یہودیوں کے ہولو کاسٹ کی کہانی جھوٹی ہوسکتی ہے کیونکہ قوم یہود کی عہد شکنی، وعدہ خلافی، دھوکہ دہی، فریب اورجھوٹ کی ایک لمبی فہرست اور طویل داستان ہے جس کاآغازغزوہ احزاب کے موقع پرعہدشکنی سے لیکر خلافت عثمانیہ کے سقوط کی سازش اورپھر ارض فلسطین پرجارحانہ قبضے کے نتیجے میںایک ناجائز ریاست کے قیام کے جبر تک محیط ہے۔یہی جھوٹی قوم جب نازی جرمنی کے ہاتھوں اپنے قتل عام کاڈھنڈوراپیٹتی چلی آرہی ہے تواسے یکدم سچ نہیں ماناجاسکتاہاں یہ ممکن ہے کہ جرمن قوم سے عہد شکنی کی پاداش میں پٹلرکے حکم پرکچھ یہودی مارے گئے ہوں۔ صہیونیوں کے جھوٹ اور فریب پرمبنی پر اس کہانی میں کہاگیا کہ 1933 سے 1945کے عرصہ کے درمیان جرمن نازیوں نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کا نہایت بری طرح قتل عام کیاجسے انہوں نے اسے ’’ہولو کاسٹ‘‘ کے نام دے دیا۔۔ یہ رام کہانی اس زمانے میںگھڑلی گئی کہ جب کوئی تیز ترین پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا نہیں تھا جبکہ سوشل میڈیا کے معرض وجود میں آنے کا کسی نے خواب تک نہ دیکھا تھا ۔المیہ یہ ہے کہ آج سے ایک صدی قبل پرانی کہانی اور افسانے جس میں مبالغہ آرائی کاامکان بدرجہ اتم موجود ہے لیکن عصر حاضر جس میں الیکٹرانک اورسوشل میڈیاکی موجودگی میںواقعات کی پل پل کی خبریں سامنے آجاتی ہیں۔ 1948میں برطانیہ ،فرانس اورامریکہ نے عالم اسلام کے سینے میں اسرائیل کے نام سے ایک خنجرپیوستہ کیاگیا وہ دن اورآج کادن یہود کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں کاہولو کاسٹ جاری ہے۔فلسطینی مسلمانوں کے خلاف جاری ہولوسٹ پرمیڈیا لمحے لمحے کے شواہد اورثبوت پیش کرتارہاہے اورالمیہ یہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے آج تک یہودی صیہونیت کی طرف سے اہل غزہ پرڈھائی جانے والی قیامتوں پرکوئی ایک نام نہاد عالمی ادارہ اسے ہولوکاسٹ قراردے کراس پر بات کرتاہے اورنہ ہی ملعون نیتن یاہوکو اس کاذمہ دار ٹھراتاہے حالانکہ ہٹلر نہیں بلکہ نیتن یاہودرندہ ہے اور انسانیت کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہودیوں نے مختلف ممالک میں سازشوں کے ذریعہ حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش ہاتھ سے جانے نہیں دی۔ مدینہ طیبہ میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئے معاہدے کو انہوں نے غزوہ احزاب کے موقع پر توڑ ڈالا او راسلام اور اہل ایمان کے ساتھ غداری کی جبکہ خلافت عثمانیہ کا سقوط بھی یہود کی شورش کا شاخسانہ تھا۔فرض کرلیں کہ اگر جرمن نازیوں نے دوسری جنگ عظیم کے عرصہ میں یہودیوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور کچھ یہودیوں کا جنگ میں قتل ہو ابھی ہے تو اس کابدلہ جرمنی سے کیوں نہیں لیاگیا؟ غور کریں تویہ سچائی سامنے آجاتی ہے کہ غاصب صہیونیوں نے فلسطین کی ارض مقدس پر تسلط قائم کرنے اور ناجائز صہیونی ریاست کی بنیاد ڈالنے کے لئے اس زمانے میں بھی دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی تھی کہ یہودیوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے لہذا ان کے لئے ایک علیحدہ وطن کا قیام ضروری ہے اوراس ناجائز ریاست کا قیام جرمنی میں نہیں ارض فلسطین پرہو ۔چنانچہ صہیونیوں نے برطانیہ اور امریکہ سمیت فرانس کی مدد سے فلسطین پر قبضہ قائم کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ جرمن نازیوں کے جرائم کابدلہ فلسطینی عوام اور مقدس سرزمین فلسطین سے کیوں لیاگیا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا۔ بے حدوحساب نظمیں، ڈرامے اور ناول لکھوائے گئے اوراس واقعے کو ’’ہولوکاسٹ‘‘ کا نام دیا گیا۔ ہولو کاسٹ کے مرنے والوں کو اس قدر مقدس درجہ عطا کیا گیا کہ ان کے خلاف لب کشائی کرنے والا نفرت پھیلانے والا قرار دے کر قابل تعزیر بنادیا گیا۔ متعدد یورپین صحافی، مصنف اور کالم نگار ہولوکاسٹ میں یہودیوں کی جانب سے بیان کردہ تعداد کو صرف غلط کہنے کی پاداش میں جیلوں میں بند کردیے گئے۔ ہولوکاسٹ کے خلاف زبان کھولنے والے دانشوروں کے صرف ملکی ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر وارنٹ جاری کیے گئے۔ ہولوکاسٹ پر تحقیق کرنا اور آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کرنا بھی قابل تعزیر جرم قرار پائے ہیں۔بہت سے ممالک میں ہولوکاسٹ پر زبان بندی کے حوالے سے سخت قانون سازی کی گئی، صرف یورپ کے تقریباً تین درجن ممالک میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، جن کے تحت اس بارے میں ہر نوعیت کا منفی اظہار رائے جرم ہے، جس پر قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ ایک طرف یہودیوں کے ’’افسانوی واقعہ‘‘ ہولوکاسٹ کے حوالے سے پورے یورپ میں سخت قوانین نافذ ہیں، لیکن دوسری جانب اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے انھی یہودیوں کے ہاتھوں 1948سے مظلوم فلسطینیوں کا ہولوکاسٹ جاری ہے،انھیں تہہ و تیغ کیا جا رہا ہے، بمباری کرکے مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، ان کے گھروں کو مسمار اور ان کی زمینیں ہتھیائی جارہی ہیں، اس سب کچھ کے بعد بھی عالمی سطح پر زبانیں گنگ ہیں، آخر کیوں؟ایک طویل عرصے سے فلسطین پر قابض اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے،لیکن عالمی سطح پر لب سی کیوںلیے گئے، آخر کیوں؟یہودیوں کے ہولوکاسٹ کے حوالے سے قوانین بنانے والے ممالک کیا اسرائیل سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ فلسطینیوں پر کس جرم کی پاداش میں بربریت کی تاریخ رقم کی جارہی ہے؟ گزشتہ ایک ماہ سے غزہ پر گولا بارود کی بارش ہورہی ہے۔10ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان شہید کردیئے گئے ہیں جن میں معصوم بچوں کی تعدادساڑھے تین ہزار سے زائدہے اور خواتین کی تعداد بھی اتنی ہی ہے ۔ 1982 میں صابرہ اور شتیلہ کا قتل عام، 1990میں مسجد اقصیٰ میں فلسطینی مسلمانوںکا قتل عام، 1994 میں مسجد اقصیٰ کا دوسرا قتل عام اور 1996 میں مسجد ابراہیم کا قتل عام کیا۔2002 میں اسرائیلی فوج نے فلسطینی کیمپ جنین کا 15دن تک محاصرہ اور اس پر ہوائی جہازوں اور ٹینکوں سے حملہ کرکے ایک ہزار فلسطینی شہید اور نہ جانے کتنے زخمی کیے۔2014میں غزہ کاقتل عام۔غرض اس قتل عام کااحاطہ کہاں سے شروع کریں اورکہاں بس کریں مختصر یہ ہے کہ سر زمین انبیاء فلسطین میں اسرائیل گزشتہ 75برسوں سے خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں ، لیکن کہیں شنوائی نہیں ۔
QOSHE - فلسطینیوں کا قتل عام - عبدالرفع رسول
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

