شمالی وزیرستان کے ضلع میر علی میں دہشت گردوں کے حملے میں سکیورٹی فورسز کے دو افسروں سمیت قوم کے سات بہادر جوان شہید ہو گئے۔سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں تمام چھ حملہ آور مارے گئے۔آئی ایس پی آر کی جاری تفصیالت کے مطابق دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی سکیورٹی فورسز کی چوکی سے ٹکرا دی، جس کے بعد متعدد خودکش بم حملے ہوئے، جس کے نتیجے میں عمارت کا ایک حصہ منہدم ہوا اورپانچ افراد شہید ہوئے۔ بیان میں کہا گیا کہ سکیورٹی فورس کے مزید دو ارکان بعد میں عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی میں شہید ہوئے۔آئی ایس پی آر کے مطابق’’ پاک فوج نے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کے اصول کو برقرار رکھا ہے۔یہ عظیم قربانی ہمارے بہادر بیٹوں کے غیرمتزلزل عزم کی ایک اور شاندار شہادت کے طور پر سامنے آئی ہے، جنہوں نے اپنی مادر وطن کے دفاع کے لیے حتمی قربانی دینے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔‘‘صدر آصف علی زرداری ،وزیر اعظم شہباز شریف اور عسکری قیادت نے جشہید جوانوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ سابق قبائلی علاقے (فاٹا) میں شمالی وزیرستان ایجنسی القاعدہ، افغان اور پاکستانی طالبان عسکریت پسندوں اور متعدد علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہ کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔ اس علاقے سے کئی دہشت گردانہ حملوں یا سازشوں کا سراغ پایا گیا ۔ افغانستان میں سرحد پار سے ریاست پاکستان کے خلاف کام کرنے والے عسکریت پسندوں کے لیے یہ علاقہ کبھی پناہ گاہ کا کام کرتا تھا۔ کچھ برس پہلے یہاں کریٹیکل تھریٹس پروجیکٹ نے ایک ٹریکر مرتب کیا جس میں واقعات اور رپورٹس کا خلاصہ کیا گیا ۔اس ٹریکر میں شمالی وزیرستان اور ایجنسی سے باہر کام کرنے والے دہشت گردگروپس شامل تھے۔ اپ ڈیٹس روزانہ کی بنیاد پر پوسٹ کی گئیں۔اس سے جو حقائق سامنے رکھ کر سکیورٹی حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ اس سے مدد ملی اور شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندی خاطر خواہ حد تک کم ہوئی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ خیبر پختونخواہ ہے جہاں ایک جاری مسلح تصادم ہے جس میں پاکستان کی سکیورٹی فورسزاور عسکریت پسند گروپ شامل ہیں جیسے کہ تحریک طالبان پاکستان (TTP)، جنداللہ، لشکر- ای-اسلام (LeI)، TNSM، القاعدہ اور ان کے وسطی ایشیائی اتحادی جیسے اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، ایسٹ ترکستان موومنٹ اور منظم جرائم سے وابستہ عناصر۔وزیر ستان میں 2004 میں اس وقت گڑ بڑشروع ہوئی جب فاٹا میں القاعدہ کے جنگجوؤں کی جانب سے پیدا ہونے والی کشیدگی بڑھ گئی۔دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کے اقدامات کو امریکی جنگ میں اس کے تعاون کے طور پر پیش کیا گیا۔یہ عام لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش تھی۔ القاعدہ کے دہشت گرد افغانستان سے فرار ہو کر سرحد سے ملحقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں پناہ لیتے تھے۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد پاکستان کے لئے عالمی برادری میں رہنے کے لئے یہی راستہ بچا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہو جائے ۔ 2001-2002 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد، القاعدہ اور اس کے حامی طالبان پناہ لینے کے لیے پاکستان-افغانستان کی سرحد عبور کر آئے۔ اس کے نتیجے میں، عسکریت پسندوں نے فاٹا کی سات قبائلی ایجنسیوں پر کنٹرول قائم کر لیا۔پاک فوج اور قوم کی بے مثال قربانیوں کے طفیل ان علاقوں میں امن نافذ ہوا اور پھر ان کو صوبے میں شامل کر لیا گیا۔دو ہزار اٹھارہ کے بعد سے اس علاقے میں عمومی امن و مان کی حالت اطمینان بخش رہی ہے،افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سکیورٹی چیلنج ایک بار پھر سر اٹھانے لگے ہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی کے نئے خطرے کا سامنا ہے کیونکہ افغانستان میں طالبان ٹی ٹی پی کو قابو میں رکھنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ دہشت گروپوں میںتازہ بھرتیوں، امریکی ساختہ ہتھیاروں تک آسان رسائی اور افغانستان میں پناہ گاہوں نے ٹی ٹی پی کو ایک بار پھر پاکستان میں کارروائیوں کے لیے تقویت دی ہے۔ نتیجتاً پاکستان کو 2022 کے آخر تک 13 خودکش حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔2022 میں مذاکرات کے بعد، ٹی ٹی پی اور حکومت نے جون 2022 میں جنگ بندی کا اعلان کیا۔ تاہم، نومبر 2022 میں، ٹی ٹی پی نے جنگ بندی ختمکر دی ۔7 اپریل 2023 کو وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے اپنے مغربی علاقوں کے لیے خطرہ بننے والے عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک نیا فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ماہرین کے مطابق دہشت گرد اپنی حملے کی واردات اور طریقہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔وہکئی طریقوں سے حملے کررہے ہیں۔ وہ بلنٹ فورس ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، گاڑیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں یا دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات کا استعمال کر سکتے ہیں۔ دہشت گرد اکثر حملے کی جگہ پر جا کر اپنے حملے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تاکہ اسے انجام دیا جا سکے جسے 'دشمنانہ جاسوسی' کہا جاتا ہے۔ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گرد اکثر اپنی سرگرمیوں کو پوشیدہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔انٹیلی جنس اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے عناصر کی سخت نگرانی کا نظام تشکیل دیا جائے۔افواج پاکستان کے بہادر جوان وطن کی سلامتی اور تحفظ کے لئے جان قربان کرنے سے یقینا پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن ان کی جانیں بھی قیمتی ہیں جن کو بچانے کے لئے حکومت کو جلد موثر سکیورٹی پالیسی لانا چاہیئے۔
QOSHE - وزیرستان دہشت گردی: حکومت موثر پالیسی لائے - اداریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

