پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے کے درمیان تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے لئے مذاکرات میں دیگر امور کے ساتھ نجکاری کی شرط پر عمل درآمد تیز کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔رپورٹس کے مطابق وفاق نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری پر مثبت انداز میں کام جاری ہے۔اس وقت فنانشل اور رئیل سٹیٹ سے متعلق چار چار ادارے نجکاری کے لئے منتخب پچیس اداروں میں شامل ہیں۔ پاکستان میں پرائیویٹائزیشن ایک اہم معاشی اصلاحاتی پالیسی ٹول ہے، جو ترقی میں اضافہ اور ساختی خرابیوں کو ختم کرنے ، رکاوٹوں کو ہٹانے اور معیشت کو مسابقت کے لیے کھولنے کے لیے زیر غورہے۔ نجکاری پروگرام حکومت پاکستان کے معاشی اور ساختی اصلاحات کے ایجنڈے کا حصہ ہے جو ڈی ریگولیشن اور گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کو ترقی کے انجن کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا چاہتا ہے۔ یہ نجی شعبے کے کردار کو بڑھانے کے لیے ایک مربوط لائحہ عمل اختیار کرتا ہے ۔نجکاری کا عمل نجی شعبے کو عوامی اثاثوں کی منتقلی سے آگے بڑھتا ہے۔یہ لائحہ عمل ضابطے، گڈ گورننس، مارکیٹ میں مسابقت کو فروغ دینے والے حالات میں روابط اور کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے نجی شعبے کے لیے مراعات فراہم کرتا ہے ۔یہ حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ سامان کی فراہمی اور خدمات کی ادائیگی کو مؤثر طریقے سے انجام دینے پر سرمایہ کاری کریں۔پاکستان نے 1960 کی دہائی میں ڈی ریگولیشن اور ڈی کنٹرول کا ایک اہم پروگرام شروع کیا تھا، جب اس طرح کی پالیسیاں زیادہ تر ترقی پذیر دنیا میں نہ تو فیشن تھیں اور نہ ہی عام تھیں۔ صنعتی سرمایہ کاری کی پالیسی کے اعلان کے بعد صنعتی شعبے کو جزوی طور پر ڈی ریگولیٹ کردیا گیا۔اکنامک ریفارمز آرڈر 1972 کے اعلان کے بعد حکومت نے پبلک سیکٹر کے 32 صنعتی یونٹس سے دس بنیادی شعبوں یعنی لوہا اور سٹیل، بنیادی دھاتیں، ہیوی انجینئرنگ، ہیوی الیکٹریکل مشینری، موٹر گاڑیوں کی اسمبلی اور تیاری، ٹریکٹر کی اسمبلی اور تیاری، بھاری اور بنیادی کیمیکلز، پیٹرو کیمیکل، سیمنٹ اور عوامی سہولیات بشمول تیل، گیس اور بجلی کو قومیا لیا۔ ستمبر، 1973 میں مزید 26 صنعتی یونٹس کو قومیا لیا گیاجو سبزیوں کا تیل، لائف انشورنس، شپنگ اور پیٹرولیم بنانے والی کمپنیون سے متعلق تھے۔ اس کے بعد کپاس اور چاول کی برآمدی تجارت شروع ہوئی۔ 1974 میں بینکوں کو قومیا لیا گیا۔ قومیانے کا عمل بعد میں 3000 فلور ملز، چاول کی بھوسی اور کپاس پیسنے والی صنعتوں تک بڑھا دیا گیا۔ صرف ٹیکسٹائل اور شوگر سیکٹر نجی شعبے کے پاس رہے۔ پاکستان سٹیل ملز ، پی آئی اے، بجلی کمپنیاں،پبلک ٹرانسپورٹ سمیت ایسے کئی ادارے سالانہ اربوں روپے خسارہ دے رہے ہیں۔ایک ایسا ملک جہاں معاشی بحالی کا ایجنڈہ زیر بحث ہے وہاں خسارے والے سرکاری اداروں کا مستقبل طے کرنا اشد ضروری ہو چکا ہے۔ماضی میں عدالتی مداخلت، ٹریڈ یونینوں کی رکاوٹ اور انتظامی نیم دلی کی وجہ سے نجکاری کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔نجکاری پروگرام اب بھی بڑے تنازعات کو نشان زد کرتا ہے۔عوامی حلقوں میںجہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سول سوسائٹی پر اس کا زیادہ منفی اثر پڑتا ہے وہاںعام سول سوسائٹی میں اس سے انتہائی متنازعہ مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ عوام کے درمیان منفی جذبات کو بڑھا رہا ہے، جس میں کئی پرائیویٹائزڈ اداروں میں عوامی پیسے کا مسلسل استعمال اور خدمات میں توقع سے کم بہتری جیسے عناصر شامل ہے۔ دوسری طرف نجکاری پروگرام نے بے روزگاری میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے، جس سے مزدور طبقے کی بنیادی ضروریات تک رسائی کم ہوئی ہے۔بوجوہ یہ درست ثابت ہوا ہے کہ نجکاری نے محنت کش طبقے کی سماجی حیثیت کو گرا کر غریب سے غریب تر کرنے میں کردار ادا کیا ہے لیکن دوسری طرف نجکاری پروگرام کی ایک قابل ذکر حمایت موجود ہے۔ نجکاری پروگرام میکرو اکنامکس کے مقابلے میں زیادہ مائیکرو اکنامک کارکردگی حاصل کرنے کے لیے، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں دونوں میں ایک کلیدی "ساختی اصلاحات کا جزو" پروگرام رہا ہے۔اس سے مجموعی طور پر جی ڈی پی کی شرح آسانی سے بڑھتی ہے۔پاکستان کی بڑی اور سب سے زیادہ منافع بخش صنعتوں یعنی پاکستان ریلویز (PR) کی نجکاری کے لیے بڑی تجاویز پیش کی گئیں جہاں دلیل دی گئی کہ قومی ریلوے کی حالت حکومتی ملکیت میں بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور صرف نجکاری پروگرام ہی اسے بچا سکتا ہے۔ ریلوے میں مسابقت کا احساس پیدا ہو گا جس سے بہتری آئے گی۔جب بھی یہ بات ہوئی مزدور تنظیمیں سڑکوں پر آ گئیں۔ 2005 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ (PTCL) کی نجکاری کے وقت ورکرز یونینز ایکشن کمیٹی کے ذریعے اسلام آباد میں بڑے مظاہرے اور کارکنان کی بغاوت ہوئی۔ مظاہروں کے باوجود شوکت عزیز نے ریاستی کارپوریشن کی نجکاری کی جس کے نتیجے میں مزدور اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔2012 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے ایک ناکام کوشش کی گئی جب حکومت نے میگا سٹیٹ کارپوریشنز خصوصاً پاور سیکٹر کی نجکاری کی کوشش کی۔ واپڈا، IESCO، TESCO، PEPCO جیسی بڑی قومی صنعتوں کو وزارت خزانہ نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی تجویز دی تھی۔ نجکاری پاکستانی معیشت کو آگے بڑھانے، نئی سرمائی کاری لانے اور مزدوروں کے لئے متبادل انتظامات کا باعث بن سکتی ہے لیکن اس کے لئے ایک ممل حمکت عملی درکار ہے۔نجکاری کو صرف خصارہ کم کرنے کی نیت سے انجام دیا گیا تو یہ عمل نئی شکایات اور خرابیوں کو جنم دے گا اس لئے ایک مکمل پیکج ترتیب دیا جائے جس میں کارکنوں کے مفادات کا بھی خیال رکھا جائے۔
QOSHE - نجکاری کی نقص سے پاک منصوبہ بندی - اداریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

