ابن شہاب کی روایت سے کہ عمر بن عبدالعزیز (رح) نے ایک دن (عصر کی) نماز میں دیر کی، پس عروہ بن زبیر کے پاس تشریف لے گئے، اور انہوں نے بتایا کہ (اسی طرح) مغیرہ بن شعبہ نے ایک دن (عراق کے ملک میں) نماز میں دیر کی تھی جب وہ عراق میں (حاکم) تھے۔ پس ابومسعود انصاری (عقبہ بن عمر) ان کی خدمت میں گئے۔ اور فرمایا، مغیرہ ! آخر یہ کیا بات ہے، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے تو انہوں نے نماز پڑھی اور رسول اللہؐ نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے نماز پڑھی تو نبی کریمؐ نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے نماز پڑھی تو نبی کریم ؐ نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ میں اسی طرح حکم دیا گیا ہوں۔ اس پر عمر بن عبدالعزیز (رح) نے عروہ سے کہا، معلوم بھی ہے آپ کیا بیان کر رہے ہیں؟ کیا جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی کریم ؐ کو نماز کے اوقات (عمل کر کے) بتلائے تھے۔ عروہ نے کہا، کہ ہاں اسی طرح بشیر بن ابی مسعود اپنے والد کے واسطہ سے بیان کرتے تھے ۔
عروہ (رح) نے کہا کہ مجھ سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ؐ عصر کی نماز اس وقت پڑھ لیتے تھے جب ابھی دھوپ ان کے حجرہ میں موجود ہوتی تھی اس سے بھی پہلے کہ وہ دیوار پر چڑھے۔ ابن عباسؓ سے، انہوں نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ؐ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اس ربیعہ قبیلہ سے ہیں اور ہم آپ ؐ کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں ہی میں حاضر ہوسکتے ہیں، اس لیے آپ ؐ کسی ایسی بات کا ہمیں حکم دیجیئے، جسے ہم آپؐ سے سیکھ لیں اور اپنے پیچھے رہنے والے دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں، آپ ؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں، پہلے اللہ پر ایمان لانے کا، پھر آپ ؐ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اور دوسرے نماز قائم کرنے کا، تیسرے زکوٰۃ دینے کا، اور چوتھے جو مال تمہیں غنیمت میں ملے، اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا اور تمہیں میں تونبڑی حنتم، قسار اور نقیر کے استعمال سے روکتا ہوں۔ جریر بن عبداللہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ جریر بن عبداللہ بجلی نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ؐ کے دست مبارک پر نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے، اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔
حذیفہ ؓ نے فرمایا کہ ہم عمر ؓ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے پوچھا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ ؐ کی کوئی حدیث تم میں سے کسی کو یاد ہے؟ میں بولا، میں نے اسے (اسی طرح یاد رکھا ہے) جیسے نبی کریم ؐ نے اس حدیث کو بیان فرمایا تھا۔ عمر ؓ بولے، کہ تم رسول اللہؐ سے فتن کو معلوم کرنے میں بہت بے باک تھے۔ میں نے کہا کہ انسان کے گھر والے، مال اولاد اور پڑوسی سب فتنہ (کی چیز) ہیں۔ اور نماز، روزہ، صدقہ، اچھی بات کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا ان فتنوں کا کفارہ ہیں۔ عمر ؓ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑھے گا۔ اس پر میں نے کہا کہ یا امیرالمؤمنین! آپ اس سے خوف نہ کھائیے۔ آپ کے اور فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ پوچھا کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا (صرف) کھولا جائے گا۔ میں نے کہا کہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر ؓ بول اٹھے، کہ پھر تو وہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا۔ شقیق نے کہا کہ ہم نے حذیفہ ؓ سے پوچھا، کیا عمر ؓ اس دروازہ کے متعلق کچھ علم رکھتے تھے تو انہوں نے کہا کہ ہاں! بالکل اسی طرح جیسے دن کے بعد رات کے آنے کا۔ میں نے تم سے ایک ایسی حدیث بیان کی ہے جو قطعاً غلط نہیں ہے۔ ہمیں اس کے متعلق حذیفہ ؓ سے پوچھنے میں ڈر ہوتا تھا (کہ دروازہ سے کیا مراد ہے) اس لیے ہم نے مسروق سے کہا (کہ وہ پوچھیں) انہوں نے دریافت کیا تو آپ نے بتایا کہ وہ دروازہ خود عمر ؓ ہی تھے۔ ابن مسعود ؓ سے کہ ایک شخص نے کسی غیر عورت کا بوسہ لے لیا۔ اور پھر نبی کریم ؐ کی خدمت میں آیا اور آپ کو اس حرکت کی خبر دے دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، کہ نماز دن کے دونوں حصوں میں قائم کرو اور کچھ رات گئے بھی، اور بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ صرف میرے لیے ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میری تمام امت کے لیے یہی حکم ہے۔ نبی کریم ؐ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا، پھر پوچھا، اس کے بعد، فرمایا والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا۔ پوچھا اس کے بعد، آپ ؐ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ؐ نے مجھے یہ تفصیل بتائی اور اگر میں اور سوالات کرتا تو آپ ؐ اور زیادہ بھی بتلاتے۔ ابوہریرہ ؓ سے کہ انہوں نے رسول اللہ ؐ سے سنا آپ ؐ فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ انس ؓ سے کہ نبی کریم ؐنے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا رہتا ہے اس لیے اپنی داہنی جانب نہ تھوکنا چاہیے لیکن بائیں پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔
انس بن مالکؓ سے بیان کیا، آپ نبی کریمؐ سے روایت کرتے تھے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ سجدہ کرنے میں اعتدال رکھو (سیدھی طرح پر کرو) اور کوئی شخص تم میں سے اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ پھیلائے۔ جب کسی کو تھوکنا ہی ہو تو سامنے یا داہنی طرف نہ تھوکے، کیونکہ وہ نماز میں اپنے رب سے پوشیدہ باتیں کرتا رہتا ہے اور سعید نے قتادہ ؓ سے روایت کر کے بیان کیا ہے کہ آگے یا سامنے نہ تھوکے البتہ بائیں طرف پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے اور شعبہ نے کہا کہ اپنے سامنے اور دائیں جانب نہ تھوکے، بلکہ بائیں طرف یا پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ اور حمید نے انس بن مالکؓ سے وہ نبی کریم ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ قبلہ کی طرف نہ تھوکے اور نہ دائیں طرف البتہ بائیں طرف یا پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے اور پھیلانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

