ڈیڑھ ماہ سے صیہونی فوج غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے اس پرقیامت خیزبمباری کررہی ہے ،جس کے نیتجے میں اب تک 15ہزار سے زائدفلسطینی مسلمان شہیدہوچکے ہیں جن میں 5ہزارنوزائد اورشیر خواربچے بھی شامل ہیںجبکہ 70فیصدغزہ ملبے کے ڈھیرمیں تبدیل ہوچکاہے ۔ بچاکچاغزہ اسرائیلی ٹینکوں کے محاصرے میں ہے صورتحال اس قدر ابتر ہے کہ دل خون کے آنسوںرورہاہے۔ 12نومبراتوار2023کو عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم یااو آئی سی کا مشترکہ سربراہی اجلاس ریاض میںمنعقدہوا۔ اہل فلسطین تو شہید ہوکر بھی زندہ ہیں لیکن لگتا ہے کہ مسلمان سربراہو؎ں کے ضمیر بے حس ہو چکے ہیں ۔ اجلاس میں رکن ممالک کے سربراہان حکومت نے زبانی کلامی ا سرائیل کی خوب کلاس لی ۔اس اجلاس سے کسی بھی ہوشمند مسلمان کوسرے سے ہی قطعی طورپرکوئی امید وابستہ نہ تھی کیونکہ فورم کے اہم رکن ممالک کے کھلے بندوں اوربعض کے درپردہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار ہیں۔ وہ تو67کی جنگ کے بعد قبلہ اول کی بازیابی کے حوالے سے عملاََسرینڈرکرچکے ہیںاورسرزمین فلسطین اوراہل فلسطین کو یہودی درندوں کے سامنے پھینک چکے ہیں۔ اسلامی ملکوں کے سربراہ اقتدارکے تحفظ پرکمربستہ ہیں ۔ ان کا مقصد اپنے اقتدار دھاگ بٹھانا ہے اور انہیں فلسطینیوں کی پروا کیوں کر ہو سکتی ہے۔ اہل نظر جانتے تھے کہ ریاض میں منعقد اس اجلاس میں زیادہ سے زیادہ چند الفاظ پرمشتمل ایک عددمذمتی بیان جاری ہوگاجوپہلے کی طرح آج بھی اسرائیلی اورامریکی جارحانہ اقدام کے سامنے محض ایک مذاق ثابت ہوگا۔سفاک امریکی قیادت میں عالم کفر اوراسرائیل ٹھیک جانتاتھا کہ یہ ا جلاس محض ایک بیٹھک کے سواکچھ نہیں ۔ مقابلے کے لئے ان میں کوئی ہمت،سکت ہرگز نہیں۔امریکہ اوراسرائیل اس امرکوٹھیک سمجھتے تھے کہ: نہ خنجراٹھے گانہ تلواران سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ دجال کے باولے بیٹے دنیتن یاہونے اس اجلاس کے دوران ہی خم ٹھونک کراعلان کیاکہ غزہ پرتب تک بمباری جاری رہے گی جب تک نہ اسے ہم حاصل کرلیں گے۔ اس اجلاس میں جو تقاریرکی گئیں امریکہ کی قیادت والی صلیبی ممالک اور اسرائیل جانتے تھے کہ محض رسمی کاروائی ہے اوربس زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں۔ جوبائیڈن اورنیتن یاہو کو بھی اس اجلاس سے کوئی خظرہ نہیں تھا۔ صد افسوس قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالامال 57 ملکوں پرمشتمل اوآئی سی اورمستحکم معیشت اوردنیاکے امیرترینؤ ممالک پرمشتمل عرب لیگ غزہ کوصفحہ ہستی سے مٹتے ہوئے بھی کوئی عملی اقدام نہ اٹھاسکی؟ یہ ممالک چاہتے تو اسرائیل کے خلاف فوجی، معاشی، سیاسی اور سفارتی اقدامات تو کیے ہی جا سکتے تھے ۔ارض فلسطین کی آزادی کے لئے او آئی سی اور عرب لیگ کی جانب سے اقوام متحدہ میں مشترکہ جدوجہد کی جاسکتی اور عالمی رائے عامہ کواس بارے میں ہموار کرنے کیلئے تمام دستیاب ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے موثر مہم چلائی جاسکتی ہے۔ مسلم ممالک باہمی تجارت میں ڈالر کا استعمال بند کرکے اسرائیل کے سرپرست اعظم امریکہ کو مشکل سے دوچار کرکے غزہ میں فوری جنگ بندی اور دوریاستی حل کیلئے فیصلہ کن اقدام پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ بیت المقدس پراولاد صہیون کے 75سالہ تسلط کے دوران القدس اورفلسطین کے حوالے سے سیکڑوں ترانے اور نغمے تیار کیے اور گائے گئے۔ ان گنت نعرے بنائے اور لگائے گئے کہ ہم لاکھوں مسلمانوں کا لشکر لیے القدس پہنچ رہے ہیں۔مسلمانوں کی کوششیں نعروں، بیانات اور کمیٹیوں تک محدود رہی ۔عالم اسلام کے حکمرانوں کا افسوس ناک رویہ ہے،جوآج تک قبلہ اول پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کو چھڑواسکے ہیں اورنہ ہی فلسطینی مسلمانوں پرڈھائے جانے والے ہلاکت خیز مظالم کو رکواسکے ۔ جبکہ صہیونی ریاست اپنی حدودپھیلانے بیت المقدس کو یہودیانے کے لیے عملی سازشوں میں دن رات سرگرم عمل رہی۔اسرائیلی قبضہ صرف مشرقی بیت المقدس کے علاقوں پر نہیں بلکہ اس میں موجود تاریخی دینی مقامات جن میں مسجد اقصی، قبہ الصخر، کنیسہ القیامہ پر قبضہ کرنے کے ساتھ دسیوں یہودی کالونیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ مسجد اقصی کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے لیے اس کے نیچے سرنگوں کا جال بچھایا جا رہا ہے اور نام نہاد ہیکل سلیمانی کی بنیادوں کی تلاش کے دوران مسجد اقصی کی بنیادیں کمزور کی جا رہی ہیں۔ سلام ان نہتے فلسطینی ہیں جو پچھلی پون صدی سے گردنیں کٹوانے کے باجودآج بھی غاصب یہودیوں کے سامنے سینہ تان کرکھڑے ہیں ۔عالم اسلام کے حکمرانوں کو کم ازکم ان نہتے فلسطینی مسلمانوں سے سبق سیکھنا چاہئے ،جواس قدر مظالم سہنے کے باوجودبھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مسجداقصی ہماری گردنوں میں امانت ہے۔اس امانت کی خاطر ہماری گردنیں کٹ سکتی ہیں،مگر جھک نہیں سکتیں۔عالم اسلام کے ان نام نہاد لیڈروں پرجو امریکہ کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر امریکہ کے بے غیرت بچے اسرائیل کو سفاکیت سے نہیں روک پاتے۔افسوس عالم اسلام کے ان حکمرانوں پر جو اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے افسوسناک طرزعمل اختیارکئے ہوئے ہیں، مگر اسرائیلی یہودیوں کے قبلہ اول کی بے حرمتی پر کوئی عملی اقدامات نہیں کرتے۔کس قدر بے حسی کی بات ہے کہ کیمونسٹ کیوبا کی ایک خاتون فلسطینی مظلوموں کی خاطریونیسیکو کے ایک اجلاس کے ذریعے دنیا بھر میں اسرائیل کورسواکرسکتی ہے مگر بھاری بھر فوج اور مال وودلت کی فروانی رکھنے والے مسلمان ملکوں کے حکمران اسرائیل کو مسجد اقصی کی بے حرمتی سے نہیں روک سکتے۔
QOSHE - اسرائیلی جارحیت، مسلم امہ کیلئے لمحہ فکریہ - عبدالرفع رسول
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

