خبر یہ ہے کہ افغا نستان کی امارت اسلا می دریا ئے چترال پر بندھ باندھ کر پا نی کارخ تبدیل کر نے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے منصو بے کا ابتدائی خا کہ تیار کیا گیا ہے جس کے مطا بق کو ناڑ (Kunar) ڈیم سے بنجر زمین بھی سیراب ہو گی‘ سستی بجلی بھی پیدا کی جا ئیگی‘ گویا مجوزہ ڈیم کثیرالمقاصد منصو بہ ہے‘ اس کے نتیجے میں پاکستان کا ورسک ڈیم متاثر ہو گا اور پشاور کی زرخیز مٹی نہری پا نی سے محروم ہو جا ئیگی یہ دونوں کوناڑ ڈیم کے نتا ئج اور اثرات ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ افغا نستان سفارتی محاذ پر کا میابی دکھا رہا ہے پا کستان نے کوئی سفارتی پیش بندی نہیںکی سفارتی زبان میں اس کو پرو ایکٹیو اپروچ (Proactive approach) کہا جا تا ہے بین لاقوامی دریاﺅں کا ایک قانون ہے کسی ایک ملک سے نکل کر دوسرے ملک میں داخل ہونے والے دریا پر دونوں مما لک کے برابر حقوق ہوتے ہیں ‘ایران اور افغانستان کے درمیاں دریاﺅں کا معاہدہ 1973ءمیں ہوا تھا اب تک اُس پر عمل ہورہا ہے پا کستان اور بھارت نے سندھ طاس معا ہدہ کیا ہے مگر بھارت مسلسل اس معا ہدے کی خلا ف ورزی کر تا ہے ‘ افغا نستان کے ساتھ 76سال میں بین الاقوامی دریا ﺅں کا طاس معاہدہ نہ ہونا اپنی جگہ ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیاں جو 9دریا مشترک ہیں ان دریاﺅں پر محقق اور دانشورڈاکٹر شکیل حیات نے قلم اٹھا یا ہے انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون نے اس موضوع پر تفصیلی فیچر سٹوری شائع کی ہے اگر خبروں کا پس منظر دیکھا جا ئے تو صاف نظر آتا ہے کہ امارت اسلا می افغا نستان نے شما لی افغا نستان کے لئے بڑا جا مع منصو بہ ترتیب دیا ہے تا جکستان سے ہو کر افغان سرزمین میں داخل ہونے والے دریا ئے آمو پر بندھ باندھ کر قاش ٹیپا کنال 285کلو میٹر لمبی نہر ہے اس پر 2022ءمیں کام شروع ہوا یہ نہر صو بہ بلخ کی السوالی کا لدار سے شروع ہوتی ہے ، اس کے بعد دوسرا منصو بہ کوناڑ ڈیم ہے دریا ئے چترال پا کستان کے شمال میں چیا نتر (Chiantar) گلیشیر سے شروع ہوتا ہے 410کلو میٹر جنوب میں جا کر اراندو کے مقام پر افغانستان کے صوبہ کوناڑ میں داخل ہوتا ہے جلال آباد کے مقام پر دریائے کا بل کے ساتھ جاملتا ہے اور مہمند میں آکر دوبارہ پا کستان میں داخل ہوتا ہے اور دریائے کا بل کہلاتا ہے اٹک کے قریب دریائے سندھ میں گرنے کے بعد یہ سندھ طاس کا حصہ بن جا تا ہے لیکن بھارت کے ساتھ سندھ طاس کا جو معا ہدہ ہوا اُس میں دریائے کا بل کونظر انداز کیا گیا اب افغان حکومت کی نئی کوشش نے اس دریا کو نقشے پر نما یا ں کیا ہے پا کستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے 3دریا ، گومل کرم اور چترال افغانستان میں سے ہو کر بہتے ہیں بلو چستان سے 6دریا پشین ، قندہار ، کند ، کدانائے ، عبد الوہاب اور قیصر کے نا موں سے پہچانے جا تے ہیںاور افغانستان میں داخل ہو تے ہیں بلو چ دانشور جا ن اچکزئی نے دریاﺅں پر ایک طرفہ قبضے کی افغانی کو شش کے خلا ف ذرائع ابلاغ میں زوردار احتجاج کیا ہے پا کستان کی حکومت یا سول سوسائٹی اس پر آواز اٹھا ئے تو اس کے لئے دو متبا دل تجا ویز ہیں پہلی تجویز یہ ہے کہ افغانستان کو بین لاقوامی اصولوں کے تحت پا نی کے معا ہدے پر اما دہ کر کے باقاعدہ معا ہدہ کیا جا ئے تا کہ دونوں مما لک اپنے اپنے حصے کا پا نی استعمال کریں ایسا ممکن نہ ہو ا تو پا کستان کوسرنگوں کی جدید ٹیکنا لو جی کے ذریعے اپنے دریا ﺅں کا رخ تبدیل کرنا پڑیگا اس صورت میں دریائے چترال ایک سرنگ سے گذر نے کے بعد دیر اور سوات سمیت ملا کنڈ اور نشیبی میدانوں کو سیراب کرے گا جبکہ 10ہزار میگا واٹ بجلی بھی پیدا ہو جائے گی ۔اس سلسلے میں پیشگی اقدامات اس لئے بھی ضروری ہوگئے ہیںکہ مستقبل میں عالمی سطح پر پانی کا بحران سنگین ہونے کا خدشہ ہے اس سلسلے میں بیرونی دنیا اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے ‘پاکستان کی قیادت کو بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے کردار اداکرنا ہوگا اس کے لئے پانی کے وافر ذخائر کا انتظام اور اس کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے ۔

QOSHE - سفارتی پیش بندی  - ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سفارتی پیش بندی 

20 0
14.01.2024

خبر یہ ہے کہ افغا نستان کی امارت اسلا می دریا ئے چترال پر بندھ باندھ کر پا نی کارخ تبدیل کر نے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے منصو بے کا ابتدائی خا کہ تیار کیا گیا ہے جس کے مطا بق کو ناڑ (Kunar) ڈیم سے بنجر زمین بھی سیراب ہو گی‘ سستی بجلی بھی پیدا کی جا ئیگی‘ گویا مجوزہ ڈیم کثیرالمقاصد منصو بہ ہے‘ اس کے نتیجے میں پاکستان کا ورسک ڈیم متاثر ہو گا اور پشاور کی زرخیز مٹی نہری پا نی سے محروم ہو جا ئیگی یہ دونوں کوناڑ ڈیم کے نتا ئج اور اثرات ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ افغا نستان سفارتی محاذ پر کا میابی دکھا رہا ہے پا کستان نے کوئی سفارتی پیش بندی نہیںکی سفارتی زبان میں اس کو پرو ایکٹیو اپروچ (Proactive approach) کہا جا تا ہے بین لاقوامی دریاﺅں کا ایک قانون ہے کسی ایک ملک سے نکل کر دوسرے ملک میں داخل ہونے والے دریا پر دونوں مما لک کے برابر حقوق ہوتے ہیں ‘ایران اور افغانستان کے درمیاں دریاﺅں کا معاہدہ 1973ءمیں ہوا تھا اب تک اُس پر عمل ہورہا ہے........

© Daily AAJ


Get it on Google Play