22نومبر2023بدھ کوپیرپنچال کے ضلع راجوری کے مرکزی قصبے سے 40 کلومیٹر دُور کالاکوٹ اور دھرم شال کے قریب واقع باجی مال گائوں میں مجاہدین کشمیر کے ایک حملے میں قابض بھارتی فوج کے دد افسروں کپٹین شُبھم گپتا، کیپٹین ایم وی پرنجال سمیت5اہلکار ہلاک جبکہ متعددزخمی ہو گئے جن میں ایک میجربھی شامل ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے جموں ڈویژن کی دومسلم اکثریتی اضلاع ضلع پونچھ اورضلع راجوری کو پیرپنچال ویلی کہاجاتاہے جو لائن آف کنٹرول پرواقع ہے۔وادی کشمیرکے لوگ اس علاقے کو ’’پرونژ ‘‘کے نام سے پکارتے ہیں ۔1947,1965,1971 کی پاک بھارت جنگوں کے دوران پیرپنچال کاعلاقہ بڑامتحرک رہااوربہت متاثربھی ہوا۔یہاں کے عوام کانظریہ مجموعی طور پرپاکستان نواز ہے،یہی وجہ ہے کہ پاک بھارت جنگوں کے دوران اس علاقے کے باشندگان میں سے ایک وافر تعداد نے پاکستان کی جانب ہجرت کی اور مستقل طور پرپاکستان کے گجرانوالہ،گجرات،وزیر آباد اورسیالکوٹ میں مقیم ہوئے۔2020 سے یہ علاقہ ایک بارپھر مجاہدین کشمیر کاخاص ہدف ہے انہوں نے بھارتی فوج پرپے در پے کئی حملے کئے ہیں جن میں متعددفوجی افسروں سمیت درجنوں قابض بھارتی فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ۔مقبوضہ کشمیر کے ضلع راجوی کے مشرق میں بجلی کا سلال پاور پروجیکٹ کے نام سے جاناجاتاہے۔ راجوری شہر کے چاروں طرف اونچی اونچی خوشنما پہاڑیاں سرسبز شاداب اور خوبصورت جنگلات ٹھنڈے چشموں کا پانی اور سامنے شمال سے مشرق کی سمت پیر پنجال کا وسیع ترین کوہستانی علاقہ صف باندھے ہوئے اس کے فلک بوس پہاڑ اپنے سروں پر سفید برفانی چادر اوڑھے بڑا دلچسپ اور روح پرور منظر پیش کرتے ہیں۔تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ راجا نور الدین خان نے کشمیر سے واپسی پر 1194 میں جب علاقے پر اپنی حکومت قائم کی تو اس نے اس جگہ کا نام تاج ور کے وزن پر راج ور رکھا جس کے معنی ہیں آج کثرت استعمال کی وجہ سے راج ورسے یہ نام راجور ہوگیا اور پھر راجوری کہلایا جو پوچھ کے ساتھ ملحق تھا 1967 میں اس ضلع کا درجہ ملا۔ راجوری شہر کی تمام قدیم عمارتیں پتھر اور چھونے سے بنی ہوئی ہیں جو اب بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں شہر کے ارد گرد ایک پختہ فیصل ہوا کرتی تھی جس سے اندر داخل ہونے کے لیے چار دروازے مخصوص تھے جن میں جنوب کی جانب محلہ اندرکوٹ والا دروازہ ابھی تک موجود ہے اسی طرح شہر کے بالائی حصے پر دریا کے کنارے جو دروازہ تھا وہ ہاتھی دروازہ کے نام سے مشہور ہے کہتے ہیں کہ اس مقام سے دریا کو ہاتھیوں کے ذریعے عبور کیا جاتا تھا تاہم اس حفاظتی فیصل دیوار کا کچھ حصہ ابھی بھی اپنی اصلی صورت میں موجود ہے ندی کے اس پار کے میدانی علاقے پر چاول کی کاشت ہوتی تھی لیکن اب ساری زرخیزی زرعی زمین کو آبادی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ راجوری میں گوجری، پہاڑی، ڈوگری زبان بولی جاتی ہے۔پیرپنچال کے دوسرے اہم علاقے کوپونچھ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ میں ریاست جموںو کشمیر پر بھارت کے جبری قبضے کے باعث جب نام نہاد جنگ بندی لائن قائم کی گئی تو پونچھ میں آزاد جموں کشمیر اوربھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں جبری طورپر بٹ کررہ گیا۔ پونچھ کا مرکزی شہرجس کا رقبہ 1,674 مربع کلومیٹر پر محیط ہے کے بشمول تحصیل حویلی، بالاکوٹ، منڈی، من کوٹ، مہنڈر اور تحصیل سرن کوٹ مقبوضہ جموں وکشمیر میں واقع ہیں جبکہ اس کاکچھ حصہ یعنی حویلی ،عباسپور، باغ، راولاکوٹ اور ہجیرہ کا علاقہ آزادکشمیرمیں واقع ہے آزاد کشمیرکامتذکرہ علاقہ بھی پونچھ علاقہ کہلاتا ہے۔ 1586 عیسوی میں مغلیہ دور حکومت میں پونچھ مغلوں کے زیرنگیں ہو گیا اور مغلوں شاہوں نے فارورڈ کہوٹہ حویلی سے سراج الدین نامی شخص کو پونچھ کا راجہ مقرر کیا۔ 1747 عیسوی میں مغل بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔1747 کو درانی قبائل نے جموں کشمیر پر قبضہ کیا تو پونچھ بھی ان کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ اس عرصے میں کچھ عرصہ تک گجر قبیلے کے روح اللہ سانگو کو 1798 میں راجہ مقرر کیا گیا۔سکھوں کی حکومت کے دوران 1819 سے 1850 تک پونچھ خالصہ دربار لاہور کا حصہ رہا۔ راٹھور خاندان نے پونچھ کے وسیع حصہ پر حکومت کی ہے۔اس خاندان کے راجہ رستم خان نے تمام قبائل کو شیرشکر بنا دیا تھا اس دور میں پونچھ کا نام رستم نگر تھا۔1850 میں سکھ حکومت کے خاتمہ کے بعد ڈوگرا راج کا آغاز ہوا تو ڈوگرہ نے پونچھ کو باقاعدہ ریاست جموں کشمیر میں شامل کر لیااور ریاست پونچھ کا راجہ بھی ریاست جموں کشمیر کے راجہ کے تابع ہو گیا۔1947 میں یہ علاقہ جہاد باالسیف کے ذریعے سارے پونچھ علاقے کوہندو ڈوگرہ سے آزاد کرانے کی موومنٹ شروع ہوئی جس کے نتیجے میں پونچھ کاوہ حصہ آزادہواجوآج کل آزاد کشمیر کا جموں علاقہ کہلاتاہے ۔یہ تاریخ ہے کہ اس علاقے کوڈوگرہ مطلق العنانیت سے آزادکرانے میں اس علاقے کے بہادرلوگوں نے بڑی بہادری سے ڈوگرہ فوج کے خلاف لڑاجس کے نتیجے میں یہ علاقہ آزادہوا۔مجاہدین نے آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن ہندوڈوگرہ حکمران ہری سنگھ نے بھارت سے فوجی مدد طلب کی جس کے بعد پونچھ کے زیادہ تر علاقے پربھارت کا جبری قبضہ ہے جس کے خاتمے کے لئے یہاں کی نوجوان نسل برسرجدوجہدہیں اور وقتاً َفوقتاًقابض بھارتی فوج پر بھرپورحملے کررہے ہیں اور 22نومبر2023کوراجوری میں مجاہدین کشمیر کی تازہ ترین کارروائی بھی اسی کی کڑی ہے ۔
QOSHE - راجوری میں مجاہدین کشمیرکی کامیاب کارروائی - عبدالرفع رسول
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

