معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ریلوے میں اصلاح احوال کی ضرورت اجاگر کرتے ہوئے بتاتے ہیں‘ کوئٹہ سے چل کر لاہور پہنچ کر اب جب میں ہندوستان میں داخل ہونے والا ہوں‘ یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کو ریل گاڑیوں کا لاجواب اور بے مثال نیٹ ورک ملا ہے‘ جس میں بے شمار صلاحیتیں اور ان گنت امکانات ہیں۔ کوئی چاہے تو اس بنے بنائے نظام کو ترقی کے آسمان پر پہنچا دے مگر پہنچائے کون؟ کوئی کرنے والا ہو تو ریلوے کے نظام میں اتنا کام کرے کہ زمینوں کو زمینوں سے اور دلوں کو دلوں سے جوڑنے والی یہ ریل گاڑی نہ صرف معیشت بلکہ معاشرت میں بھی انقلاب برپا کر دے‘ مگر کرے کون؟ مجھے پاکستان ریلوے کے سگنل اور کانٹے کے ایک کیبن میں جانے کا اتفاق ہوا جو کیبن کیا ہے پاکستان ریلوے کی نبض ہے‘ اسے ٹٹولئے مرض آپ خود ہی جان لیں گے۔ یہ کیبن کہاں ہے‘ اس میں جو
غریب محنت کش خون پسینہ ایک کر کے کانٹے اٹھا رہے ہیں‘ کانٹے گرا رہے ہیں‘ پٹڑیاں بدل رہے ہیں‘ سگنل کو اپ اور ڈاﺅن کر رہے ہیں‘ یہ کون ہیں‘ ان کے نام کیا ہیں؟ میں بتانے سے قاصر ہوں‘ میں نہیں چاہتا کہ اس ایک تحریر کے نتیجے میں ان پر ایک اور نیا عذاب نازل کروں۔ اس روز وہ لوگ وہاں اتنا زور صرف کر رہے تھے کہ ہم اور آپ کریں تو بدن کی ہڈیاں چٹخ جائیں‘ میں کیبن میں داخل ہوا تو سادہ لوح عملے نے بڑی گرمجوشی سے میرا خیر مقدم کیا‘ میں نے کہا کہ
آپ لوگ بڑی محنت اور ذمہ داری کا کام کرتے ہیں کیونکہ جب کبھی ریل گاڑی کا حادثہ ہوتا ہے یہی سننے میں آتا ہے کہ کانٹے والے کی غلطی سے ہوا اور یہ کہ وہ سوتا رہ گیا کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟ وہ سارے کے سارے بیک آواز بولے یہ نہیں ہو سکتا۔ پھر اپنی تکنیکی زبان میں بتانے لگے اوور شوٹ ڈرائیور جاتا ہے ذمہ دار کیبن مین ٹھہرائے جاتے ہیں حالانکہ ان کا کانٹا تو نارمل پوزیشن میں رہا وہ تو ڈرائیور ہے جیسا بھی ہے چڑھ گیا گاڑی پر‘ وہ کیبن مین کا جرم نہیں ہوتا اور نہ وہ سویا ہوا ہوتا ہے‘ مجھے آٹھ سال یہیں ہو گئے قبلہ‘ تو یہاں تو ایسا حادثہ بھی نہیں ہوا اور نہ ہمیں سونے کا وقت ملتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں ابھی گاڑی آئی تھی اب یہ شنٹنگ ٹرین آ پہنچی یہاں تو ایسے کام ہوتا ہے۔ اب اس شنٹنگ ٹرین کا قصہ بھی سن لیجئے اور سوچئے کہ دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہو رہی
ہے اور پاکستان ریلویز کے اس کیبن مین کو کھڑکی سے سر نکال کر اور چلا کر انجن ڈرائیور کو ہدایت دینی پڑی۔ درمیان میں کھڑی کر‘ درمیان میں کھڑی کر۔ میں نے پوچھا کہ اس ہدایت کا کیا مطلب ہے؟ جواب ملا اس کا یہ مطلب ہے کہ پوائنٹ ہمارا جام ہو جاتا ہے تین پر پلیس نہیں ہو سکتا تھا اس کے لئے اسے درمیان میں روکا‘ یہ پلیس ہو جائے گا پھر اس کو جب چلانے کا وقت آئے گا پوائنٹ لگا کر‘ لاک بند کر کے چلا دیں گے۔ میری سمجھ میں صرف یہ آیا کہ یہ کام جسمانی قوت ہی کا نہیں‘ بڑی ذہانت کا بھی ہے۔ میں نے کیبن میں ادھر ادھر نگاہ دوڑائی‘ کیبن کی پشت پر دیوار تھی جس میں قدیم زمانے کا آتش دان بنا ہوا تھا (1906ءکا) جس میں شاید پچاس سال سے آگ نہیں سلگی تھی‘ کبھی بجلی کا ہیٹر لگایا گیا ہو گا وہ جل کر بیکار ہو گیا‘ ایک ٹیوب لائٹ لگائی گئی تھی وہ فیوز ہو گئی‘ اب شاید ساٹھ واٹ کا ایک بلب لگا تھا اور وہ بھی ننگا۔

QOSHE - بیمار کا حال - آج کی بات
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

بیمار کا حال

6 0
18.01.2024


معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ریلوے میں اصلاح احوال کی ضرورت اجاگر کرتے ہوئے بتاتے ہیں‘ کوئٹہ سے چل کر لاہور پہنچ کر اب جب میں ہندوستان میں داخل ہونے والا ہوں‘ یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کو ریل گاڑیوں کا لاجواب اور بے مثال نیٹ ورک ملا ہے‘ جس میں بے شمار صلاحیتیں اور ان گنت امکانات ہیں۔ کوئی چاہے تو اس بنے بنائے نظام کو ترقی کے آسمان پر پہنچا دے مگر پہنچائے کون؟ کوئی کرنے والا ہو تو ریلوے کے نظام میں اتنا کام کرے کہ زمینوں کو زمینوں سے اور دلوں کو دلوں سے جوڑنے والی یہ ریل گاڑی نہ صرف معیشت بلکہ معاشرت میں بھی انقلاب برپا کر دے‘ مگر کرے کون؟ مجھے پاکستان ریلوے کے سگنل اور کانٹے کے ایک کیبن میں جانے کا اتفاق ہوا جو کیبن کیا ہے پاکستان ریلوے کی........

© Daily AAJ


Get it on Google Play