صدر زرداری کی حلف برداری
تقریباََ تین برس قبل صحافیوں کے ’’نگہبانوں‘‘ نے محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کی ایک گفتگو اپنے پسندیدہ چینل کو ’’لیک‘‘ کردی تھی۔ مذکورہ لیک آج کی وزیر اعلیٰ پنجاب کی ان دنوں کے وزیر اطلاعات پرویز رشید سے ہوئی گفتگو کی ریکارڈنگ تھی۔ اس کے آشکار ہونے سے لوگوں کو پتہ چلا کہ ہفتے کے پانچ روز یہ کالم لکھ کر لوگوں کو اخلاقیات اور اصولوں کی بابت بھاشن دینے والا نصرت جاوید بذاتِ خود حکمرانوں سے ’’ٹوکریاں‘‘ لینے کا عادی ہے۔ بے تحاشہ لوگوں نے یہ بھی فرض کرلیا کہ شاید ٹوکریاں’’لفافوں‘‘ کا ’’کوڈ‘‘ ہیں جو کرنسی نوٹوں سے بھرکر مجھ جیسے بکائو صحافی کو پہنچائے جاتے ہیں۔
بدنامی تو خوب ہوئی۔ حقیقت جبکہ یہ رہی کہ میں کبھی بھی نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے اہم رہ نمائوں کے بہت قریب نہیں ر ہا۔ 1990ء کی دہائی میں قومی اسمبلی کی گیلری لکھنے کی وجہ سے چودھری نثار علی خان اور خواجہ آصف صاحب سے بے تکلفانہ مراسم استوار ہوئے۔ نواز شریف صاحب سے پورے صحافتی کیرئیر کے دوران تنہائی میں کبھی ایک بار بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ دیگر صحافیوں کے ہمراہ بھی پانچ سے زیا دہ بار انہیں نہیں ملا۔ شہباز شریف صاحب سے رسمی سلام دْعا سرراہے ملاقاتوں میں ہوجاتی تھی۔
اتفاقاََ نواز شریف صاحب کی آخری دو حکومتوں میں جو لوگ وزرائے اطلاعات رہے ان دونوں سے میرے دیرینہ رشتے تھے۔ مشاہد حسین سید روزنامہ ’’مسلم‘‘ میں میرے مدیر رہے۔1980ء کی دہائی میں مجھے صحافت میں نت نئے تجربات کے ذریعے نام کمانے کو انہوں نے فیاض دلی سے مواقع فراہم کئے۔ پرویز رشید اور میں 1969ء میں طالب علموں کی ایک تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوکر انقلاب ڈھونڈا کرتے تھے۔ وہ مل نہ پایا تو میں صحافت اور پرویز........
© Nawa-i-Waqt
visit website