نجکاری کی نقص سے پاک منصوبہ بندی

18 0
20.03.2024




پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے کے درمیان تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے لئے مذاکرات میں دیگر امور کے ساتھ نجکاری کی شرط پر عمل درآمد تیز کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔رپورٹس کے مطابق وفاق نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری پر مثبت انداز میں کام جاری ہے۔اس وقت فنانشل اور رئیل سٹیٹ سے متعلق چار چار ادارے نجکاری کے لئے منتخب پچیس اداروں میں شامل ہیں۔ پاکستان میں پرائیویٹائزیشن ایک اہم معاشی اصلاحاتی پالیسی ٹول ہے، جو ترقی میں اضافہ اور ساختی خرابیوں کو ختم کرنے ، رکاوٹوں کو ہٹانے اور معیشت کو مسابقت کے لیے کھولنے کے لیے زیر غورہے۔ نجکاری پروگرام حکومت پاکستان کے معاشی اور ساختی اصلاحات کے ایجنڈے کا حصہ ہے جو ڈی ریگولیشن اور گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کو ترقی کے انجن کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا چاہتا ہے۔ یہ نجی شعبے کے کردار کو بڑھانے کے لیے ایک مربوط لائحہ عمل اختیار کرتا ہے ۔نجکاری کا عمل نجی شعبے کو عوامی اثاثوں کی منتقلی سے آگے بڑھتا ہے۔یہ لائحہ عمل ضابطے، گڈ گورننس، مارکیٹ میں مسابقت کو فروغ دینے والے حالات میں روابط اور کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے نجی شعبے کے لیے مراعات فراہم کرتا ہے ۔یہ حوصلہ افزائی کرتا........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play