وزیر اعظم شہباز شریف کو معاشی روڈ میپ پیش کر دیا گیا ہے ۔روڈ میپ میں غربت کے خاتمے، مہنگائی میں کمی اور روزگار کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ملکی معیشت کی ترقی کے لیے معاشی روڈ میپ پر ایک اعلیٰ سطحی جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ زراعت،لائیو ستاک ،انفارمیشن ٹیکنالوجی ،بیرونی سرمایہ کاری اور چھوٹے پیمانے پر صنعتوں کی استعداد میں اضافے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔اجلاس کو ملکی معیشت کی ترقی کے لیے روڈ میپ اور اہم شعبوں میں مجوزہ اقدامات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں بجلی، ایکسپورٹ سیکٹر، درمیانے اور چھوٹے پیمانے کی صنعت، ٹیکسیشن، اور نجکاری سے متعلق اقدامات پر بھی بریفنگ دی گئی۔وزیراعظم ان مجوزہ اقدامات پر تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ایک جامع پلان تشکیل دینا چاہتے تھے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ مہنگائی میں کمی، غربت کا خاتمہ اور روزگار کی فراہمی روڈ میپ کا حصہ ہیں۔سرکاری ذرائع کے مطابق وزیر اعظم چاہتے تھے کہ روڈ میپ پلان پر عمل درآمد کے لیے معاشی اہمیت کے حامل مختلف شعبوں کے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ ان کی خواہش تھی کہ معیشت کے استحکام اور ترقی کے لیے ان منصوبوں پر عمل درآمد کو وقت ضائع کیے بغیر یقینی بنایا جائے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے یقین دلایا کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے گی اور غریب عوام کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ پانچ سالوں میں ملکی معیشت کو مستحکم کر کے ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔وزیراعظم کی مستعدی اور یقین دہانی سے امکان دکھائی دیتا ہے کہ حکومت معاشی بحالی کی کوششوں میں ضرور کامیاب ہو جائے گی لیکن ماضی کے واقعات اور موجودہ حکومت میں معاشی سمجھ بوجھ والی شخصیات کی کمی سے کئی خدشات بھی سر اٹھا رہے ہیں۔امید رکھنی چاہئے کہ حکومت اس سلسلے کو بھرپور ہوم ورک کے بعد شروع کرے گی اور پھر نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کرے گی۔ معاشی بحالی ایک بڑی اور بڑھتی ہوئی ضرورت ہے۔ سیاسی عزم کے باوجود، بہت سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی حکومتوں کی طرح پاکستان نے معاشی بحالی پر بہت کم توجہ دی ہے۔ معاشی مسائل پالیسی ایجنڈے تک کیسے اور کیوں پہنچتے ہیں اور بینکنگ، توانائی ،سرمایہ کاری،گڈ گورننس،تجارت اور پیداوار کے شعبے کس طرح معاشی بحالی تک رسائی کے لیے قابل اطلاق پالیسی پیش کرتے ہیں،یہ پاکستان کے لئے اہم ہے جہاں وزارتوں اور محکموں کے درمیان قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے مفقود رہا ہے۔پاکستان میں معاشی بحالی کی ترجیحات کو سمجھنے کے لیے ایک پالیسی فریم ورک تجویز درکار ہے۔ پالیسی فریم ورک میں تین اجزاء شامل ہیں جو کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی حکومتی پالیسیوں کی ترجیحات کو طے کرتے ہیں۔ سب سے پہلیمعاشی بحالی کی مستقل تعریف کا فقدان ہے، جو اتفاق رائے سے چلنے والے حل کو سمجھنے میں دقت پیدا کرتا ہے ۔ دوسرا، گورننس کے انتظامات، سرکاری وزارتوں کے اندر اور حکومت اور اس کے شہریوں کے مابین، اور بحالی کی خدمات کی فراہمی میں مصروف قومی اور بین الاقوامی عناصر و اداروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ تیسرا، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثرہ کاروباری ماحول اورموجودہ نظام میں کمزوریاں بحالی کی ضروریات اور عمل درآمد دونوں کو متاثر کرتی ہیں۔ادارہ جاتی معیار (IQ) پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ پرامن اور جامع معاشروں کو فروغ دیتا ہے، انصاف تک رسائی فراہم کرتا ہے، موثر، جوابدہ، اور شفاف اداروں کی تعمیر کرتا ہے۔ مضبوط اداروں کے حامل ممالک جو قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھتے ہیں، انسانی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں اور بدعنوانی کا مقابلہ کرتے ہیں، وہ اس مقصد کو حاصل کرنے اور اقتصادی ترقی کے زیادہ امکان رکھتے ہیں۔پاکستان میں جب کبھی معاشی ترقی کی بات کی جاتی ہے تو اسے سماجی انصاف اور گڈ گورننس سے الگ چیز سمجھ لیا جاتا ہے۔ 2002 سے 2018 کے درمیان 70 ترقی پذیر ممالک میں انسانی ترقی کے اشاریہ (HDI) کے ذریعے ماپنے والے IQ اور اقتصادی ترقی کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے، مختلف اقتصادی تکنیکوں کو استعمال کیا گیا۔ تحقیق سے پتا چلا کہ آئی کیو اور گلوبلائزیشن میں ایک مثبت تعلق ہے جبکہ مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کا ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس پر منفی اثر پڑتا ہے۔ انسٹی ٹیوشنل کوالٹی کو بہتر بنانے کے لیے شفافیت کو ترجیح دی جانی چاہیے کیونکہ یہ IQ بڑھانے کی بنیاد ہے۔ اسی طرح، بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے اور معاشی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے مضبوط انتظامی مداخلت کی ضرورت ہے۔ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ پالیسی سازوں کو معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ادارہ جاتی معیار کو بہتر بنانے اور بدعنوانی سے نمٹنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ پاکستانی معیشت قرضوں ، سبسڈیز ، ٹیکس ہدایات اور بینکنگ سفارشات کی صورت میں عالمی اداروں کے کنٹرول میں سمجھی جاتی ہے۔داخلی مسائل اور رکاوٹیں اپنی جگہ لیکن خارجہ سطح پر پاکستان کی نئی برانڈنگ ضروری ہو چکی ہے۔ایک ترقی مذیر پاکستان دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے حکومت کے ساتھ سماجی اور کاروباری طبقات کو بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔طویل عرصہ کی دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام ، حکومتوں کی نا اہلی اور کاروباری ماحول کی تباہی کے بعد معاشی بحالی آسان ہدف نہیں ،اس مشکل ہدف کے حصول کے لئے غیر معمولی استعداد سے کام لینا ہو گا۔
QOSHE - معاشی روڈ میپ کی استعداد - اداریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

