توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے کون دیکھے گا تہہ آب نظارے سارے نظر انداز کیا میں نے بھی اس دنیا کو اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے پنکھ لگا کر اڑتے ہوئے وقت کو کون روکے مگر ایک احساس دامن گیر ہے کہ برف پگھل رہی ہے حاصل عمر وہی طفل ہے اک گریہ کناں۔ ہاتھ سے چھوٹ گئے جس کے غبارے سارے ۔کوئی پیش بندی کوئی اہتمام آئندہ کا مگر کہاں! دل کی ناآسودہ حسرتیں ایسے میں ہم سیاست کی بات کیا کریں کہ وہاں تو اقتدار و اختیار کی ہوس اسی طرح جوان ہے اور یہ اکثر پیرانہ سالی میں بڑھی ہوئی نظر آتی ہے کبھی میں سوچتا ہوں کہ: فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے کبھی ایک بوڑھے کی کہانی پڑھاتا تھا جو اپنے بیٹے سے کہتا تھا کہ وہ ہولی بک کے حساب سے ستر سال کی عمر گزار چکا اور اب وہ بونس پر ہے۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ پرانی جگہوں کو دیکھے کہ یہ اس کی فطری خواہش ہے مگر ادھر جب میں سیاست میں دیکھتا ہوں تو ادھر ہمیشگی کی خواہش نظر آتی ہے۔ وہی کہ سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں ۔ویسے تو خزاں کا موسم یعنی ادھیڑ عمر بھی تقاضا کرتی ہے کہ پر اکٹھے کر لئے جائیں یعنی سمیٹ لئے جائیں۔ مگر یہ دانش کی باتیں ہیں۔ نواز شریف اب بھی گڑھے مردے اکھاڑ رہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ عوام جاننا چاہتی ہے کہ الیکشن دو ہزار اٹھارہ میں کیا ہوا تھا۔ کوئی بتلائوکہ ہم بتلائیں کیا۔ وہی کچھ ہوا جو اس سے پہلے الیکشن میں ہوا تھا کہ تب بھی نتائج سے پہلے انہوں نے جلوس نکالا تھا اور شعر پڑھا تھا: اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آئی ہو پرواز میں کوتاہی مگر ان کے بقول ملک کے ساتھ بہت زیادتی کی گئی، اب ازالے کا وقت ہے مگر اب تو ان کے سامنے کھلا میدان ہے اور ان کی پوزیشن چھپائے نہیں چھپتی۔ بلاول نے طنزاً کہا کہ میاں صاحب تین دفعہ سلیکٹ ہوئے اب چوتھی مرتبہ الیکٹ ہو کر دکھائیں۔ ظاہر اس کے لئے الیکشن ضروری ہے اور حکومت بار بار یقین دلا رہی ہے کہ الیکشن ہوں گے اور ضرور ہوں گے، تیاری ہو چکی ہے مگر اس کے باوجود تاثر یہی ہے کہ راستہ ہموار اور صاف ملنا چاہیے، اب ووٹ کو اس کا حق نہیں دلایا جا رہا بلکہ بے نیازی نظر آ رہی ہے۔ جانے وہ نعرے کہاں دفن ہو گئے کہ عوام طاقت کا سرچشمہ ہے اور جمہوریت سب سے بڑا انتقام۔حالانکہ دوسرا نعرہ تو بہت ہی سچا اور بامعنی ہے۔ دوسری طرف چھپن چھپائی جاری ہے۔ کوئی اگر رہا ہوتا ہے تو پھر پکڑ لیا جاتا ہے۔ شاید یہ کسی کو ڈرانے اور احسان جتانے کے لئے ہے یعنی دشمن کی ایسی ہوا باندھی جائے کہ امیدوار اقتدار کی ہوا خارج ہو جائے۔میں ایک بار پھر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ شاید کچھ لوگ میرے انداز میں سوچتے ہوں کہ سب سے پہلے یہ لوگ اپنے آپ کو اس وطن کا باشندہ ثابت کریں صرف راج کرنے کے لئے اجازت طلب نہ کریں۔ آپ ہمارے بن کر دکھائیں تو بات ہے۔ایک شعر لکھ دیتا ہوں: دست دیگر پہ نہ آ جائیں منافق سارے لکھنے والے تو ذرا سوچ کے دعویٰ لکھنا فی الحال تو نگرانی کرنے والے اچھی نگرانی کر رہے ہیں۔ میری مراد نگران حکومت سے ہے۔ اسے مجازی معنوں ہی میں لیا جائے۔ خرم دستگیر بڑی مزے کی بات کر جاتے ہیں، فرماتے ہیں کہ ہم آ کر احتساب کریں گے۔ ہر کوئی یہی کرتا ہے ہر آنے والے دشمنوں کا ہی احتساب کرتا ہے اور ہر کوئی آکر نیب کو استعمال کرتا ہے اور وہ بھی اجازت کے ساتھ اور ہر کوئی آنے والے وقت پر یقین نہیں رکھتا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہی نیب ان کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیتا ہے کا،ش کوئی اپنا احتساب خود کرتا۔ سب ہی قابل احتساب ہیں۔ ایک زرداری ہیں کہ جو اپنا الائو جلا کر بیٹھے ہیں۔ یہ ان کا حق ہے کہ وہ وزیر اعظم کے امیدوار اس حساب سے ہیں کہ بلاول یا خورشید شاہ ان کا امیدوار ہو سکتا ہے۔ بہرحال اس پر بارگینگ بھی ہو سکتی ہے۔ ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی گہرا ہے کہ ن لیگ کے لئے پری پول فیلڈ سیٹ کر دی گئی اور یہ بھی عام ہے کہ انہیں استحکام دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ عوام مگر دم سادھے ہوئے ہے وہی جو سمندر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خاموش ہوا طوفان کا پیشہ خیمہ ہوتی ہے ایسے ہی ایک پرانا شعر ذہن میں آ گیا: ایک خلقت ہے کہ غصے میں بھری بیٹھی ہے ایک طوفان ہے کہ لوگوں نے دبا رکھا ہے کوشش تو کی جائے گی کہ عوام سے چوائس چھین لی جائے۔ مگر یہ جمہوریت کے بنیادی تقاضوں ہی کے خلاف ہے سب کو اپنا اپنا منشور پیش کرنا چاہیے اور لوگوں پر چھوڑ دیں کہ وہ آپ کو اپنی خدمت کے لئے چنیں۔وہ آپ کی خدمات سے بخوبی آگاہ ہیںاور دوسری بات یہ کہ آپ اپنی کارکردگی اور معرکوں سے خود ہی ڈرے ہوئے ہیں۔ اب اچھے موسموں کی نوید سے بھی کام نہیں چلے گا۔ ہر کردار بے اعتبار ہو چکا ہے ایک پنجابی شعر: ایسے لئی یاروں ہسدا نیئں میں ہاسے وی تے روپیندے نیں
QOSHE - نامعتبر موسم اور امید!! - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

