’’روح ِ عصر‘‘اب کی بار چارسو پار
برملا (نصرت جاوید ) 25مارچ 2024
سکول ہی سے عقل کا غلام ہوگیا تھا۔ جوان ہوتے ہی لہٰذا ہیگل کو بہت غور سے پڑھا۔ جرمنی سے اُبھرا یہ فلاسفر تاریخ کے جبر پر کٹر ایمان کا حامل تھا۔ اس کی دانست میں معاشروں کو چلانے والا کوئی بھی نظام ابدی نہیں ہوتا۔ ناقابل تسخیر دِکھتے نظام کے خلاف مختلف قوتیں نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔اقبالؔ نے اس سوچ کو ’’ثبات اک تغیر کو ہے…‘‘ والے مصرع میں بیان کیا تھا۔
تبدیلی پر کامل ایمان رکھنے والے ہیگل کا فلسفیوں اور شاعروں سے یہ تقاضہ بھی ر ہا کہ نظام کہنہ کے روبروسربسجود ہوجانے کے بجائے ان قوتوں کو ڈھونڈنے اور ان کی قوت کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں جو معاشرے کو نظام نو کی جانب دھکیل رہی ہوتی ہیں ۔تبدیلی کے خواہاں عمل کو اس نے اجتماعی طورپر ’’روح عصر‘‘ کا نام دیا۔ ہیگل کے گہرے مطالعے کے بعد کارل مارکس نے انسانوں میں مساوات کی خواہش کو ’’روح عصر‘‘ تصور کیا۔ اس کی سوچ سے متاثر ہوکر 1970کی دہائی میں مجھ جیسے کئی پاکستانی نوجوان وطن عزیز میں سوشلزم کے خواب دیکھنا شروع ہوگئے۔ جولائی 1977میں لیکن جنرل ضیاء کے لگائے مارشل لاء کے طویل برسوں کے دوران دریافت کرنا شروع کردیا کہ ہمارے ہاں کی ’’روح عصر‘‘بے شمار نسلوں سے ’’ڈنڈے والے‘‘ حاکم ہی کا انتظار کرتی رہی ہے۔ 1988میں جنرل ضیا فضائی حادثے کی نذر ہوئے تو جمہوری نظام اور آزادیٔ اظہار وغیرہ کی امید نمودار ہوئی۔ چند ہی برسوں بعد مگر ایک دوسرے کو چور-لٹیرے پکارتے ہوئے ہمارے سیاستدانوں نے جنرل مشرف کو ’’روشن خیال نگہبان‘‘ کی صورت ہمارا حاکم بنادیا۔جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دونوں ادوار اور ان کے درمیان آتی جاتی حکومتوں کو بہت قریب سے بھگتنے کے بعد میں یہ طے کرنے کے قابل نہیں رہا کہ ہماری ’’روح عصر‘‘ بالآخر ہے کیا؟
8فروری 2024کے انتخابات سے قبل دنیا بھر میں جمہوریت کے مقابلے میں ’’عوام کی حمایت‘‘ سے کئی ممالک پر نازل ہوئے ’’منتخب آمروں‘‘ کے چلن دیکھ کر یہ سوچتا رہا کہ آج کی ’’روح عصر‘‘ سرجھکائے حکمرانوں کی دکھائی راہ پر چلنا ہے۔مصر تو ہمارے خطے سے بہت دور ہے۔ بنگلہ دیش جیسے مضطرب معاشرے میں بھی حسینہ واجد کا ایک بار پھر انتخاب جیت کر وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان رہنا یہ پیغام دیتا سنائی دیا کہ اب ’’(ہمارے ہاں بھی)…کوئی نہیں........
© Nawa-i-Waqt
visit website