وزیرستان دہشت گردی: حکومت موثر پالیسی لائے

13 0
19.03.2024




شمالی وزیرستان کے ضلع میر علی میں دہشت گردوں کے حملے میں سکیورٹی فورسز کے دو افسروں سمیت قوم کے سات بہادر جوان شہید ہو گئے۔سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں تمام چھ حملہ آور مارے گئے۔آئی ایس پی آر کی جاری تفصیالت کے مطابق دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی سکیورٹی فورسز کی چوکی سے ٹکرا دی، جس کے بعد متعدد خودکش بم حملے ہوئے، جس کے نتیجے میں عمارت کا ایک حصہ منہدم ہوا اورپانچ افراد شہید ہوئے۔ بیان میں کہا گیا کہ سکیورٹی فورس کے مزید دو ارکان بعد میں عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی میں شہید ہوئے۔آئی ایس پی آر کے مطابق’’ پاک فوج نے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کے اصول کو برقرار رکھا ہے۔یہ عظیم قربانی ہمارے بہادر بیٹوں کے غیرمتزلزل عزم کی ایک اور شاندار شہادت کے طور پر سامنے آئی ہے، جنہوں نے اپنی مادر وطن کے دفاع کے لیے حتمی قربانی دینے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔‘‘صدر آصف علی زرداری ،وزیر اعظم شہباز شریف اور عسکری قیادت نے جشہید جوانوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ سابق قبائلی علاقے (فاٹا) میں شمالی وزیرستان ایجنسی القاعدہ، افغان اور پاکستانی طالبان عسکریت پسندوں اور متعدد علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہ کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔ اس علاقے سے کئی دہشت گردانہ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play