دنیا کے اکثر ممالک نے بجلی کے خرچ پر اس طرح سے بھی کنٹرول کیا ہے کہ صبح تڑکے سورج کی پہلی کرن سے وہاں کے لوگ اپنے معمولات زندگی شروع کر دیتے ہیں اور پھر سورج کے غروب ہوتے ہی اپنا اپنا کاروبار زندگی سمیٹ لیتے ہیں‘ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس جانب نہ کبھی کسی بھی حکومت نے صدق دل سے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ہے اور نہ تاجر برادری کے دل میں اس بابت کوئی خوف پیداہوا ہے‘ ہماری مارکیٹوں میں رات گئے تک مختلف قسم کی لائٹس جلتی رہتی ہیں‘ تجربہ میں آ یا ہے کہ ایک دو شہروں میں اگر انتظامیہ نے وہاں کی تاجر برادری سے درخواست کی بھی ہے کہ وہ شام ڈھلے اپنا کام سمیٹ لیا کریں اور صبح صبح کام شروع کیا کریں تاکہ بجلی کا خرچ کم کیا جا سکے تو تاجروں سے اس درخواست کے ساتھ ساتھ کو قوم کو یہ باور کرانے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ لوگ صحت مندہوتے ہیں جو علی الصبح جاگ جاتے ہیں اور شام ڈھلتے ہی سو جاتے ہیں‘ہم میں تو اکثر لوگ صبح کا ناشتہ گیارہ بجے سے پہلے نہیں کرتے‘بسیار خوری کا ہم من حیث القوم شکار ہیں‘ موٹی توند کوہم صحت کی نشانی تصور کرتے ہیں۔‘ان چند کلمات کو رقم کرنے کے بعد درج ذیل واقعات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا۔ یوں تو پانی سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے وہ عام آ دمی کو دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے طریقہ کار سے سستی پڑتی ہے پر ڈیموں کی تعمیر پر بہت وقت لگتا ہے۔بے شک ارباب اقتدار کو لانگ ٹرم میں ملک میں ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دینی ہو گی‘پر جب تک وہ نہیں بنتے سر دست ملک کو درپیش توانائی کی کمی کا سامنا کرنے کے واسطے شارٹ ٹرم میں غیر روایتی بجلی پیدا کرنے کے طریقہ کارجیسے کہ سولر اور ونڈ انرجی کی طرف دھیان دینا ہوگا‘۔ڈیورنڈ لائن پر باڑھ بھی کب کی لگ چکی اور اس پر افغانستان سے وطن عزیز میں لوگوں کے دخول کی مانیٹرنگ کے لئے فوجی چوکیاں بھی بنا دی گئیں پر اگر ان حفاظتی اقدامات کے باوجود دہشت گرد پاکستان میں دا خل ہو رہے ہیں تو کیا ضروری نہیں کہ اس ضمن میں اگر کچھ سقم باقی رہ گیاہے تو اس کو دور کرنے کے واسطے اس منصوبے کو ری وزٹ کیا جائے بہتر ہو گا اگر اس منصوبے پر ایک دستاویزی فلم عوام کی معلومات کیلئے بنائی جائے جسے الیکٹرا نک میڈیا کے ذریعے مشتہر کیا جائے۔باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک ایک لمبی ٹرائبل علاقے کی پٹی کو بطریق احسن چلایا جا رہا تھا اور کئی انتظامی امور میں سابقہ فاٹا کی کارکردگی ملک کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں بہتر تھی سابقہ فاٹا کا علاقہ قیام پاکستان کے وقت ملک کے دیگر علاقوں کے باسیوں کے واسطے صرف 25فیصد قابل رسائی تھا اور باقی ماندہ 75فیصد ناقابل رسائی تھا‘ پر پولٹیکل انتظامیہ اور قبائلی عمائدین کی باہمی مشاورت کے بعد 1980کی دہائی میں فاٹا کا 75 فیصد علاقہ ہر پاکستانی کے واسطے قابل رسائی ہو گیا یہ وہاں پر اجتماعی قبائلی علاقائی ذمہ واری کا انتظامی نظام چلانے کا اعجاز تھا۔

QOSHE - توانائی بحران کا خاتمہ؟ - سید مظہر علی شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

توانائی بحران کا خاتمہ؟

40 0
01.05.2024

دنیا کے اکثر ممالک نے بجلی کے خرچ پر اس طرح سے بھی کنٹرول کیا ہے کہ صبح تڑکے سورج کی پہلی کرن سے وہاں کے لوگ اپنے معمولات زندگی شروع کر دیتے ہیں اور پھر سورج کے غروب ہوتے ہی اپنا اپنا کاروبار زندگی سمیٹ لیتے ہیں‘ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس جانب نہ کبھی کسی بھی حکومت نے صدق دل سے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ہے اور نہ تاجر برادری کے دل میں اس بابت کوئی خوف پیداہوا ہے‘ ہماری مارکیٹوں میں رات گئے تک مختلف قسم کی لائٹس جلتی رہتی ہیں‘ تجربہ میں آ یا ہے کہ ایک دو شہروں میں اگر انتظامیہ نے وہاں کی تاجر برادری سے درخواست کی بھی ہے کہ وہ شام ڈھلے اپنا کام سمیٹ لیا کریں اور صبح صبح کام شروع کیا کریں تاکہ بجلی........

© Daily AAJ


Get it on Google Play