گزشتہ روز 9 نومبر کوعلامہ اقبال کا یوم پیدائش تھا اس دن کی مناسبت سے دنیا بھرمیںکئی پروگرام منعقد ہوئے اور علامہ کی عظیم شخصیت پرروشنی ڈالی گئی۔ علامہ کی سرزمین انبیاء فلسطین سے وابستگی پر بات کریں تو علامہ اقبال اپنے عہد کے معروضی حالات سے بخوبی واقف تھے اور یہ شعور رکھتے تھے کہ غلامی ایک نسل سے دوسری نسل میں سرایت کر جاتی ہے اور رفتہ رفتہ امتیں اس جرات رندانہ سے کس طرح محروم ہو جاتی ہیں۔حضرت علامہ اقبال مشرق وسطیٰ سمیت تمام دنیا میں عالمی شطرنج کی بساط کے مہروں اور سامراجی چالوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اقبال کی شاعری کے مآخذ و مصادر میں قرآن سب سے مقدم ہے اس لیے فلسطین سے ہزاروں کوس دور ہونے کے باوجود فلسطینی بھائیوں کے غم و اندوہ میں شریک ہونا عین فطرت اقبال کا حصہ رہا اوران کے اخوت اسلامی پردروس قرآن کی تفسیر ہے۔فرماتے ہیں کہ ہے خاکِ فلسطیں پر یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا؟ علامہ اقبال کایہ اٹل موقف تھاکہ فلسطین عربوں کا ہے لیکن اگر کوئی فلسطینی سرزمین پر یہودیوں کے حق کی اس لیے وکالت کرتا ہے کہ وہ فلسطین سے نکالے گئے تھے تو پھر یہی حق ہسپانیہ کے عربوں کو بھی ملنا چاہیے کیونکہ انہیں بھی ہسپانیہ سے جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ علامہ اقبال کو فلسطین کے مسلمانوں سے گہری ہمدردی تھی کیونکہ ان کا فلسفہ خودی تھا کہ اسلام تمام رنگ و نسل، خطوں اور سرحدوں سے بالاتر ہے۔ اگرچہ علامہ اقبال کا انتقال 1938ء میں ہوا اور اسرائیل 1948ء میں بنا لیکن اقبال مشرق وسطیٰ میں ہونے والی پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ مغربی ممالک فلسطین میں یہودیوں کو زمینیں دینے پر تلے ہوئے تھے اور ان تمام وعدوں کو پامال کررہے تھے جو انہوں نے مذاکرات کے دوران کیے تھے۔حضرت علامہ کے خیال میں فلسطینی عوام کے حقوق غصب کرنے میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ مجلس اقوامِ عالم (لیگ آف نیشنز) بھی برابر کی شریک ہے۔ حضرت علامہ نے منطقی استدلال اور فلسفیانہ شعور کے ساتھ مسئلہ فلسطین کو شعر و سخن کا موضوع بنایا۔حضرت علامہ ضرب کلیم میں شامل ایک نظم ’’فلسطینی عرب سے‘‘ میں فلسطینی عوام سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے فلسطینی عرب تیرے وجود میں جو آگ موجود ہے اس سے زمانے کو جلا کر راکھ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، تیرا علاج لندن یا جنیوا میں نہیں کیونکہ دیارِ فرنگ کی خارجہ پالیسی یہودی تاجروں کی گرفت میں ہے۔ تو امن کی بجائے اپنی خودی کو بیدار کر۔ کیوں کہ امتوں کی نجات خودی کی نشوونما اور تجلی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے سُنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے ’’اقوام متحدہ‘‘ کی پیش رو ’’مجلس اقوام عالم‘‘ کا رویہ بھی مسئلہ فلسطین پر انتہائی سرد مہری سے عبارت تھا۔ اقبالؒ اس کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔ چنانچہ اس کی پالیسیوں اور رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں: لیگ آف نیشنز (جمعیت اقوام عالم) کو چاہیے کہ بیک آواز اس ظلم و طغیان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے اور برطانوی باشندگان کو سمجھائے کہ عربوں سے نا انصافی نہ کریں‘‘۔ حضرت علامہ کی شاعری میں بھی جمعیت اقوام عالم کے عالمی منظر نامے میں منفی کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں: اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم تفریق ملک، حکمت افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصد ہے فقط ملت آدم فلسطین ہر لحاظ سے عالمِ اسلام کا حصہ ہے لیکن اس سے تاریخی طور پر یہودیوں کی ملکیت ثابت کرنے کے لیے بے شمار تاویلیں پیش کی گئیں۔ کیتھ وہائٹ ولیم نے اپنی کتاب قدیم اسرائیل کی ایجاد میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ’’اسرائیل موثر اور جذباتی انداز میں آثار قدیمہ کی دریافتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے‘‘۔ اسرائیل کے قیام کو جائز قرار دینے کے لیے برطانوی حکام نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل کی زمین عرصہ دراز سے خالی پڑی تھی یہاں طویل عرصے تک یہودیوں کی حکمرانی رہی۔ اس لیے یہودیوں کے اس سرزمین سے جذباتی تعلق کی بناء پر یہاں اسرائیل کا قیام ضروری ہے۔ جب اسرائیل کا قیام 1948ء عمل میں آیا تو اقبال کو وفات پائے تقریباً دس سال کا عرصہ بیت چکا تھا لیکن وہ اس خطے میں سامراج کی چالوں سے بخوبی آگاہ تھے ضرب کلیم ہی میں شامل ایک نظم ’’شام و فلسطین‘‘ میں وہ کہتے ہیں کہ اگر اس دعوے کو تسلیم کر لیا جائے کہ فلسطین پر یہودیوں کا حق اس لیے ہے کہ وہ کبھی یہاں قابض تھے تو پھر ہسپانیہ پہ مسلمانوں کا حق کیوں نہیں تسلیم کیا جاتا جنہوں نے سات سو سال تک وہاں اپنی حکمرانی کی عمدہ مثال قائم کی؟ ان اشعار میں منطقی انداز سے یہودیوں کے دعوے کی نفی کی گئی ہے: زندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت پر ہے مئے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و عنب کا
QOSHE - فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے - عبدالرفع رسول
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے

6 0
11.11.2023


گزشتہ روز 9 نومبر کوعلامہ اقبال کا یوم پیدائش تھا اس دن کی مناسبت سے دنیا بھرمیںکئی پروگرام منعقد ہوئے اور علامہ کی عظیم شخصیت پرروشنی ڈالی گئی۔ علامہ کی سرزمین انبیاء فلسطین سے وابستگی پر بات کریں تو علامہ اقبال اپنے عہد کے معروضی حالات سے بخوبی واقف تھے اور یہ شعور رکھتے تھے کہ غلامی ایک نسل سے دوسری نسل میں سرایت کر جاتی ہے اور رفتہ رفتہ امتیں اس جرات رندانہ سے کس طرح محروم ہو جاتی ہیں۔حضرت علامہ اقبال مشرق وسطیٰ سمیت تمام دنیا میں عالمی شطرنج کی بساط کے مہروں اور سامراجی چالوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اقبال کی شاعری کے مآخذ و مصادر میں قرآن سب سے مقدم ہے اس لیے فلسطین سے ہزاروں کوس دور ہونے کے باوجود فلسطینی بھائیوں کے غم و اندوہ میں شریک ہونا عین فطرت اقبال کا حصہ رہا اوران کے اخوت اسلامی پردروس قرآن کی تفسیر ہے۔فرماتے ہیں کہ ہے خاکِ فلسطیں پر یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا؟ علامہ اقبال کایہ اٹل موقف تھاکہ فلسطین عربوں کا ہے لیکن اگر کوئی فلسطینی سرزمین پر یہودیوں کے حق کی اس لیے وکالت کرتا ہے کہ وہ فلسطین سے نکالے گئے تھے تو پھر یہی حق ہسپانیہ کے عربوں کو بھی........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play