01.2024

[email protected]

ریاست اور سیاست دونوں ہی سنگین نوعیت کے بحران سے جڑے ہوئے ہیں۔ قومی سیاست درست سمت کی طرف پیش قدمی کی بجائے مسائل در مسائل کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ سیاست کو بند گلی میں لے جانے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے۔

محض سیاسی فریقین ہی نہیں، سول سوسائٹی اور میڈیائی دانشور بھی اپنی اپنی دکان سجا کر بیٹھے ہیں۔ اس سارے منظرنامہ میں جمہوری اقدار پیچھے رہ گئی ہیں، سیاست سے جڑے فریقین اقتدار کے حصول کے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں ۔ اقتدار کے اس کھیل کا کوئی اصول نہیں ہے، واحد اصول خود کو ایک بڑے حصہ دار کے طور پر منوانا ہے۔

اقتدار کی اس جنگ میں ہر کوئی ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے ۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول انتخابات کے بعد بھی جو نئی حکومت آئے گی، اسے سیاسی ، معاشی ، سیکیورٹی سطح کے سنگین مسائل سے نمٹنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

انتخابات کا مجموعی کھیل روزانہ کی بنیادوں پر نئے نئے سیاسی تضادات کو جنم دے رہا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ سیاسی فریق تنہا اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔اس بات سے کسی کو بھی کوئی ڈر اور خوف نہیں یا ان کو حالات کی سنگینی کا احساس نہیں کہ ہماری ترقی کا عمل آگے کیسے بڑھے گا ۔ سیاست میں ڈائیلاگ کا دروازہ بند ہے، یہ سیاسی بحران کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اس لیے ملک کو درپیش مسائل کا حل اجتماعی دانش سے نکالنا ہوگا۔

ان مسائل کا حل ٹکراؤ یا سیاسی دشمنی سے ممکن نہیں ۔سیاسی محاذ پر سیاسی پنڈتوں اور تجزیہ........

© Express News


Get it on Google Play