مالی اعدادوشمار پر پاکستانی مذاکرات کاروں اور آئی ایم ایف کے مابین اختلاف ابھر آیا ہے لیکن حکومت نے تاحال موجودہ مالی سال کے باقی ماندہ عرصے کے دوران کسی ضمنی بجٹ کے ذریعے کوئی اضافی ٹیکس لگانے میں تذبذب کا مظاہرہ کیا ہے۔بجٹ خسارے کے ہدف پر نظر ثانی ممکن ہے لیکن آئی ایم ایف پاکستانی حکام سے کہہ رہا ہے کہ وہ بنیادی سرپلس کو یقینی بنانے پر عمل پیرا ہیں۔آئی ایم ایف نے پنجاب کی مالی حیثیت کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے :وہ مطلوبہ آمدن اکٹھی کرنے اور اپنے بے لگام اخراجات کو لگام ڈالنے میں ناکام رہا ہے، اس کا ٹیکس مرکز جمع کرے ،بات چیت کے دوران یہ چیزبھی سامنے آئی کہ ایف بی آر کو پنجاب میں ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات تفویض کیے جانے چاہیئں اور جب یہ جمع ہوجائیں تو پھر یہ محصولات جمع کرنے کی فیس کاٹ کرملک کے اس سب سے زیادہ آبادی والے صوبے کے حوالے کرنے چاہئیں۔ حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین دوسرے اقتصادی جائزے پر مذاکرات جاری ہیں ۔جس میں کئی معاملات پر بات چیت ہو رہی ہے ۔لیکن آئی ایم ایف کی شرائط کڑی سے کڑی ہوتی جا رہی ہیں ۔اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر قرض ملنا ہے۔ اس میں سے پاکستان کو اب تک 1.9 ارب ڈالر مل چکے ہیں اور تیسری قسط کے اجرا سے قبل ایک جائزہ لیا جانا باقی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھایا جائے۔یہ کام بہت پہلے ہوناچاہیے تھا مگر ابھی تک نہ ہو سکا کیونکہ ابھی تک ایک بڑی تعداد ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔پاکستان میں سالانہ 956 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے۔بین الاقوامی ریسرچ ادارے اپسوس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹیکس چوری کرنے والوں میں رئیل اسٹیٹ، چائے، سگریٹ، ٹائرز، آئل اور فارما کے سیکٹر شامل ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ صرف رئیل اسٹیٹ میں ایک سال کا 500 ارب روپے کا ٹیکس چوری کیا جاتا ہے، سگریٹ انڈسٹری میں 240 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے۔جبکہ چائے کی انڈسٹری میں 45 ارب روپے، دواؤں کے شعبے میں 65 ارب روپے، ٹائرز اور آئل سیکٹر میں 106 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی جا رہی ہے۔آئی ایم ایف کو چاہیے کہ وہ اس ٹیکس چوری پر قابو پانے کی شرائط کے ساتھ مذاکرات کا نتھی رکھے۔یہ ٹیکس سرمایہ دار اور بڑے افراد چوری کر رہے ہیں جبکہ غریب آدمی کو صرف بجلی کے بلوں سے ہی واسطہ ہے مگر بدقسمتی سے اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی ٹیرف میں بروقت اضافے کی یقین دہانی کروا ئی ہے۔ اس لحاظ سے بجلی کی قیمتوں میں یکم جولائی سے مزید اضافے کا امکان ہے۔ قیمتوں میں ماہانہ ، سہ ماہی اور سالانہ ایڈجسٹمنٹ ہو گی۔جس کے بعد غریب کاجینا محال ہو جائے گا۔آئی ایم ایف نے بی آئی ایس پی کے تحت مستحقین کا تحفظ یقینی بنانے پرزور دیا ہے جبکہ حکومت نے بی آئی ایس پی مستحقین کی تعداد جون تک مزید بڑھانے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔اس کی تحسین کی جانی چاہیے لیکن اس میں شفافیت کا معیار قائم رکھنا چاہیے کیونکہ ماضی کئی صاحب حیثیت افراد بھی یہ رقم وصول کرتے رہے ہیں ۔کئی حاضر سروس افسران کے اہل و عیال غریبوں کی رقم بٹورتے رہے ہیں ۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو توانائی سیکٹر کا گردشی قرضہ کم کرنے کیلئے ایڈجسٹمنٹس اور ٹیرف میں بروقت اضافہ کرنے کا بھی یقین دلایا۔آئی ایم ایف نے سخت مانیٹری پالیسی اور مارکیٹ بیسڈ ایکسچنج ریٹ کی پالیسی برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا اور آئی ایم ایف وفد نے معاشی استحکام کے تسلسل کیلئے ضروری اصلاحات جاری رکھنے پرزوردیا ہے۔پیٹرولیم ڈویژن حکام کے مطابق رواں مالی سال گیس شعبے کے گردشی قرضے میں اضافہ نہیں ہوا۔ سود سمیت پیٹرولیم سیکٹر کا گردشی قرضہ 3 ہزار 22 ارب روپے پر پہنچ چکا ہے جبکہ سود کے بغیر پٹرولیم سیکٹر کا گردشی قرضہ 2300 ارب روپے ہے۔پاکستان کا سالانہ پٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل ساڑھے 17 ارب ڈالرز پر پہنچ چکا ہے۔ یہاں بھی آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھانے کی تجویز بھی زیرغور آئی ہے۔ آئی ایم ایف کو گیس شعبے کے گردشی قرضے میں کمی اور گیس کی قیمتوں کی ایڈجسٹمنٹ بروقت کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔اگر یہ شرائط پو ری ہوتی ہیں تو ہی پاکستان کو ایگزیکٹیو بورڈ کی منظوری سے آخری قسط ملے گی۔اگر ان مطالبات کا جائزہ لیاجائے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ ان مطالبات کی منظور ی کے بعد مہنگائی کا ایک طوفان آئے گا ،جس میں غریب آدمی کا جینا دو بھر ہو جائے گا ۔ اس کے علاوہ پی آئی اے اور حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری پر پلان طلب کرلیا گیاہے۔ایسے ادارے جو خسارے میں جا رہے ہیں ،ان کی نجکاری کر کے حکومتی خزانے سے بوجھ کم کیا جا سکتا ہے ۔اس سلسلے میں پی آئی اے کی نجکاری کیلئے کمرشل بینکوں کے ساتھ بارہ فیصد تک شرح سود پر ٹرم شیٹ معاہدے کی کوشش جاری ہے ۔امید ہے یہاں مثبت پیشرفت ہو گی۔آئی ایم ایف مشن کا مقصد پاکستان کے موجودہ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کی تکمیل ہے جو اپریل 2024ء میں ختم ہو رہا ہے لیکن پاکستان صرف اس قسط کے لیے یہ سب کچھ نہیں کر رہا بلکہ حکومت پاکستان آئی ایم ایف سے کم از کم چھ ارب ڈالر کا نیا قرض حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جس کی شرائط عوام کو گروی رکھنے کے مترادف ہوں گی ۔
QOSHE - آئی ایم ایف کی مذاکرات میں کڑی شرائط - اداریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