معاشی روڈ میپ کی استعداد

12 0
17.03.2024




وزیر اعظم شہباز شریف کو معاشی روڈ میپ پیش کر دیا گیا ہے ۔روڈ میپ میں غربت کے خاتمے، مہنگائی میں کمی اور روزگار کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ملکی معیشت کی ترقی کے لیے معاشی روڈ میپ پر ایک اعلیٰ سطحی جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ زراعت،لائیو ستاک ،انفارمیشن ٹیکنالوجی ،بیرونی سرمایہ کاری اور چھوٹے پیمانے پر صنعتوں کی استعداد میں اضافے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔اجلاس کو ملکی معیشت کی ترقی کے لیے روڈ میپ اور اہم شعبوں میں مجوزہ اقدامات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں بجلی، ایکسپورٹ سیکٹر، درمیانے اور چھوٹے پیمانے کی صنعت، ٹیکسیشن، اور نجکاری سے متعلق اقدامات پر بھی بریفنگ دی گئی۔وزیراعظم ان مجوزہ اقدامات پر تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ایک جامع پلان تشکیل دینا چاہتے تھے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ مہنگائی میں کمی، غربت کا خاتمہ اور روزگار کی فراہمی روڈ میپ کا حصہ ہیں۔سرکاری ذرائع کے مطابق وزیر اعظم چاہتے تھے کہ روڈ میپ پلان پر عمل درآمد کے لیے معاشی اہمیت کے حامل مختلف شعبوں کے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ ان کی خواہش تھی کہ معیشت کے استحکام اور ترقی کے لیے ان منصوبوں پر عمل درآمد کو وقت ضائع کیے بغیر یقینی بنایا جائے۔وزیر اعظم........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play