پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف سٹاف کے جائزہ مذاکرات تسلی بخش قرار پانے کے بعد سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط کی فراہمی کا معاہدہ طے پا گیا ہے، جو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔امریکہ کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ تازہ معاہدے کی حمایت کی گئی ہے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے باہمی دلچسپی کے شعبوں میں اقتصادی تعاون میں مزید اضافے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔نئے معاہدے کے بعد پاکستان کو 828 ملین (تقریباً 1.1 ارب ڈالر) کے فنڈز تک رسائی حاصل ہو گی۔یہ معاہدہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور حکومت کی طرف سے حالیہ مہینوں میں سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ملک کو پائیدار بحالی کی طرف لے جانے کے لیے جاری پالیسی اور اصلاحات کی کوششوں کی کڑی ہے۔آئی ایم ایف حکام کے مطابق عالمی ادارے کی ٹیم نے پاکستان کے استحکام پروگرام کے دوسرے اور آخری جائزے پر عملے کی سطح پر معاہدہ کیا ہے جو کہ جنوری 2024 میں منظور شدہ IMF کے 3 ارب ڈالر معاہدے کا حصہ ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پہلے جائزے کے بعد کے مہینوں میں پاکستان کی معاشی اور مالی حالت میں بہتری آئی ہے، حکمت عملی کے انتظام اور کثیر جہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے رقوم کیفراہمی سے ترقی اور اعتماد کی بحالی جاری ہے۔ تاہم عالمی ادارے نے خدشہ طاہر کیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی شرح نمو کم اورمعمولی رہنے کی توقع ہے جبکہ افراط زر متعین کردہ ہدف سے کافی زیادہ رہنے کا خدشہ ہے، بلند خارجی اور داخلی مالیاتی ضروریات اور ایک ہی جیسے بیرونی ماحول کی وجہ سے درپیش چیلنج قابل توجہ رہیں گے ۔اس دوران پاکستان کو اقتصادی کمزوریوں سے نمٹنے کے لیے موثر پالیسی اور اصلاحاتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ نواز حکومت بنا چکی ہے ۔ عوام کو ریلیف فراہم کرنے اور آئی ایم ایف کی شرائط کی تکمیل کے محاز پر نئی حکموت کو بیک وقت کارکردگی دکھانے کا چیلنج درپیش ہے۔وزیر اعظم نے معاشی بحالی کے امور کو فوری اہمیت دی ہے ، نئی حکومت ان پالیسی کوششوں کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے جو موجودہ ایس بی اے کے تحت اس سال کے باقی ماندہ عرصے میں معاشی اور مالی استحکام کو قائم کرنے کے لیے شروع کی گئی ہیں۔ خاص طور پرحکومتمالی سال 24 کے بنیادی توازن کا ہدف 401 ارب روپے (جی ڈی پی کا 0.4 فیصد) فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے، ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے مزید کوششوں کے لئے پر عزم ہے،حکومت نے بجلی اور گیس کے نرخوں میں ایڈجسٹمنٹ کے بروقت نفاذ کا وعدہ کیا ہے۔اس طرح کے وعدوں کے اثرات اگلے چند روز میں سرکاری فیصلوں کی شکل میں دیکھے جا سکیں گے۔ موجودہ پروگریسو ٹیرف ڈھانچے کے ذریعے مالی طور پر کمزور طبقات کا تحفظ کرتے ہوئے لاگت کی وصولی کے ساتھ مطابقت رکھنے والے اوسط ٹیرف کا تعین کرنا ہو گا، اسی طرح مالی سال 24 میں کسی بھی خالص سرکلر ڈیٹ میں اضافے سے بچنا ہو گا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان مہنگائی کو کم کرنے اور فارن ریزرو مارکیٹ کے آپریشنز میں شرح مبادلہ کی لچک اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک محتاط مانیٹری پالیسی کو برقرار رکھنے کے لیے کردار ادا کر سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی داخلی اور بیرونی مالیاتی کمزوریوں کو مستقل طور پر حل کرنے، اس کی اقتصادی بحالی کو تقویت دینے اور مضبوط، پائیدار، اور جامع ترقی کی بنیادیں رکھنے کے مقصد کے ساتھ ایک وسط مدتی فنڈ پروگرام میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔توقع کی جارہی ہے کہ نئے قرض پروگرام پر بات چیت آنے والے مہینوں میں شروع ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف آئندہ قرض پراگرام میں جن امور کو اہمیت دے رہا ہے ان میں سرکاری مالیات کو مضبوط کرنا، بشمول بتدریج مالیاتی استحکام اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا شامل ہے۔،زید یہ کہ ٹیکس انتظامیہ کو بہتر بنانااور کمزور طبقات کے مفادات کی حفاظت کے لیے ترقی اور سماجی امداد کے اخراجات میں گنجائش پیدا کرنا دوسرا یہ کہ لاگت میں کمی لانے والی اصلاحات کو تیز کر کے توانائی کے شعبے کی عملداری کو بحال کرنا ، بجلی کی ترسیل اور تقسیم کو بہتر بنانا، کیپٹیو پاور ڈیمانڈ کو بجلی کے گرڈ میں منتقل کرنا، ڈسٹری بیوشن کمپنی گورننس اور انتظام کو مضبوط بنانا اور بجلی چوری کے خلاف موثر کوششیں شروع کرنا۔ اگلے پروگرام میں بیرونی ادائیگیوں کے توازن اور غیر ملکی ذخائر کی تعمیر نو کرنے والی زیادہ شفاف لچکدار فارن ایکچینج مارکیٹ بحال کرنا، ہدف کے مطابق افراط زر کی شرح کو رکھنا۔عالمی ادارہ اس امر مین بھی دلچسپی رکھتا ہے کہ مذکورہ بالا اقدامات کے ذریعے نجیشعبے کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے، نجی سیکٹر کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کو آگے بڑھانا، انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری کو بڑھانا تاکہ ترقی کو مزید نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔ عالمی ادارہ سمجھتا ہے کہ قرض اسی وقت پاکستان کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے جب گورننس کا نطام درست ہو اور معاشی حوالے سے اہمیت رکھنے والے شعبوں میں اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔قرض کی نئی قسط اب پاکستان کے سنگین ہوتے مالیاتی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ، اگلی بار حکومت بھاری قرض لینے کا اردہ رکھتی ہے جس کے لئے اسے امریکہ کے اثر و رسوخ کی ضرورت پڑے گی۔آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ، گورننس کے مسائل اور امریکہ سے تعاون مل کر معاشی و سیاسی حالات کی صورتگری کرتے ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ پاکستان اس صورتحال کو پورا ادراک کر کے معاشی استحکام کی طرف بڑھے گا۔
QOSHE - آئی ایم ایف سے معاہدہ اور اس کے بعد کے ممکنات - اداریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