فلسطینیوں کا قتل عام

14 0
06.11.2023




یہودیوں کے ہولو کاسٹ کی کہانی جھوٹی ہوسکتی ہے کیونکہ قوم یہود کی عہد شکنی، وعدہ خلافی، دھوکہ دہی، فریب اورجھوٹ کی ایک لمبی فہرست اور طویل داستان ہے جس کاآغازغزوہ احزاب کے موقع پرعہدشکنی سے لیکر خلافت عثمانیہ کے سقوط کی سازش اورپھر ارض فلسطین پرجارحانہ قبضے کے نتیجے میںایک ناجائز ریاست کے قیام کے جبر تک محیط ہے۔یہی جھوٹی قوم جب نازی جرمنی کے ہاتھوں اپنے قتل عام کاڈھنڈوراپیٹتی چلی آرہی ہے تواسے یکدم سچ نہیں ماناجاسکتاہاں یہ ممکن ہے کہ جرمن قوم سے عہد شکنی کی پاداش میں پٹلرکے حکم پرکچھ یہودی مارے گئے ہوں۔ صہیونیوں کے جھوٹ اور فریب پرمبنی پر اس کہانی میں کہاگیا کہ 1933 سے 1945کے عرصہ کے درمیان جرمن نازیوں نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کا نہایت بری طرح قتل عام کیاجسے انہوں نے اسے ’’ہولو کاسٹ‘‘ کے نام دے دیا۔۔ یہ رام کہانی اس زمانے میںگھڑلی گئی کہ جب کوئی تیز ترین پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا نہیں تھا جبکہ سوشل میڈیا کے معرض وجود میں آنے کا کسی نے خواب تک نہ دیکھا تھا ۔المیہ یہ ہے کہ آج سے ایک صدی قبل پرانی کہانی اور افسانے جس میں مبالغہ آرائی کاامکان بدرجہ اتم موجود ہے لیکن عصر حاضر جس میں الیکٹرانک اورسوشل میڈیاکی موجودگی میںواقعات کی پل پل کی خبریں سامنے آجاتی ہیں۔ 1948میں برطانیہ ،فرانس اورامریکہ نے عالم اسلام کے سینے میں اسرائیل کے نام سے ایک خنجرپیوستہ کیاگیا وہ دن اورآج کادن یہود کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play