پاکستانی سکیورٹی فورسز نے سرحد سے ملحقہ افغان علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا ہے۔آئی ایس پی آر کی جاری تفصیلات کے مطابق ضلع کرم میں افغان فورسز نے گولہ باری کی اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں تین سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ۔دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فضائی کارروائی خفیہ اطلاع پر کی گئی۔حافظ گل بہادر گروپ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے معدد ٹھکانے تباہ کر دئے گئے ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں چھپے دہشت گرد پاکستان کی سلامتی کے لئے شدید خطرہ ہیں۔تازہ ترین حملہ 16 مارچ کو شمالی وزیرستان میں میر علی کی سکیورٹی چیک پوسٹ پر کیا گیا، جس میں دو افسران سمیت سات پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی نے کچھ عرصہ قبل اپنے حملوں کے اعداد و شمار جاری کیے تھے جن میں بتایا گیا کہ تنظیم نے پاکستان میں گزشتہ سال صرف دسمبر میں 60 سے زیادہ حملے کیے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی ایک رپورٹ میں ملکی سکیورٹی صورتِ حال کو 2014 کے برابر پر خطر قرار دیاگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں خود کش حملوں کی شرح میں 93 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔غیر سرکاری تنظیم ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق گزشتہ ایک سال میں پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی نے 835 حملے کیے جبکہ اس سے پہلے سن 2022 میں ان حملوں کی تعداد 425 تھی۔ یہ تمام حملے تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کے خاتمے کے ایک سال کے دوران کیے گئے۔ان حملوں کے دوران 2022 میں 229 عام شہری، 379 سکیورٹی فورسز کے اہلکار جبکہ 363 عسکریت پسند مارے گئے۔ 2023 میں 350 عام شہری، 485 سکیورٹی اہلکار اور 507 عسکریت پسند مارے گئے ۔نئے سال کے آغاز کے بعد اگرچہ حملوں کا سلسلہ کم ہوا لیکن یہ رکے نہیں۔بلاشبہ پاکستان نے اپنے مغربی ہمسائے کی خاطر بڑی قربانی دی ہے۔ افغانستان کے ساتھ تاریخی و مذہبی تعلقات ہیں ۔اب پاکستان ان تعلقات کو دو طرفہ اقتصادی فوائد کی صورت میں بحال رکھنا چاہتا ہے ۔دہشت گرد اس مقصد میں رکاوٹ ہیں۔ وہ دونوں ملکوں کو بد امنی کا شکار بنا رہے ہیں۔ پاکستان دو برس سے افغانستان میں دہشتگرد تنظیم ٹی ٹی پی کی موجودگی سے متعلق مسلسل عبوری حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتا رہا ہے۔ یہ دہشتگرد پاکستان کی سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور یہ تسلسل سے پاکستان میں اپنی دہشتگرد کارروائیوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان افغانستان کی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ مذاکرات اور تعاون کو ترجیح دیتا ہے۔پاکستان نے بار بار افغان حکام سے یہ مطالبہ کیا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو اور وہاں دہشتگرد اپنے پیر نہ جما سکیں لیکن اپنی ناکافی استعداد، نظریاتی ہم آہنگی یا داخلی خانہ جنگی کے خدشے سے افغان طالبان ٹی ٹی پی کو روکنے میں ناکام رہے۔ پاکستان کی فضائی کارروائی پر افغان طالبان نے رد عمل دیا ہے ۔افغان طالبان کے مطابق پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی ہے جس میں متعدد افرادہلاک ہوئے ہیں۔دوسری جانب افغانستان کی وزارتِ دفاع نے ایک علیحدہ بیان میں یہ کہا کہ ’اس جارحیت کے جواب میں‘ افغانستان کی سرحدی فورسز نے سرحد پار پاکستانی فوج کے مراکز کو نشانہ بنایا۔افغان حکام کے اس رد عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کی شکایات دور کرنے سے زیادہ اب بھی صورتحال کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لئے عشروں تک مدد دی۔پچاس لاکھ سے زائد افغانوں کو جنگ کے دوران پناہ دی،انہیں سوویت یونیں کے خلاف لڑنے کے لئے تعاون فراہم کیا۔حتیٰ کہ افگانستان سے امریکی انخلا کے لئے پاکستان کی مدد و تعاون کلیدی رہا ۔اس کے برعکس افغان شہریوں کا پاکستان کے متعلق اشتعال انگیز رویہ، کرکٹ کے میدان میں نا شائستہ حرکات، سرحدی خلاف ورزیاں اور پاکستان کے دشمن ملکوں کے ساتھ تعلقات کی استواری ناقابل فہم رہی۔ پاکستان متعدد بار افغان طالبان سے کہہ چکا ہے کہ انھوں نے دوحہ مذاکرات کے دوران امریکہ سے وعدہ کیا تھاکہ وہ اپنی سرزمین دہشتگردوں کو استعمال نہیں کرنے دیں گے ،وہ نبھائیں۔افگان طالبان اپنے ہاں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے جس سے پاکستان میں دہشتگردی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کی طرف سے سرجیکل سٹرائیک کرنا ضروری تھی۔آئندہ ایسا نہ ہو اس کے لئے لازم ہے کہ افغانستان پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرے اور ان کی پناہ گاہیں تباہ کرنا ہوں گی تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہوسکے۔یہ امید افزا امر ہے کہ پاکستان اور طالبان حکومت اس سلسلے میں ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں تاکہمذاکرات کے ذریعے مسئلے کا دیرپا حل نکل سکے۔ افغان سرحدی فورسز کی اشتعال انگیزی یا دہشت گردوں کی وجہ سے پاکستان نے گزشتہ چند ماہ کے دوران متعدد بار دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور آمدورفت کے لیے قائم بڑے کراسنگ پوائنٹس بند کئے ۔ پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال بدتر ہوئی ہے اور تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔یہ صورتحال دونوں ملکوں کی اعلی سطحی مشاورت کا تقاضا کرتی ہے بصورت دیگر مزید آپریشن کا امکان باقی رہے گا۔
QOSHE - پاکستان کا افغانستان میں سکیورٹی آپریشن - اداریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پاکستان کا افغانستان میں سکیورٹی آپریشن

31 0
21.03.2024




پاکستانی سکیورٹی فورسز نے سرحد سے ملحقہ افغان علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا ہے۔آئی ایس پی آر کی جاری تفصیلات کے مطابق ضلع کرم میں افغان فورسز نے گولہ باری کی اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں تین سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ۔دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فضائی کارروائی خفیہ اطلاع پر کی گئی۔حافظ گل بہادر گروپ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے معدد ٹھکانے تباہ کر دئے گئے ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں چھپے دہشت گرد پاکستان کی سلامتی کے لئے شدید خطرہ ہیں۔تازہ ترین حملہ 16 مارچ کو شمالی وزیرستان میں میر علی کی سکیورٹی چیک پوسٹ پر کیا گیا، جس میں دو افسران سمیت سات پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی نے کچھ عرصہ قبل اپنے حملوں کے اعداد و شمار جاری کیے تھے جن میں بتایا گیا کہ تنظیم نے پاکستان میں گزشتہ سال صرف دسمبر میں 60 سے زیادہ حملے کیے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی ایک رپورٹ میں ملکی سکیورٹی صورتِ حال کو 2014 کے برابر پر خطر قرار دیاگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں خود کش حملوں کی شرح میں 93 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔غیر سرکاری تنظیم ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق گزشتہ ایک سال میں پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی نے 835........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play