وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے ریکوڈک منصوبہ بلوچستان اور علاقے کی ترقی کیلئے گیم چینجر ثابت ہو گا ، اس منصوبے سے صوبے کی ترقی اور لوگوں کی خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی میں سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ آبادی کم ہونے کے باوجود پسماندگی اور غربت میں خطرناک حد تک اضافہ کی وجہ سے بلوچ قوم میں تک احساس محرومی پایا جاتا ہے حالانکہ بلوچستان کو قدرت نے بیش بہا خزانوں سے نوازا ہے مگر قبائلی نظام اور مقامی سرداروں کی باہمی مخاصمت کی وجہ سے نہ صرف وفاق کی جانب سے صوبے کو مہیا کئے گئے وسائل مقامی سرداروں کی لوٹ کھسوٹ کی نذر ہو تے رہے بلکہ معدنی ذخائر سے استفادہ نہیں کیا جا سکا ۔ جس کی ایک مثال ریکو ڈک کے ذخائر ہیں جس کا شمار دنیا کے تانبے اور سونے کے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے ۔حکومت پاکستان نے 1993ء میں ریکوڈک کان میں سونے اور تانبے کی تلاش اور کان کنی کیلیے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ کے نام سے ایک معاہدہ کیا تھے۔ معاہدے کے مطابق آسٹریلوی مائننگ کمپنی کا اس منصوبے میں 75 فیصد جبکہ پاکستان کے پاس بقیہ 25 فیصد حصہ باہمی سرمایہ کاری کی بنیاد پر اور 2 فیصد رائلٹی کی بنیاد پر طے کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اپریل 2000 ء میں کمپنی نے اپنی ذمے داریاں ایک غیر معروف آسٹریلوی کمپنی مائنز ریسورسز کے حوالے کردیں، جسے ٹیتھیان کاپر کمپنی نے 2006ء میں حاصل کرلیا ۔ٹیتھیان کاپر کمپنی نے فروری 2011ء میں بلوچستان حکومت کو مائننگ لیز کی درخواست جمع کروائی،جسے نومبر میں بلوچستان حکومت نے مسترد کردیا ۔ 2013ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے معاہدے کو کالعدم قرار دیا اس طرح یہ معاملہ متنازعہ ہوتا گیا۔ ٹی سی سی کو ریکوڈک پروجیکٹ کیلیے کان کنی کی لیز سے انکار کرنے کے بعد بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل نے 12 جولائی 2019ء کو پاکستان پر 6 بلین کا جرمانہ عائد کردیا گیا۔ ٹربیونل نے پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ٹی سی سی کو 4 بلین ڈالر سے زائد سود بھی ادا کرے۔لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب بی ایچ پی نے اپنے حصص ٹی سی سی کے ہاتھ فروخت کردئیے اور پھر ٹی سی سی نے انہیں بیرک گولڈ اوراینٹو فگسٹا کو فروخت کردیا۔سوال یہ ہے کہ جب ریکوڈک پروجیکٹ بین الاقوامی شہرت یافتہ کمپنی بی ایچ پی بلیٹن نے ٹی سی سی کو منتقل کیا توپاکستانی حکمرانوں نے اسے مسترد کیوں نہیں کیا؟ اس کی وجہ 2000 ء میں اس وقت کی حکومت کی نااہلی اور ناقص کارکردگی ہے جس نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر نیا معاہدہ کرنے کی کوشش نہیں کی، بہر حال ٹربیونل کے حکم کیمطابق ادائیگی پاکستان کے لئے ممکن نہ تھی اس لئے معاہدے کی خلاف ورزی پر عمران خان نے بھی اپنے دور اقتدار میں ایک کمیشن تشکیل دیا کہ اس کی وجوہات کی تحقیقات کی جائیں کہ آخر پاکستان اس مشکل سے کیوں دوچار ہوا۔ اس کے بعد حکومت کی کوششوں کے بعد فریقین میں مفاہمت ہوئی جس کے مطابق اس پراجیکٹ کا 50 فیصد بیرک ، 25 فیصد وفاقی حکومتِ پاکستان کی تین سرکاری کمپنیز، 15فیصد بغیر کسی سرمایہ کاری کے حکومتِ بلوچستان کا حصہ ہے جس میں وفاقی حکومت سرمایہ کاری کرے گی اور 10 فیصد فری کیری بنیاد پر بلوچستان کی ملکیت ہو گا۔ ریکوڈک منصوبے کی تنظیمِ نو کا کام دسمبر 2022ء میں پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے جو کہ ریکوڈک کوایک بین الاقوامی معیار کا طویل المدتی منصوبہ بنانے کی طرف پہلا قدم ہے۔ بیرک اس وقت پراجیکٹ 2010ء کی فزیبلٹی رپورٹ اور 2011 ء کی پراجیکٹ میں توسیع کی فزیبلٹی رپورٹ کو اپڈیٹ کر رہا ہے جو کہ 2024 ء تک مکمل ہو جائیںگی۔ 2028 ء تک باقاعدہ کان کنی کے آغاز کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔یہ پراجیکٹ اپنی تعمیر کے عروج پہ متوقع طور پر تقریباً 7,500 افراد کو روزگار مہیا کرے گا اور پیداوار کے مرحلے کے آغاز میں 4,000 طویل المدتی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرے گا۔متوقع طور پر ،ریکوڈک کان کی عمر چالیس سال ہوگی، جس کی کان کنی روایتی اوپن پِٹ طریقہِ کار کے تحت کی جائے گی ۔بلا شبہ ریکوڈک منصوبہ نہ صرف پاکستان کی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا بلکہ پسماندہ صوبے بلوچستان میں ترقی کا نیا باب کھولے گا جس سے معاشی فوائد کے علاوہ روزگار کے مواقع پیدا ہو ں گے ، مقامی معیشت کو فروغ ملے گا اور سماجی بہبود کے پروگراموں میں سرمایہ کاری ہوگی۔ صوبائی شراکت داری کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا، جس کا مطلب ہے کہ بلوچستان کو کسی بھی قسم کی مالیاتی سرمایہ کاری کئے بغیر25 فیصد منافع کی شرح ، رائلٹی، ڈیوڈنڈ اور دیگر مراعات حاصل ہوں گی۔ بلوچستان حکومت ان وسائل کو صوبے کی ترقی پر خرچ کر کے اپنے عوام کو تعلیم صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ انفراسٹکچر کی تعمیر سے ترقی کی منازل طے کر سکتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت مکمل اعتماد کے ساتھ مل کر صوبے اور ملکی ترقی کے لئے کام کریں تاکہ بلوچستان کی معدنیات سے بھر پور استفادہ ممکن ہو سکے اور ریکوڈک منصوبہ بلا کسی تاخیر کے ٹائم فریم کے مطابق آگے بڑھ سکے کیونکہ ایسا کرنے سے ہی بیرک کے تانبہ نکالنے کے پورٹ فولیو میں نمایاں اضافہ اور پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو خاطر خواہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں ۔ اس سے پاکستان اور بلوچستان کی ترقی سے آنے والی نسلیں بھی مستفید ہوںگی ۔
QOSHE - ریکوڈک۔بلوچستان کی خوشحالی کا منصوبہ - اداریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ریکوڈک۔بلوچستان کی خوشحالی کا منصوبہ

14 0
25.03.2024




وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے ریکوڈک منصوبہ بلوچستان اور علاقے کی ترقی کیلئے گیم چینجر ثابت ہو گا ، اس منصوبے سے صوبے کی ترقی اور لوگوں کی خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی میں سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ آبادی کم ہونے کے باوجود پسماندگی اور غربت میں خطرناک حد تک اضافہ کی وجہ سے بلوچ قوم میں تک احساس محرومی پایا جاتا ہے حالانکہ بلوچستان کو قدرت نے بیش بہا خزانوں سے نوازا ہے مگر قبائلی نظام اور مقامی سرداروں کی باہمی مخاصمت کی وجہ سے نہ صرف وفاق کی جانب سے صوبے کو مہیا کئے گئے وسائل مقامی سرداروں کی لوٹ کھسوٹ کی نذر ہو تے رہے بلکہ معدنی ذخائر سے استفادہ نہیں کیا جا سکا ۔ جس کی ایک مثال ریکو ڈک کے ذخائر ہیں جس کا شمار دنیا کے تانبے اور سونے کے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے ۔حکومت پاکستان نے 1993ء میں ریکوڈک کان میں سونے اور تانبے کی تلاش اور کان کنی کیلیے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ کے نام سے ایک معاہدہ کیا تھے۔ معاہدے کے مطابق آسٹریلوی مائننگ کمپنی کا اس منصوبے میں 75 فیصد جبکہ پاکستان کے پاس بقیہ 25 فیصد حصہ باہمی سرمایہ کاری کی بنیاد پر اور 2 فیصد رائلٹی کی بنیاد پر طے کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اپریل........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play