وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی پوری کابینہ نے سرکاری خزانے سے تنخوا و مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ کے اراکین نے تنخواہیں و مراعات نہ لینے کا فیصلہ حکومتی سطح پر جاری کفایت شعاری مہم کو تقویت دینے کے لئے کیا ہے۔یہ تنخواہیں اور مراعات سالانہ اربون روپے پر محیط ہیں۔وزیر اعظم اور کابینہ کے اراکین کی طرف سے ان واجبات سے رضا کارانہ دستبرداری ملک کو لاحق مالیاتی مشکلات میں احساس ذمہ داری کے مترادف ہے۔یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ کابینہ قومی وسائل کو ذاتی استعمال میں لانے کے معاملے پر بھی حساسیت دکھائے گی۔پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے۔رواں برس بیس ارب ڈالر کے قریب رقم بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر اٹھے گی۔عام آدمی پر پچھلے تین سال کے دوران ناقابل برداشت مالی بوجھ پڑا ہے۔بجلی ، گیس اور پانی کے بلوں کی ادائیگی محال ہو گئی ہے۔اس حالت میں عوامی سطح پر سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے بالائی طبقات کے نمائندے عام آدمی کی طرح قومی بوجھ کیوں نہیں بانٹ رہے؟وفاقی کابینہ کے فیصلے سے مکمل نہ سہی کسی حد تک یہ عوامی گلہ رفع ہو سکے گا۔وفاقی کابینہ سے قبل صدر مملکت آصف علی زرداری نے ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کی وجہ سے اپنی تنخوا اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ جمہوری نظام کو افلاس زدہ اور غریب رہاستوں کی معیشت پر بوجھ قرار دیا جاتا رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کو جماعتی مفادات کی بھاری قیمت ادا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ جمہوریت ایک مہنگا معاملہ ہے کیونکہ وقتاً فوقتاً انتخابات کا انعقاد، وفاقی اور صوبائی سطحوں پر منتخب اداروں اور منتخب مقامی حکومتوں کو برقرار رکھنا ایک سرمایہ دارانہ مشق ہے لیکن یہ تمام اخراجاتاس لئے قابل قبول رہے ہیں کہ یہ نظام عوامی شرکت سے کام کرتا ہے۔یہ نظام قابل قدر ہیاگر جمہوری اداروں کا انتخاب اور حقیقی جمہوری روح کے ساتھ چلایا جائے جس میں دیانتداری اور کارکردگی کے معقول معیارات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہوری نظام یقینی طور پر لاگت اور فائدہ کے موافق تناسب کے ساتھ ایک اچھی تجویز ہے لیکن جب جمہوری اصولوں کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے تو نظام ناقابل برداشت ہونے لگتا ہے۔پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو پورے جمہوری نظام میں نچلے طبقات کو نمائندگی نہیں دی گئی۔صوبوں اور وفاق میں قائم حکومتوں میں مراعات یافتہ خاندانوں کے لوگ بیٹھے ہیں۔عام آدمی بلدیاتی نطام سے با اختیار ہوتا ہے لیکن پورے ملک میں یہ نظام غیر فعال ہے۔ جمہوریت اور معیشت کے تعلق پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی، سینیٹ، پنجاب، سندھ، کے پی اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے رواں سال (2022-23) کا مختص بجٹ بالترتیب 47 ملین روپے، 34 ملین روپے، 37 ملین روپے، 29 ملین روپے، 18 ملین روپے اور 23 ملین روپے یومیہ ہے۔ یہ خراجات کم از کم اجلاسوںکے دنوں کی بنیاد پر رکھے گئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک دن کا نقصان یا ایجنڈے کو نہ نمٹانے سے ٹیکس دہندگان کو کتنا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔عام اور ضمنی انتخابات پر قومی اسمبلی کے حلقے میں تقریباً 80 سے 90 ملین روپے خرچ ہوتے ہیں۔ بھاری اخراجات اٹھانے کے باوجود، گزشتہ آٹھ انتخابات میں 45 فیصد اوسط ووٹر ٹرن آؤٹ دنیا میں سب سے کم ہے جس میں عالمی اوسط تقریباً 66 فیصد ہے۔آئین پاکستان ایک امیدوار کے لئے حلقوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں لگاتا ۔ مثال کے طور پر عمران خان نے 2018 کے عام انتخابات کے دوران قومی اسمبلی کے پانچ حلقوں سے کامیابی حاصل کی اور ایک نشست کے علاوہ باقی تمام نشستیں خالی کر دیں، جس کا مطلب تھا کہ سرکاری خزانے سے اضافی اخراجات کے ساتھ چار حلقوں میں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔حالیہ عام انتخابات کے دوران ایک سے زائد حلقوں یا ایوانوں سے منتخب اراکین کی نشستیں چھوڑنے سے انتیس کے قریب حلقوں میں ضمنی انتخابات کرانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ وطن عزیز میں کئی سیاسی روایات قانونی نظر چانی چاہتی ہیں ۔ایک بار جب لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ وہ صرف خاص طبقات یا خاندانوں کے مرد و خواتین کو پارلیمنٹ میں بھیج کر اپنے کام نکلوا سکتے ہیں تو ووٹر ان خاندانوں کی ہر خواہش کو پورا کریں گے۔ تب جمہوریت زیادہ سے زیادہ مہنگی ہوتی جائے گی۔پاکستان میں ٹیکس محاصل لازمی طور پر بڑھنا چاہئیں لیکن ان میں دولت مند طبقات کا حصہ بڑھائے بنا قابل ذکر اضافہ نہیں ہو سکتا، کوئی بھی چیز جو ٹیکسوں میں اضافے کا سبب بنتی ہے وہ معیشتوں کو ناکام بناتی ہے۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہر حکومت چونکہ عوام میں گہری حمایت سے محروم ہوتی ہے اس لئے وہ غیر مقبول فیصلے نہیں کر پاتی ۔ اس لیے ملک قرضوں میں مزید دھنستا چلا جاتا ہے، قرضے لے کر آنے والے اپنے سیاسی فائدے کو برقرار رکھنے کے لیے مزید قرض لیتے ہیں۔ پاکستان پر موجودہ قرضہ اب 120 ارب ڈالر ہو چکا ہے اور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔جلد ہی مہنگی جمہوریت اور وزیروں مشیروں کی مراعات پر اٹھنے والے اخراجات نا قابل برداشت ہو جائیں گے، بہتر ہو گا کہ حکومتی سطح پر بچت کی حکمت عملی کو مزید پھیلایا اور بہتر بنایا جائے ۔حکومتی ذمہ داران کی طرح افسر شاہی کی مراعات پر نظر چانی ہونی چاہئے۔عام لوگوں کو اقتدار میں شریک کیا جانا چاہئے اور ہر وہ اقدام اٹھایا جانا چاہئے جس سے شہریوں کا جمہوری نظام پر اعتماد بحال ہو۔
QOSHE - وفاقی کابینہ کی مراعات سے رضا کارانہ دستبرداری - اداریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