آئی ایم ایف کی مذاکرات میں کڑی شرائط

14 0
18.03.2024




مالی اعدادوشمار پر پاکستانی مذاکرات کاروں اور آئی ایم ایف کے مابین اختلاف ابھر آیا ہے لیکن حکومت نے تاحال موجودہ مالی سال کے باقی ماندہ عرصے کے دوران کسی ضمنی بجٹ کے ذریعے کوئی اضافی ٹیکس لگانے میں تذبذب کا مظاہرہ کیا ہے۔بجٹ خسارے کے ہدف پر نظر ثانی ممکن ہے لیکن آئی ایم ایف پاکستانی حکام سے کہہ رہا ہے کہ وہ بنیادی سرپلس کو یقینی بنانے پر عمل پیرا ہیں۔آئی ایم ایف نے پنجاب کی مالی حیثیت کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے :وہ مطلوبہ آمدن اکٹھی کرنے اور اپنے بے لگام اخراجات کو لگام ڈالنے میں ناکام رہا ہے، اس کا ٹیکس مرکز جمع کرے ،بات چیت کے دوران یہ چیزبھی سامنے آئی کہ ایف بی آر کو پنجاب میں ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات تفویض کیے جانے چاہیئں اور جب یہ جمع ہوجائیں تو پھر یہ محصولات جمع کرنے کی فیس کاٹ کرملک کے اس سب سے زیادہ آبادی والے صوبے کے حوالے کرنے چاہئیں۔ حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین دوسرے اقتصادی جائزے پر مذاکرات جاری ہیں ۔جس میں کئی معاملات پر بات چیت ہو رہی ہے ۔لیکن آئی ایم ایف کی شرائط کڑی سے کڑی ہوتی جا رہی ہیں ۔اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر قرض ملنا ہے۔ اس میں سے پاکستان کو اب تک 1.9 ارب ڈالر مل چکے ہیں اور تیسری قسط کے اجرا سے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play