خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی نے معاشی بحالی کے لئے کڑے فیصلوں کا بوجھ ان طبقات پر رکھنے پر اتفاق کیا ہے جو یہ اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں۔نئی حکومت تشکیل پانے کے بعد ایپکس کمیٹی کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف سے ایک مزید پروگرام لینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے سب قوتوں کا مل بیٹھنا ضروری ہے۔اجلاس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔پاکستان ایک مشکل معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے جس میں کم آمدن والے اور افلاس زدہ طبقات پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔چونکہ یہ طبقات پارلیمنٹ اور کسی با اختیار کمیٹی کا حصہ نہیں بن پاتے اس لئے ان کے مفادات کو ہر بار نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے شائد اسی امر کا ادراک کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں پر مزید ٹیکس لگانا بے فائدہ ہو گا۔وزیر خزانہ جانتے ہیں کہ ریاست پاکستان کو اپنے اخراجات کے لئے زیادہ رقم کی ضرورت ہے لیکن وہ درست طور پر اس کا حل پیداواری عمل ، سرمایہ کاری اور تجارت میں اضافے کی شکل میں دکھ رہے ہیں۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ عالمی معاشی عدم مساوات بلند ترین سطح پر ہے۔ اس وسیع سماجی رجحان کے مضر اثرات حیران کن ہیں۔ بڑھتی ہوئی عدم مساوات کا تعلق تمام ممالک، براعظموں اور ثقافتوں میں صحت اور فلاح و بہبود سے متعلق ناکافی سہولیات سے ہے۔دولت مند طبقات اور غریب طبقات میں عدم مساوات کو دوام بخشنے والی معاشی اور نفسیاتی قوتوں کا مطالعہ کرکے معاشرے اپنا معیار زندگی بلند کر رہے ہیں ۔پاکستان اس عمل میں اقتصادی عدم مساوات کے روزمرہ کے تجربات سے گزرتا ہے لیکن ان کے اثرات کو کسی پالیسی کا حصہ نہین بنایا جاسکا۔ ماہرین یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ سماجی طبقاتی معیار سماجی موازنہ کے عمل کو شروع کرتے ہیں جو معاشرے میں موجود گروپوں کی حدود کو مضبوط کرتے ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ معاشی عدم مساوات میں کمی کی راہ میں حائل رکاوٹیں براہ راست طبقاتی حدود کو بڑھانے اور عقائد و اجتماعی طرز عمل میں زوال کے ذریعے پیدا ہوتی ہیں ۔یہ معاشی جمود کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔ مارکسی اور کینیشین دونوں معیشتوں میں مروج ایک پرانا محاورہ ہے کہ قومی آمدنی کی غیر مساوی اورطبقاتی بنیاد پر تقسیم کھپت اور سرمایہ کاری کا تعین کرنے والا عنصر ہے۔ اشیائے ضروریہ کی خریداری پر کتنا خرچ کیا جاتا ہے اس کا انحصار محنت کش طبقے کی آمدنی پر ہے۔محنت کش اور کم آمدن والے افراد لازمی طور پر اپنی تمام آمدنی اس بوع کی خریداری یا یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی پر خرچ کرتے ہیں، بچت یا سرمایہ کاری کے لیے ان کے پاس کم رقم بچتی ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دار اپنی آمدنی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ذاتی استعمال کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ سرمایہ داروں اور ان کی کارپوریشنوں کی آمدنی کا بڑا حصہ سرمایہ کاری کے لیے وقف ہے۔ اس تقابل کے بعد دونوں طبقات کی آمدنی اور دولت میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات سے سرمایہ داری کا پرانا تضاد پیدا ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔اس تضاد کو معاشی بے چینی سے لے کر طبقاتی ٹکراو تک کا نام دیا جاتا ہے جس کے اثرات سماجی اور سیاسی سطح پر ضرور ابھرتے ہیں۔آج پاکستان کی حکمران اشرافیہ سے عوامی نفرت اور بیزاری اگر بڑھتی چلی جا رہی ہے تو اس کی وجہ ہر جگہ دونوں طبقات کے دوران وسائل اور اختیار کی تقسیم میں عدم مساوات ہے ۔ ایک طرف، صارفین کی قوت خرید میں کمی ان اشیا کی مارکیٹ کو کم کر دیتی ہے۔ دوسری طرف، منافع بخش سرمایہ کاری کے مواقع ضائع ہونے لگتے ہیں۔ہمسائیہ ملک بھارت نے اپنے لوگوں کی قوت خرید بڑھائی جس سے بین الاقوامی برانڈز نے ادھر کا رخ کیا۔کوئی سوچنے سمجھنے ولا ہو تو کنزیومر مارکیٹ کو بھی عالمی سرمایہ کاری کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔ اچھی اقتصادی پالیسی متوسط طبقے کے حجمکو بڑھاتی ہے ، امیر اور متوسط طبقے کے درمیان فرق کو کم کرتی ہے۔ماہرین تجویز کرتے ہیںکہ پاکستان میں دولت کی تقسیم کا نظام از سر نو ترتیب دیا جائے ۔اس میں نچلے طبقات کے معاوضوں، ان کی پیداوار کی قیمتوں میں اضافے ،انہیں معاشی و سیاسی فیصلوں میں شریک کرکے اور ان کے لئے روزگار کی سہولیات فراہم کرنا شامل ہے۔دولت کی دوبارہ تقسیم آسان ہے۔دوبارہ تقسیم عام طور پر سب سے امیر پر ٹیکس لگا کر اور اسے کم امیروں میں تقسیم کر کے نقد یا فائدے کے پروگرام کے طور پر آگے بڑھاتی ہے۔ پبلک ایجوکیشن، انفراسٹرکچر اور ریسرچ جیسی کاروبادوست چیزوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے سے سب طبقات کو اچھا منافع ملتا ہے۔بہترین طریقے بیکار اثاثوں کو مسترد کرتے ہیں لہٰذا نقد ، وراثت، رئیل اسٹیٹ یا دیگر جامد ہولڈنگز پر پہلے ٹیکس لگایا جائے۔ ملازمتوں اور پیداوار سے منسلک فعال سرمایہ کاری پر کم ٹیکس لگے۔ایک مثال یہ ہے کہ پاکستان میں پراپرٹی ٹیکس لایا گیا، جہاں پہلے کوئی وجود نہیں تھا، تاکہ نچلے اور متوسط طبقے کو زمین کو ہمیشہ کے لیے رکھنے اور اسے شاہی خاندان کی طرح بچوں کے حوالے کرنے سے روکا جائے۔ اس کا لفظی مقصد اس خیال کے خلاف لڑنا تھا کہ ہر فرد کا گھر ان کا محل ہے۔ ٹیکسوں کا جبر آہستہ آہستہ دولت مندوں کے علاوہ سب کے ہاتھ سے زمین چھین لیتا ہے۔کراس جنریشن ہولڈنگز پر ایک ہی قسم کا ٹیکس زیادہ آسان شکلوں میں بنایا جا سکتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل میں وزیر اعظم اور آرمی چیف و صوبوں کے سربراہوں کے ساتھ متعدد مالیاتی و معاشی ماہرین تشریف رکھتے ہیں،ان ماہرین کو سابق تجربات سے سبق سیکھنا چاہئے کہ اس بار دولت مند اشرافیہ پر معاشی بحالی کا بوجھ منتقل کیا جائے ۔
QOSHE - معاشی بحالی: بوجھ دولت مند اشرافیہ پر ڈالا جائے - اداریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