وفاقی کابینہ کی مراعات سے رضا کارانہ دستبرداری

16 0
23.03.2024




وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی پوری کابینہ نے سرکاری خزانے سے تنخوا و مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ کے اراکین نے تنخواہیں و مراعات نہ لینے کا فیصلہ حکومتی سطح پر جاری کفایت شعاری مہم کو تقویت دینے کے لئے کیا ہے۔یہ تنخواہیں اور مراعات سالانہ اربون روپے پر محیط ہیں۔وزیر اعظم اور کابینہ کے اراکین کی طرف سے ان واجبات سے رضا کارانہ دستبرداری ملک کو لاحق مالیاتی مشکلات میں احساس ذمہ داری کے مترادف ہے۔یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ کابینہ قومی وسائل کو ذاتی استعمال میں لانے کے معاملے پر بھی حساسیت دکھائے گی۔پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے۔رواں برس بیس ارب ڈالر کے قریب رقم بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر اٹھے گی۔عام آدمی پر پچھلے تین سال کے دوران ناقابل برداشت مالی بوجھ پڑا ہے۔بجلی ، گیس اور پانی کے بلوں کی ادائیگی محال ہو گئی ہے۔اس حالت میں عوامی سطح پر سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے بالائی طبقات کے نمائندے عام آدمی کی طرح قومی بوجھ کیوں نہیں بانٹ رہے؟وفاقی کابینہ کے فیصلے سے مکمل نہ سہی کسی حد تک یہ عوامی گلہ رفع ہو سکے گا۔وفاقی کابینہ سے قبل صدر مملکت آصف علی زرداری نے ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کی وجہ سے اپنی تنخوا اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play