وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے درمیان ملاقات گو حکومتی ضوابط میں ہوئی لیکن اس سے سیاسی کشیدگی کم ہونے کی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے پی کے نے ایک دوسرے کو منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی۔وزیر اعلیٰ کے پی کے نے وزیر اعظم سے صوبے میں شہاب علی شاہ کو نیا چیف سیکرٹری تعینات کرنے اور دیگر صوبوں کی طرح فنڈز جاری کرنے کا مطالبہ کیا ۔وزیر اعظم کا ردعمل اس لحاظ سے مثبت تھا کہ انہوں نے خیبر پختونخوا کے تمام جائز مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی ملاقات اس لئے اہم تصور کی جارہی ہے کہ قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ خیبر پختونخوا کے موقع پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ان کا استقبال نہیں کیا تھا۔کشیدگی کی بنیادی وجہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اپنے مینڈیٹ کے چوری ہونے کی شکایت اور کارکنوں و رہنماوں کے خلاف قانونی کارروائیاں ہیں۔ پاکستان ماضی میں کئی بار حکومت اور اپوزیشن میں کشیدگی بھگت چکا ہے۔بے نظیر بھٹو کا بطور وزیر اعظم پنجاب میں استقبال نہ کر کے نواز شریف نے تصادم کو ہوا دی۔پھر دونوں کے ادوار میں ہارس ٹریڈنگ کے معاملات نے جمہوریت کو شرمسار کیا۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے ہو سکتا ہے ایک دوسرے سے سیاسی انتقام لے لیا ہو لیکن اہل پاکستان کی آرزو ہے کہ وہ وقت لوٹ کر نہ آئے ۔پچھلے تین انتخابات میں دھاندلی کی شکایات زیادہ سامنے آئیں۔پارلیمنٹ اور حکومتوں نے اس پر کوتاہی دکھائی جس نے سیاسی اشتعال پیدا کیا اور اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی حوصلہ افزائی کی ۔ملک جس نوع کے مسائل کا شکار ہے وہاں تمام سیاسی جماعتوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ریاست سے متعلق مشترکہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔نئی حکومت کے لئے کئی معاملات میں دیگر جماعتوں اور اپوزیشن سے تعلقات بہتر رکھنا ضروری ہے۔کمزور اتحادی حکومت ٹیکس کی بنیاد کو بڑھانے سے لے کر خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری تک سیاسی طور پر حساس اصلاحات پر اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرے گی۔ یہ ایک اہم چیلنج ہوگا ۔ نئی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ طے مشکل ،کفایت شعاری کی شرائط کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔عدم استحکام کے طویل عرصے کے باوجود، انتخابات کے بعد کی خارجہ پالیسی میں زیادہوضاحت درکار ہے۔ نئی حکومت کے ساتھ اپوزیشن کے ممکنہ اختلافکے معاملات توجہ چاہتے ہیں ۔آرمی چیف انتخابات سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مفاہمت نہیں کرسکتا کیونکہ 'بھارت نے پاکستان کے تصور کے ساتھ مفاہمت نہیں کی ہے۔' ایران کے ساتھ حالیہ جھڑپوں کے جواب میں بھی انہوں نے انتباہ کیا،افغانستان سے پاکستان کی سکیورٹی کو لاحق خطرات پر وہ اپنا رد عمل دے چکے ہیں۔نئی حکومت کو اپنی سکیورٹی پالیسی میں مسلح افواج کے تحفظات کو جگہ دینی ہے ۔ریاستی سلامتی سے متعلق یہ معاملہ داخلی اتفاق کا تقاضا کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جمہوریت کا تعلق اپوزیشن سے اتنا ہی ہے جتنا کہ حکومت کا۔ایک موثر اپوزیشن کے ذریعے اپوزیشن جمہوریت کی کسی بھی سنجیدہ تعریف کا لازمی حصہ ہے۔ بنیادی طور پر مختلف قسم کی حکومتوں میں اختلافات کو بڑھانے کی بجائے اختلافات کو بات چیت سے کم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت تھی ۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور حکمران خاندانوں کے مفادات بسا اوقات ریاست کے مفادات سے بڑے بنا دیئے جاتے ہیں۔