معاشی بحالی: بوجھ دولت مند اشرافیہ پر ڈالا جائے

14 0
24.03.2024




خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی نے معاشی بحالی کے لئے کڑے فیصلوں کا بوجھ ان طبقات پر رکھنے پر اتفاق کیا ہے جو یہ اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں۔نئی حکومت تشکیل پانے کے بعد ایپکس کمیٹی کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف سے ایک مزید پروگرام لینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے سب قوتوں کا مل بیٹھنا ضروری ہے۔اجلاس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔پاکستان ایک مشکل معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے جس میں کم آمدن والے اور افلاس زدہ طبقات پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔چونکہ یہ طبقات پارلیمنٹ اور کسی با اختیار کمیٹی کا حصہ نہیں بن پاتے اس لئے ان کے مفادات کو ہر بار نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے شائد اسی امر کا ادراک کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں پر مزید ٹیکس لگانا بے فائدہ ہو گا۔وزیر خزانہ جانتے ہیں کہ ریاست پاکستان کو اپنے اخراجات کے لئے زیادہ رقم کی ضرورت ہے لیکن وہ درست طور پر اس کا حل پیداواری عمل ، سرمایہ کاری اور تجارت میں اضافے کی شکل میں دکھ رہے ہیں۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ عالمی معاشی عدم مساوات بلند ترین سطح پر ہے۔ اس وسیع سماجی رجحان کے مضر اثرات حیران کن ہیں۔ بڑھتی ہوئی عدم مساوات کا تعلق تمام ممالک، براعظموں اور........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play