یہ کہانی کیلیفورنیا لاجولا کی ہے‘ یہ ایک سچی کہانی ہے جس میں ایک زندگی چلی جاتی ہے لیکن وہ کسی اور کو زندگی کا سچ تھما کر دنیا سے رخصت ہوتی ہے۔ 21 فروری 2018ءکی ایک رات کرسٹین کا فون اچانک بجنے لگا‘ جب اس نے فون اٹھایا تو یہ سکریبس میموریل ہسپتال لاجولا کیلیفورنیا کی انتظامیہ کی طرف سے تھا‘ اطلاع کچھ اچھی نہ تھی‘ اس کے ہاتھ پاﺅں کانپنے لگے‘ آگے بڑھ کر اس کے شوہر ڈیوڈ چیئر نے فون پکڑ لیا‘ ان کے بیٹے کا ہیلی کاپٹر کریش کر گیا تھا اور واحد وہ زندہ تھا لیکن موت و حیات کے راستے میں تھا‘ باقی تمام سوار موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ کرسٹین کا نہایت بہادر اور جری بیٹا جو امریکن نیوی میں سرجن تھا‘ وہ اپنے ایک نہایت ضروری تربیتی مشن پر سفر کر رہا تھا کہ حادثے نے اسے ہسپتال پہنچا دیا۔ جب میاں بیوی دونوں سکریبس میموریل ہسپتال پہنچے تو وہ ہسپتال کے ایک کمرے میں مشینوں کے سہارے سانسیں لے رہا تھا ورنہ اس کی موت واقع ہو چکی تھی۔ ڈاکٹروں نے کرسٹین کو بتایا کہ یہ ساری عمر مشین کے سہارے ہی سانس لے گا‘ اس کی تمام ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں‘ دماغ شل ہو چکا ہے اور 99 فیصد مر چکا ہے۔ کرسٹین ایک ماں تھی جو اپنے بیٹے سے بہت محبت کرتی تھی لیکن اس نے کوئی فیصلہ کرنا تھا‘ ڈاکٹر جیمز مازوچلی کو بہادری اپنی ماں سے ملی تھی‘ بہادر ماں نے عجیب اور دلیرانہ فیصلہ کیا‘ ڈاکٹروں سے کہہ دیا کہ میرے بیٹے کے جسم کے تمام اعضاءعطیہ کر دیئے جائیں اور اس کا فیصلہ جلد کیا جائے۔ مشین ہٹاتے ہی جیمز زندگی کی بازی ہار
گیا‘ وہ صرف 32 سال کا تھا‘ اس کے گردے‘ جگر‘ آنکھیں مختلف ہسپتالوں میں بھجوا دیئے گئے جہاں اس کی ضرورت تھی‘ اب دل جیسا اہم عضو تھا جس کو وقت مقررہ کے اندر ٹرانسپلانٹ کے لئے لے جانا تھا‘ مائیک کوہن نیویارک کا رہائشی تھا وہ 2004ءمیں کیلیسمیا کا شکار ہوا‘ اس کی عمر 34 سال تھی‘ ڈاکٹروں نے اسے بتا دیا تھا کہ کیمو تھراپی سے اور مسلسل علاج سے اس کے دل کی شریانیں متاثر ہو سکتی ہیں‘ وہ نیویارک سے سان ڈیگو ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق شفٹ ہوا کہ یہاں کا متوازن موسم اس کی صحت کے لئے سازگار تھا‘ کیونکہ وہ مسلسل کیموتھراپی کے عمل سے گزر رہا تھا‘ وہ ایک بہترین سائیکلسٹ تھا‘ سائیکل سواری اس کا شوق تھا‘ کیموتھراپی کے بعد ڈاکٹروں نے اس کو بالکل فٹ قرار دیا اور کہا کہ وہ کوئی بھی کام کر سکتا ہے حتیٰ کہ سائیکل بھی چلا سکتا ہے‘ اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی لیکن کیموتھراپی کے عمل نے اس کے دل پر بے پناہ اثر کیا تھا اور گالف کے بال جتنا خون کا ایک کلاٹ اس کی بائیں شریان میں جمع ہو گیا تھا‘ اب وہ سائیکل چلاتے ہوئے تھکاوٹ محسوس کرتا تھا‘ ڈاکٹروں
نے اس کو اب بتا دیا تھا کہ اس کے دل نے بہت حد تک کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور اب اس کو نئے دل کی ضرورت تھی۔ مغرب کے ہسپتالوں میں ایسے مریضوں کے ناموں کی ایک فہرست تیار رہتی ہے جن کو عطیات دینے کی صورت میں سیریل کی ترتیب سے عطیات کے لئے کال کی جاتی ہے‘ جس طرح جیمز مازوچلی کے گردے‘ آنکھیں‘ جگر اور دوسرے اعضاءہسپتالوں کے بینک میں جمع کروا دیئے گئے تھے تاکہ فہرست کے مطابق مریضوں کو عطیہ کر دیئے جائیں‘ اس طرح 32 سال کے بہادر اور دلیر سرجن جیمز کا دل کیلیفورنیا لاجولا کے ہسپتال میں رکھ دیا گیا۔ خوش قسمتی دیکھئے کہ مائیک کوہن اس وقت سان ڈیگو کے ہسپتال میں کسی دل کے انتظار میں تھا لیکن ایک دن اس نے اپنی زندگی کو ہسپتال کے بستر پر مرنے سے باہر اپنے گھر میں مرنے کو ترجیح دی‘ اس دن اس نے اپنا سامان بیگ میں ڈالا اور ہسپتال سے رخصتی کی تیاری کرنے لگا‘ نرس ایک دم اندر آ گئی‘ کہنے لگی مائیک تمہارے لئے ایک اچھی خبر ہے اور ایک بری خبر ہے‘ کون سی پہلے سناﺅں‘ مائیک نے ہنس کر کہا پہلے بری خبر سنا دو‘ نرس نے کہا بری خبر یہ ہے کہ تم گھر نہیں جا رہے اور اچھی خبر یہ ہے کہ تمہیں ایک دل کا عطیہ مل گیا ہے اور بہت جلدتمہارا ٹرانسپلانٹ ہونے والا ہے اور پھر اس کو جیمز مازوچلی کی پوری کہانی پتہ چلی کہ ہیلی کاپٹر کے حادثے نے سرجن کی جان لی اور اس کا دل اس کی ماں نے عطیہ کر دیا ہے۔
مائیک کوہن کے لئے یہ اہم ترین دن تھے‘ اس کا ٹرانسپلانٹ ہو چکا تھا اور وہ بہت بہترین طریقے سے صحت یاب ہو رہا تھا‘ کچھ مہینے بعد وہ بالکل صحت یاب تھا اور زندگی نارمل لوگوں کی طرح گزار سکتا تھا لیکن شرط یہ تھی کہ دل کی دھڑکن 150 کے اندر رہنی چاہئے‘ کرسٹین کو اطلاع مل چکی تھی کہ میرے بیٹے کا دل مائیک کوہن کے سینے میں دھڑکنے لگا ہے۔ وہ حد درجہ خوش تھی کہ میرے لائق اور بہادر بیٹے کا دل ایک اور جوان شخص کے سینے میں موجود ہے اور پھر اس کی اس خواہش نے جنم لیا کہ وہ مائیک کوہن سے ملنا چاہتی ہے‘ مائیک کوہن بھی ڈاکٹر جیمز کی قبر پر جا کر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا جس کی بدولت وہ آج نئی زندگی جی رہا ہے۔ کرسٹین سے بہت دفعہ مائیک کوہن کی بات ہوئی اور یہ طے پایا کہ وہ اس قبرستان میں ملیں گے جہاں ڈاکٹر جیمز دفن ہیں‘ مائیک کوہن سائیکلنگ کر کے یہ سفر طے کرنا چاہتا تھا‘ ڈاکٹروں نے اسے اجازت دے دی‘ یہ ایک طویل فاصلہ تھا لیکن ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق اپنی ہارٹ بیٹ کو قابو میں رکھتے ہوئے اپنے بھائی کے ساتھ مائیک کوہن نے سفر کا آغاز کیا‘ وہ نہ صرف سرجن جیمز کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا اس کی قبر کو دیکھنا چاہتا تھا بلکہ اس کی بہادر ماں کے ساتھ ملنا بھی اب اس کی خواہش بن چکی تھی اور آخر کار وہ گھڑی آ ہی گئی جب وہ قبرستان پہنچ گئے‘ وہ کرسٹین کے سامنے کھڑا تھا‘ شکریہ کے لئے الفاظ تو نہیں تھے آنسو بہہ رہے تھے ماں کے بھی اور مائیک کوہن کے بھی اور پھر کرسٹین نے اس کو گلے لگا لیا۔