اس سے جہاں حکومت اور اپوزیشن کے مابین ریاستی مفادات کے تابع تعلقات پروان نہیں چڑھے وہاں دشمنی اور انتقام کے جذبات سیاست کا حصہ بن گئے۔ اپوزیشن کی غیر یقینی حیثیت اور کمزوری لبرل جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے ۔یہ آئین سے بالاتر حکومتوں کی خصوصیات کی نشاندہی کرتی ہے۔ تاہماپوزیشن کی کارکردگی اور ارتقاء کو مخالفتوں اور ان سے نمٹنے کے لیے حکومت کے طریقہ کار سے تشکیل دیا جاتا ہے۔مسلم لیگ نواز کی حکومت اگر خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور مرکز و دیگر صوبوں میں موجود پی ٹی آئی (سنی اتحاد کونسل) سے مثبت تعلقات استوار کرنے کا راستہ تلاش کر لے تو اس کی بہت سے ممکنہ مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔ یہ کوشش ایک بڑے مشترکہ منصوبے کا حصہ بن سکتی ہے،ایسا منصوبہ جو قومی یکجہتی ، معاشی بحالی اور جمہوری استحکام کا کام دے سکے۔ ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان میں جمہوریت کو استحکام کے دیرینہ مسئلے کا سامنا ہے۔ جمہوریت میں ریاستی اداروں کی مضبوطی کا انحصار مرکزی حکومت کے اپوزیشن اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ تعلقات پر ہوتا ہے۔مرکز میں حکمران جماعت کے اپوزیشن اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعلقات اکثر ناخوشگوار اور غیر دوستانہ رہے ہیں۔ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ذاتی مفادات نے قومی اور علاقائی سطح کی سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم اور تنازعات کو بڑھاوا دیا۔اس وقت مرکز اور صوبوں میں حکومت بنانے والی تما جماعتیں عوام میں حمایت رکھتی ہیں۔ وزیر اعظم کو اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماوں پر قائم مقدمات کا از سر نو جائزہ لینے کے لئے پارلیمنٹ کے ممبران پر کمیٹی بنانی چاہئے،جو لوگ ملوث ہوں ان کے خلاف کارروائی کی جائے ۔بے گناہوں کو اس مشق سے مزید نہ گزارا جائے۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور ان کی جماعت بھی مسائل کا حل بات چیت سے نکالنے کے لئے آگے بڑھے تو معاملات سدھر سکتے ہیں۔
QOSHE - سیاسی کشیدگی میں کمی کے اقدامات درکار - اداریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سیاسی کشیدگی میں کمی کے اقدامات درکار

7 0
16.03.2024




وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے درمیان ملاقات گو حکومتی ضوابط میں ہوئی لیکن اس سے سیاسی کشیدگی کم ہونے کی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے پی کے نے ایک دوسرے کو منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی۔وزیر اعلیٰ کے پی کے نے وزیر اعظم سے صوبے میں شہاب علی شاہ کو نیا چیف سیکرٹری تعینات کرنے اور دیگر صوبوں کی طرح فنڈز جاری کرنے کا مطالبہ کیا ۔وزیر اعظم کا ردعمل اس لحاظ سے مثبت تھا کہ انہوں نے خیبر پختونخوا کے تمام جائز مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی ملاقات اس لئے اہم تصور کی جارہی ہے کہ قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ خیبر پختونخوا کے موقع پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ان کا استقبال نہیں کیا تھا۔کشیدگی کی بنیادی وجہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اپنے مینڈیٹ کے چوری ہونے کی شکایت اور کارکنوں و رہنماوں کے خلاف قانونی کارروائیاں ہیں۔ پاکستان ماضی میں کئی بار حکومت اور اپوزیشن میں کشیدگی بھگت چکا ہے۔بے نظیر بھٹو کا بطور وزیر اعظم پنجاب میں استقبال نہ کر کے نواز شریف نے تصادم کو ہوا دی۔پھر دونوں کے ادوار میں ہارس ٹریڈنگ کے معاملات نے جمہوریت کو شرمسار کیا۔پیپلز پارٹی اور........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play