اسرائیلی جارحیت، مسلم امہ کیلئے لمحہ فکریہ

15 0
20.11.2023




ڈیڑھ ماہ سے صیہونی فوج غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے اس پرقیامت خیزبمباری کررہی ہے ،جس کے نیتجے میں اب تک 15ہزار سے زائدفلسطینی مسلمان شہیدہوچکے ہیں جن میں 5ہزارنوزائد اورشیر خواربچے بھی شامل ہیںجبکہ 70فیصدغزہ ملبے کے ڈھیرمیں تبدیل ہوچکاہے ۔ بچاکچاغزہ اسرائیلی ٹینکوں کے محاصرے میں ہے صورتحال اس قدر ابتر ہے کہ دل خون کے آنسوںرورہاہے۔ 12نومبراتوار2023کو عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم یااو آئی سی کا مشترکہ سربراہی اجلاس ریاض میںمنعقدہوا۔ اہل فلسطین تو شہید ہوکر بھی زندہ ہیں لیکن لگتا ہے کہ مسلمان سربراہو؎ں کے ضمیر بے حس ہو چکے ہیں ۔ اجلاس میں رکن ممالک کے سربراہان حکومت نے زبانی کلامی ا سرائیل کی خوب کلاس لی ۔اس اجلاس سے کسی بھی ہوشمند مسلمان کوسرے سے ہی قطعی طورپرکوئی امید وابستہ نہ تھی کیونکہ فورم کے اہم رکن ممالک کے کھلے بندوں اوربعض کے درپردہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار ہیں۔ وہ تو67کی جنگ کے بعد قبلہ اول کی بازیابی کے حوالے سے عملاََسرینڈرکرچکے ہیںاورسرزمین فلسطین اوراہل فلسطین کو یہودی درندوں کے سامنے پھینک چکے ہیں۔ اسلامی ملکوں کے سربراہ اقتدارکے تحفظ پرکمربستہ ہیں ۔ ان کا مقصد اپنے اقتدار دھاگ بٹھانا ہے اور انہیں فلسطینیوں کی پروا کیوں کر ہو سکتی ہے۔ اہل نظر جانتے تھے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play