[email protected]

عمومی طور پر انتخابات کا عمل قومی مسائل کے حل کی طرف پیش قدمی کی صورت میں ہوتا ہے ۔کیونکہ ووٹ کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلی کا عمل اور نئی حکومت کی تشکیل پہلے سے موجود مسائل کا مضبوط حل تلاش کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔

پاکستان میں عوامی مسائل خاصے پیچیدہ نوعیت کے ہیں ۔ ہم محض سیاسی مسائل کا ہی شکار نہیں ہے بلکہ معیشت، سیکیورٹی ، گورننس کے معاملات بھی ہیں ۔ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت اور مستقبل کی پالیسیز کے حوالے سے بھی کچھ لوگوں کے ہاں غیر یقینی کا ماحول ہے ۔ایسے میں ہم کیسے آگے بڑھ سکیں گے اوروہ کونسے اقدامات ہیں جو ہم کو یہ یقین دلاسکیں کہ ہم بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔

پاکستان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ہی درست ہے اور باقی سب غلط ہیں ، دوئم وہ یہ ہی چاہتے ہیں کہ ہماری بالادستی ہر صورت میں قائم رہنی چاہیے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ آئین و قانون کے مقابلے میں افراد کی خوشنودی ہر سطح پر غالب ہے ۔ انتخابات کا عمل پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی متنازعہ رہا ہے لہٰذا اب بھی اگر یہ باتیں ہو رہی ہیں تو اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔

مجھے لگتا ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں جو بھی حکومت بنے گی وہ چند ووٹوں کی بنیاد پر کھڑی ہوگی، یا اتحادیوں کے سہارے کھڑی ہوگی۔ نئی حکومت کوسب سے پہلے معاشی بحران کا سامنا کرنا ہوگا ، ایک اتحادی حکومت کے لیے بڑے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ان چیلنجزسے نمٹنے کے لیے جو بڑی اصلاحات ناگزیر ہیں، انھیں عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہوگا ۔

معاشی بحران اور دہشت گردی کا مقابلہ کمزور حکومتی ماڈل کے ساتھ کبھی ممکن نہیں ہوسکتا بلکہ کمزور حکومتی ماڈل پہلے سے موجود مسائل میں زیادہ مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔

یہ کمزور حکومتی ماڈل جان بوجھ کر قائم کیا جاتا ہے اور اس کے پیچھے ایک سوچ ان حکومتی ماڈل کو اپنے سیاسی کنٹرول میں رکھنا ہوتا ہے اور اگر وہ کسی بھی سطح پر مزاحمت کریں تو ان کو کمزور حکومتی ماڈل کی بنیاد پر سمجھوتوں کی سیاست پر مجبور کیا جاسکے او ریہ ہی کہانی کئی دہائیوں سے قومی سیاست پر غالب ہے ۔اس لیے اگر ہم نے واقعی سنجیدگی سے معاشی اور داخلی مسائل کرنا ہے تو اس کی ایک بڑی کنجی جہاں مضبوط سیاسی نظام سے تعلق رکھتی ہے وہیں ہمیں انتخابات کو متنازعہ بنانے سے روکنا ہے ۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آج کی گوبل دنیا میں انتخابات محض کسی کے لیے داخلی معاملہ نہیں بلکہ اس کا ایک تناظر خارجی یا عالمی دنیا بھی ہے ۔ اس لیے ہمیں داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی جو عام انتخابات کو متنازعہ بنانے کی کوششوں میں مصروف کار ہیں ۔

اگر واقعی ہماری ریاست کو ایک جدید ریاست میں تبدیل ہونا ہے اور اس جدید ریاست کا براہ راست تعلق ریاستی نظام او ر افراد سے کرنا ہے ہے تو ہمیں موجودہ ریاستی نظام میں بنیادی نوعیت کی سیاسی ،سماجی ، انتظامی ،قانونی ، معاشی تبدیلوں کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ ہم جہاں کھڑے ہیں وہاں موجودہ نظام کسی بھی صورت میں ایک مضبوط ریاست اورخود مختار پاکستان کی ضمانت نہیں بن سکتا ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شہری مفادات کے مقابلے میں اس ملک کی طاقت و راشرافیہ کے ہی مفادات نے اہمیت اختیار کرلی ہے تو آگے کیسے بہتری کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے ۔

کیونکہ جب فیصلہ سازی اور طاقت کے مراکز میں ہمیں یہ اتفاق نظر آتا ہے کہ وہ نظام میں تبدیلی نہیں کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ایسا ہوا تو کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا جو عملی طور پر ہمارے مفادات کی ترجمانی کرسکے ۔سیاسی یا غیر سیاسی محاذ پر یہ جو طاقت کے مراکز کے درمیان گٹھ جوڑ ہے، ان کو کیسے توڑا یا کمزور کیا جائے او رکیسے ان کو آئین و قانون کے تابع کیا جائے ، غور طلب مسئلہ ہے ۔