20 لاکھ ٹن گندم کی خریداری ، وفاق نے پنجاب حکومت کو گرین سگنل دیدیا

QOSHE - پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی پیاری پیاری باتیں!!!! - محمد اکرم چوہدری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی پیاری پیاری باتیں!!!!

46 0
10.05.2024

ابن شہاب کی روایت سے کہ عمر بن عبدالعزیز (رح) نے ایک دن (عصر کی) نماز میں دیر کی، پس عروہ بن زبیر کے پاس تشریف لے گئے، اور انہوں نے بتایا کہ (اسی طرح) مغیرہ بن شعبہ نے ایک دن (عراق کے ملک میں) نماز میں دیر کی تھی جب وہ عراق میں (حاکم) تھے۔ پس ابومسعود انصاری (عقبہ بن عمر) ان کی خدمت میں گئے۔ اور فرمایا، مغیرہ ! آخر یہ کیا بات ہے، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے تو انہوں نے نماز پڑھی اور رسول اللہؐ نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے نماز پڑھی تو نبی کریمؐ نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے نماز پڑھی تو نبی کریم ؐ نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ میں اسی طرح حکم دیا گیا ہوں۔ اس پر عمر بن عبدالعزیز (رح) نے عروہ سے کہا، معلوم بھی ہے آپ کیا بیان کر رہے ہیں؟ کیا جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی کریم ؐ کو نماز کے اوقات (عمل کر کے) بتلائے تھے۔ عروہ نے کہا، کہ ہاں اسی طرح بشیر بن ابی مسعود اپنے والد کے واسطہ سے بیان کرتے تھے ۔
عروہ (رح) نے کہا کہ مجھ سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ؐ عصر کی نماز اس وقت پڑھ لیتے تھے جب ابھی دھوپ ان کے حجرہ میں موجود ہوتی تھی اس سے بھی پہلے کہ وہ دیوار پر چڑھے۔ ابن عباسؓ سے، انہوں نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ؐ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اس ربیعہ قبیلہ سے ہیں اور ہم آپ ؐ کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں ہی میں حاضر ہوسکتے ہیں، اس لیے آپ ؐ کسی ایسی بات کا ہمیں حکم دیجیئے، جسے ہم آپؐ سے سیکھ لیں اور اپنے پیچھے رہنے والے دوسرے لوگوں کو بھی........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play