سفر کی روداد اور تاریخ کا ورق
سینئر براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ریل کے سفر کی صرف روداد تک محدود نہیں رہتے بلکہ ساتھ ہی تاریخ کے حوالے بھی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم فرسٹ کلاس میں بیٹھے تھے اس اعلیٰ درجے کے مسافروں کا شاید خاص خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں کچھ صابن تولیہ وغیرہ بھی ملتا ہے کوئی مجھ سے پوچھے تو فرسٹ کلاس کا یہ ڈبہ کچھ ایسا برا بھی نہ تھا آرام دہ نشستیں تھیں اوپر کی نشستوں پر چڑھنے کیلئے چمکیلے الیمونیم کی سیڑھی تھی جو دیوار کے کھانچے میں بٹھا دی گئی تھی اس کے نیچے کوڑے دان تھا جو بہت مضبوطی سے بندتھا تاکہ کسی قسم کی بونہ پھیلے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈبے کے اندر ہی غسل خانہ بھی تھا اور بہت صاف تھا میری ٹرین کوئٹہ سے نکلی تو نشیب میں اترنے کے بجائے کول پور کی بلندی پر چڑھنے لگی راستے میں وہ اسٹیشن آیا جسے لوگ سریاب کہتے ہیں لیکن جس کا نام ٹائم ٹیبل میں سر آب لکھا ہے یہ سر آب ہے کچھ آگے آب گم ہے سر آب کے بعد اسپز ند کا جنکشن پڑا یہیں سے قوس بناتی ہوئی وہ پٹڑی نظر آئی جو آبادیوں سے نکل کر ویرانوں میں چلی جاتی ہے اور گرد اڑاتی ریت پھانکتی ہوا کے ساتھ سرکنے والے ریتیلے ٹیلوں سے بچتی بچاتی ایران تک جاتی ہے کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ دنیا کی سب تنہا بین الاقوامی ریلوے لائن ہے اس کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے اسپزند سے الگ ہو کر زاہد ان تک جانے والی........
© Daily AAJ
visit website