QOSHE - الفاظ نہیں تھے آنسو بہہ رہے تھے - آفتاب اقبال بانو
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

الفاظ نہیں تھے آنسو بہہ رہے تھے

15 0
15.02.2024

یہ کہانی کیلیفورنیا لاجولا کی ہے‘ یہ ایک سچی کہانی ہے جس میں ایک زندگی چلی جاتی ہے لیکن وہ کسی اور کو زندگی کا سچ تھما کر دنیا سے رخصت ہوتی ہے۔ 21 فروری 2018ءکی ایک رات کرسٹین کا فون اچانک بجنے لگا‘ جب اس نے فون اٹھایا تو یہ سکریبس میموریل ہسپتال لاجولا کیلیفورنیا کی انتظامیہ کی طرف سے تھا‘ اطلاع کچھ اچھی نہ تھی‘ اس کے ہاتھ پاﺅں کانپنے لگے‘ آگے بڑھ کر اس کے شوہر ڈیوڈ چیئر نے فون پکڑ لیا‘ ان کے بیٹے کا ہیلی کاپٹر کریش کر گیا تھا اور واحد وہ زندہ تھا لیکن موت و حیات کے راستے میں تھا‘ باقی تمام سوار موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ کرسٹین کا نہایت بہادر اور جری بیٹا جو امریکن نیوی میں سرجن تھا‘ وہ اپنے ایک نہایت ضروری تربیتی مشن پر سفر کر رہا تھا کہ حادثے نے اسے ہسپتال پہنچا دیا۔ جب میاں بیوی دونوں سکریبس میموریل ہسپتال پہنچے تو وہ ہسپتال کے ایک کمرے میں مشینوں کے سہارے سانسیں لے رہا تھا ورنہ اس کی موت واقع ہو چکی تھی۔ ڈاکٹروں نے کرسٹین کو بتایا کہ یہ ساری عمر مشین کے سہارے ہی سانس لے گا‘ اس کی تمام ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں‘ دماغ شل ہو چکا ہے اور 99 فیصد مر چکا ہے۔ کرسٹین ایک ماں تھی جو اپنے بیٹے سے بہت محبت کرتی تھی لیکن اس نے کوئی فیصلہ کرنا تھا‘ ڈاکٹر جیمز مازوچلی کو بہادری اپنی ماں سے ملی تھی‘ بہادر ماں نے عجیب اور دلیرانہ فیصلہ کیا‘ ڈاکٹروں سے........

© Daily AAJ


Get it on Google Play