بے جے پی کی”کیموفلاج”حکمت عملی
بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیریوں کو یہ باور کرانے کیلئے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا کہ وہ عبداللہ اور مفتی کے دوخاندانوں کے راج کیخلاف ان کی مسیحائی اور چارہ گری کی پیام بر اور علمبردا رہے۔بی جے پی نے پانچ اگست کے بعد اپنی تمام چیرہ دستیوں کو دست گیری کا نام اوررنگ دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔اس کیلئے میڈیا کا گلہ گھونٹ دیا گیا سول سوسائٹی کو ختم کر دیا گیا۔آزادی اظہار کی ہر شکل کو بیخ وبْن سے اکھاڑ پھینکا گیا مگر نتیجہ وہی نکلا ڈھاک کے تین پات۔ کشمیریوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کی کسی بھی حیلہ جوئی کو قبول کرنے میں فعالیت نہیں دکھائی۔گوکہ مجموعی طور پر کشمیر سکوت کی چادر میں لپٹا رہا مگر یہ بھی احتجاج اور فریاد کا ہی ایک انداز تھا ۔ لداخ کا علاقہ ہمیشہ مسلم اکثریتی وادی کشمیر سے الگ سیاسی رجحانات کا حامل رہا ہے۔اس کے مسائل بھی کشمیر سے کچھ مختلف رہے ہیں اور ان مسائل کو بیان کرنے کا انداز بھی قطعی مختلف رہا ہے مگر پانچ اگست کے بعد لداخ ہل کونسل کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدواروں کیساتھ جو کچھ ہوا اس نے اس کی قیادت کو مستقبل کا نقشہ دکھادیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت نے لوک سبھا انتخابات میں ایک نئی حکمت عملی اختیا رکرنے کا راستہ چن لیا تھا۔کشمیریوں کا موڈ دیکھ کر بھارتیہ جنتا پارٹی نے وادی کشمیر میں لوک سبھا کی پانچ میں سے ان چار نشستوں پر براہ راست میدان میں اْترنے سے گریز کی حکمت عملی اختیار کی گئی جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے صرف جموں کی دو نشست پر بھارتیہ جنتا پارٹی اپنا امیدوار کھڑے کئے ہوئے ہے۔اس وقت........
© Mashriq
visit website