ہم جس انداز سے قومی مسائل کا حل تلاش کررہے ہیں وہ بہت ہی محدود سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارے سامنے دیرپا علاج یا دور تک مسائل کے حل کو سمجھنے کا فہم یا ادارک موجود نہیں یا کچھ کرنا نہیں چاہتے ۔ریاست کے نظام میں جو بڑے پیمانے پر بداعتمادی کا ماحول ہے اس کو کیسے اعتماد میں بحال کیا جائے بنیادی سوال ہے یا اس کا جواب ہمیں ہر محاذ پر او رہر فریق کی مدد سے تلاش کرنا ہوگا ۔

روایتی علاج کے مقابلے میں غیر روایتی یا غیر معمولی علاج ہی ہمیں اس بڑے دلدل سے باہر نکلنے میں مدد دے سکتا ہے اور اس کے برعکس روایتی علاج ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا ۔ ردعمل کی سیاست اور فیصلے اپنی جگہ لیکن کچھ پہلے سے مسائل کا ادراک کرکے ہی ہمیں مستقبل کا نقشہ یا منصوبہ بندی کو اختیا ر کرنا ہوگا۔ انتخابات 2024کے بعد بھی مسائل برقرار رہیں گے ۔ایسے لگتا ہے کہ ہم یہ تو جذباتیت کی دنیا میں آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں یا جذباتی نعروں کی بنیاد پر اپنی سوچوں کو محدود کرکے اپنا بھی اور ریاست کا بھی نقصان کررہے ہیں ۔

2024کا انتخابات ایک روایتی انتخاب نہیں اور اس بار انتخابات کا عمل بہت سے سنجید ہ نوعیت کے مسائل کی بیٹھک پر دستک دے رہا ہے یا ہمیں جنجھوڑ رہا ہے ۔ ان انتخابات اور اس سے بننے والی حکومت کے نتیجے میں ہمیں مسائل کے حل کی طرف پیش رفت کو یقینی بنانا ہے۔اس ملک کا سنجیدہ طبقہ جو مختلف شعبوں سے وابستہ ہے او راس ملک کو بہتر ملک دیکھنے کا خواہش مند ہے اس کی مایوسی کو کم کرنا لازم ہے ۔

ہماری ترجیح افراد کے مقابلے میں اداروں کو اور ریاست کو مضبوط بنا کر عام آدمی کے مقدمہ کو زیادہ مستحکم کرنے سے جڑا ہونا چاہیے ۔ اس لیے ہم ان غلطیوں کو دہرانے کی کوشش نہ کریں جس کے نتیجے میں ہم اس ملک کو یہاں تک لے آئے ہیں ۔ اب ہمیں واقعی ایک بڑی اصلاح کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے طاقت طبقے کو بھی آئین و قانون کے تابع ہونا پڑے گا ۔

QOSHE - عام انتخابات اور نئی حکومت کے مسائل - سلمان عابد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

عام انتخابات اور نئی حکومت کے مسائل

14 0
30.01.2024

[email protected]

عمومی طور پر انتخابات کا عمل قومی مسائل کے حل کی طرف پیش قدمی کی صورت میں ہوتا ہے ۔کیونکہ ووٹ کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلی کا عمل اور نئی حکومت کی تشکیل پہلے سے موجود مسائل کا مضبوط حل تلاش کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔

پاکستان میں عوامی مسائل خاصے پیچیدہ نوعیت کے ہیں ۔ ہم محض سیاسی مسائل کا ہی شکار نہیں ہے بلکہ معیشت، سیکیورٹی ، گورننس کے معاملات بھی ہیں ۔ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت اور مستقبل کی پالیسیز کے حوالے سے بھی کچھ لوگوں کے ہاں غیر یقینی کا ماحول ہے ۔ایسے میں ہم کیسے آگے بڑھ سکیں گے اوروہ کونسے اقدامات ہیں جو ہم کو یہ یقین دلاسکیں کہ ہم بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔

پاکستان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ہی درست ہے اور باقی سب غلط ہیں ، دوئم وہ یہ ہی چاہتے ہیں کہ ہماری بالادستی ہر صورت میں قائم رہنی چاہیے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ آئین و قانون کے مقابلے میں افراد کی خوشنودی ہر سطح پر غالب ہے ۔ انتخابات کا عمل پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی متنازعہ رہا ہے لہٰذا اب بھی اگر یہ باتیں ہو رہی ہیں تو اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔

مجھے لگتا ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں جو بھی حکومت بنے گی وہ چند ووٹوں کی بنیاد پر کھڑی ہوگی، یا اتحادیوں کے سہارے کھڑی ہوگی۔ نئی حکومت کوسب سے پہلے معاشی بحران کا سامنا کرنا ہوگا........

© Express News


Get it on Google Play