نامعتبر موسم اور امید!!

11 0
16.12.2023




توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے کون دیکھے گا تہہ آب نظارے سارے نظر انداز کیا میں نے بھی اس دنیا کو اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے پنکھ لگا کر اڑتے ہوئے وقت کو کون روکے مگر ایک احساس دامن گیر ہے کہ برف پگھل رہی ہے حاصل عمر وہی طفل ہے اک گریہ کناں۔ ہاتھ سے چھوٹ گئے جس کے غبارے سارے ۔کوئی پیش بندی کوئی اہتمام آئندہ کا مگر کہاں! دل کی ناآسودہ حسرتیں ایسے میں ہم سیاست کی بات کیا کریں کہ وہاں تو اقتدار و اختیار کی ہوس اسی طرح جوان ہے اور یہ اکثر پیرانہ سالی میں بڑھی ہوئی نظر آتی ہے کبھی میں سوچتا ہوں کہ: فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے کبھی ایک بوڑھے کی کہانی پڑھاتا تھا جو اپنے بیٹے سے کہتا تھا کہ وہ ہولی بک کے حساب سے ستر سال کی عمر گزار چکا اور اب وہ بونس پر ہے۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ پرانی جگہوں کو دیکھے کہ یہ اس کی فطری خواہش ہے مگر ادھر جب میں سیاست میں دیکھتا ہوں تو ادھر ہمیشگی کی خواہش نظر آتی ہے۔ وہی کہ سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں ۔ویسے تو خزاں کا موسم یعنی ادھیڑ عمر بھی تقاضا کرتی ہے کہ پر اکٹھے کر لئے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play