کوئی کام ناممکن کبھی بھی نہیں ہوتا
آج میں ان بچوں‘ لڑکوں‘ لڑکیوں کی بات کرنا چاہتی ہوں جن کو علم حاصل کرنے کی بجائے مشقت اور محنت میں جھونک دیا جاتا ہے‘ بلاشبہ اس میں سب سے بڑے قصوروار ماں باپ ہیں‘ ماں باپ کہیں گے غربت ہے‘ غربت بول نہیں سکتی ورنہ ضرور کہتی‘ معاشرہ قصوروار ہے جو ایسے معصوم فرشتوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے اور پھر ان کے حال اور مستقبل سے جو سلوک کیا جاتا ہے وہ ناقابل تردید ہوتا ہے‘ آئیے ایک بچی کی کہانی آپ کو سناتی ہوں‘ میں ایک شادی کی تقریب میں تھی‘ کھانا لگ چکا تھا ‘ وہ امیر خاندان جو اس بچی کے آقا تھے اپنی اپنی پلیٹ میں کھانا لے کر مصروف ہو گئے‘ اب وہ معصوم بچی ان سب کےلئے ویٹر کے فرائض سرانجام دینے لگی‘ کسی کو سلاد چاہئے‘ کسی کو تھوڑے چاول اور چاہئے‘ کسی کو کوفتہ چاہئے اور کسی کو کولڈ ڈرنک کی بوتل چاہئے۔ بہرحال وہ کھانے کی وسیع و عریض میز کے بیچ میں فٹ بال بن چکی تھی جبکہ تمام بارات کھانا کھا رہی تھی۔ کیا اس بچی کو بھوک نہیں لگی ہوگی‘ کیا اتنا اچھا کھانا دیکھ کر اس کی خوشبو سونگھ کر اس کا دل کھانے کو نہیں چاہ رہا ہو گا‘ کسی کو کوئی پرواہ نہیں........
© Daily AAJ
visit website