آئی ایم ایف سے معاہدہ اور اس کے بعد کے ممکنات

23 0
22.03.2024




پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف سٹاف کے جائزہ مذاکرات تسلی بخش قرار پانے کے بعد سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط کی فراہمی کا معاہدہ طے پا گیا ہے، جو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔امریکہ کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ تازہ معاہدے کی حمایت کی گئی ہے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے باہمی دلچسپی کے شعبوں میں اقتصادی تعاون میں مزید اضافے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔نئے معاہدے کے بعد پاکستان کو 828 ملین (تقریباً 1.1 ارب ڈالر) کے فنڈز تک رسائی حاصل ہو گی۔یہ معاہدہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور حکومت کی طرف سے حالیہ مہینوں میں سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ملک کو پائیدار بحالی کی طرف لے جانے کے لیے جاری پالیسی اور اصلاحات کی کوششوں کی کڑی ہے۔آئی ایم ایف حکام کے مطابق عالمی ادارے کی ٹیم نے پاکستان کے استحکام پروگرام کے دوسرے اور آخری جائزے پر عملے کی سطح پر معاہدہ کیا ہے جو کہ جنوری 2024 میں منظور شدہ IMF کے 3 ارب ڈالر معاہدے کا حصہ ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پہلے جائزے کے بعد کے مہینوں میں پاکستان کی معاشی اور مالی حالت میں بہتری آئی ہے، حکمت عملی کے انتظام اور کثیر جہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے رقوم کیفراہمی سے ترقی اور اعتماد کی........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play