راجوری میں مجاہدین کشمیرکی کامیاب کارروائی

14 0
27.11.2023




22نومبر2023بدھ کوپیرپنچال کے ضلع راجوری کے مرکزی قصبے سے 40 کلومیٹر دُور کالاکوٹ اور دھرم شال کے قریب واقع باجی مال گائوں میں مجاہدین کشمیر کے ایک حملے میں قابض بھارتی فوج کے دد افسروں کپٹین شُبھم گپتا، کیپٹین ایم وی پرنجال سمیت5اہلکار ہلاک جبکہ متعددزخمی ہو گئے جن میں ایک میجربھی شامل ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے جموں ڈویژن کی دومسلم اکثریتی اضلاع ضلع پونچھ اورضلع راجوری کو پیرپنچال ویلی کہاجاتاہے جو لائن آف کنٹرول پرواقع ہے۔وادی کشمیرکے لوگ اس علاقے کو ’’پرونژ ‘‘کے نام سے پکارتے ہیں ۔1947,1965,1971 کی پاک بھارت جنگوں کے دوران پیرپنچال کاعلاقہ بڑامتحرک رہااوربہت متاثربھی ہوا۔یہاں کے عوام کانظریہ مجموعی طور پرپاکستان نواز ہے،یہی وجہ ہے کہ پاک بھارت جنگوں کے دوران اس علاقے کے باشندگان میں سے ایک وافر تعداد نے پاکستان کی جانب ہجرت کی اور مستقل طور پرپاکستان کے گجرانوالہ،گجرات،وزیر آباد اورسیالکوٹ میں مقیم ہوئے۔2020 سے یہ علاقہ ایک بارپھر مجاہدین کشمیر کاخاص ہدف ہے انہوں نے بھارتی فوج پرپے در پے کئی حملے کئے ہیں جن میں متعددفوجی افسروں سمیت درجنوں قابض بھارتی فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ۔مقبوضہ کشمیر کے ضلع راجوی کے مشرق میں بجلی کا سلال پاور پروجیکٹ کے نام........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play