شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان
گزشتہ دنوں صوبائی محکمہ صحت کا ایک اعلامیہ دیکھا کہ جس میں سرکاری ہسپتالوں کے عملے کو ڈریس کوڈ کی پابندی کرنے کی سختی سے ہدایت کی گئی تھی۔ یہ ایک بہت ہی مستحسن عمل ہے اس لئے کہ پاکستان میں علاج معالجہ کے بنیادی سہولیات مہیا نہیں ہیں اور جو ہسپتال ہیں وہاں جس انداز سے مریضوں کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے وہ دنیا میں کہیں بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اس وقت پشاور شہر میں تین بڑے سرکاری ہسپتال ہیں جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مریض علاج کی غرض سے آتے ہیں۔ ان تینوں بڑے ہسپتالوں کے ایمرجنسی میں ہر وقت رش لگا ہوا ہوتا ہے۔ مگر آپ وہاں جاکر دیکھیں آپ کو کہیں بھی احساس نہیں ہوگا کہ آپ کسی ہسپتال میں آئے ہیں۔ ڈاکٹر اور دیگر عملہ کی شناخت ممکن ہی نہیں ہے۔ پوری دنیا میں ڈاکٹر اور دیگر طبی خدمات دینے والے افراد عام لباس میں ہسپتال کے اندر داخل نہیں ہوسکتے۔ لیکن یہ عجیب ملک ہے جہاں ڈسپلن نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے۔ آپ ان ہسپتالوں کے ایمرجنسی اور وارڈز میں جائیں آپ کو ڈاکٹر ، نرسیں یہاں تک کہ وارڈ بوائے اور چوکیدار تک موبائل فون میں سوشل میڈیا سے لطف اندوز ہوتے نظر آئیں گے۔ ان ہسپتالوں میں بیشتر مریض غریب اور ان پڑھ ہوتے ہیں۔ جن کو اپنے حقوق کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔ ان مریضوںاور ان کے ساتھ آنیوالے لوگوں کے ساتھ یہ عملہ بدتمیزی کرتا ہے اور........
© Mashriq
visit website