جب بھی عید کے دن آتے تھے اسلام آباد کے رہنے والے مسافر اپنے اپنے آبائی گھروں کو جانے کیلئے اور اپنے پیاروں کیساتھ عید منانے کیلئے بے تاب نظر آنے لگتے تھے اور اس کے ساتھ ہی منت زاری اور سفارش بھی شروع ہو جاتی تھی کیونکہ سارے کا سارا دفتر تو مسافروں پر مشتمل تھا‘ عید کے شروع ہونے سے پہلے اور عید کے بعد آنےوالے پورے ہفتے دفتر کو بھیجوا دیا جاتا تو کام کیسے ہوتا‘ ایسے میں ساتھیوں کی دل جوئی کیلئے کچھ لوگ قربانی کے اصل بکرے بنتے‘ طے پاتا کہ بڑی عید پر وہ ڈیوٹی کرینگے اور قربانی دینے والا اس وقت کا شخص دراصل اپنی قربانی کرنے کیلئے اپنے گاﺅں یا اپنے شہر کو جائےگا‘ میں خود کئی کئی ساتھیوں کاکام اکیلے اپنے سر پر لے لیتی تھی کیونکہ ہم لوگ عید کے دن پشاور جاتے تھے اور پھر ایک دن کے بعد واپس آجاتے تھے اسی طرح مجھے بہت خوشی ہوتی تھی کہ میں اور میرے جیسے کئی لوگ اپنے مسافر ساتھیوں کیلئے اپنے آپ کو رضا کارانہ طورپر پیش کرکے ڈبل ٹرپل کام کرتے تھے اب تو اسلام آباد ایسا شہر ہے جہاں کوئی مسافر نہیں رہتا سب کے اپنے گھر ہیں‘ وہ عید جو خالی اسلام آباد کا ایسا ہولناک منظر پیش کرتی تھی کہ ہو کا عالم ہوتا ہے عید ختم ہونے کے بعد بھی چار پانچ دن تک دوکانیں بند رہتی تھیں اکثر لوگ پہلے سے گھر کا کچھ راشن سٹاک کر لیتے تھے‘ اسلام آباد کے تمام پکنکس پوائنٹس عیدوں کے دنوں میں بالکل جنگل کا منظر پیش کرتے تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد نے مسافروں کے دل ایسے اپنی دل نشین مٹھی میں جکڑے کہ وہ اپنے دیہاتوں اور اپنے شہروں کو بھول ہی گئے اب بھی جب میں کینیڈا میں امیگرنٹس کو رنگ برنگی اپنے ملکوں کی بولیاں بولتے ہوئے سنتی ہوں تو بے اختیار اسلام آباد یاد آجاتا ہے یہاں چاروں صوبوں کے شہروں اور دیہاتوں کے لوگ‘ ان کی زبان‘ ان کے کپڑے‘ ان کا رہن سہن‘ کلچر ہر وقت ہی نظر آتا تھا‘ لیکن اب صرف25-20 سال گزرنے کے بعد آپ کو ایسے ایسے ماڈرن نظر آئینگے جو صرف اردو اور انگریزی بولتے ہیں ان کا پہناوا بھی ایک پل کیلئے آپ کو ان کی پہچان بھلا دیتا ہے‘ وہ خوبصورت اور چھوٹے چھوٹے پیارے بازار جو اتوار بازار‘ منگل بازار‘ جمعہ بازار کے نام سے مشہور تھے اور شاید اسلام آباد کے مکینوں کو ایک ہی جگہ پر ضروریات زندگی کی ہر چیز مہیا کرنے کی وجہ سے اپنی مثال آپ تھے کیونکہ وہ سستے بھی تھے اور کلچرل بھی تھے‘ ہمیشہ ہی ان بازاروں میں جاکر ایسی خوشی محسوس ہوتی تھی‘ ہر دوکاندار کی اک خاص جگہ ہوتی تھی ہمیشہ ہراتوار یا منگل کو اپنی ہی مخصوص جگہ پر ملتا تھا ہر چیز خریدنے کیلئے ہمیں جگہ یاد ہوتی تھی اک کونے میں لنڈا بازار اسلام آباد کے سفید پوشوں کا سب سے پسندیدہ ٹھکانہ ہوتا تھا بڑے بڑے اچھے لوگ وہاں سے لنڈے کی اشیاءخریدتے تھے اور ان اشیاءکی کوالٹی بھی ایک دم اچھی اور سستی ہوتی تھی اب یہ تمام بازار سی ڈی اے نے اپنی سپروائزری میں لے کر ان کا پکا اور بڑی بڑی دوکانوں میں تبدیل کر دیا ہے‘ ظاہر ہے ہر ایک کو ان دوکانوں کا کرایہ بھی ادا کرنا ہوتا ہوگا ‘اشیاءمہنگی اور بھونڈی ہوگئی ہیں دوکاندار تبدیل ہوگئے ہیں سفارش اور دوسرے ذرائع نے ان غریبوں کو دور کر دیا ہے جو صرف زمین کے ایک حصے کو دوکان بنا کر اپنی چیزیں بیچا کرتے تھے دوکانیں اونچی اور اشیاءپہنچ سے باہر ہو کر اسلام آباد کا وہ حسن بھی کہیں دور لے کر چلی گئی ہیں جو دل کی خوشی کا سامان بنتی تھیں جناح سپر اور سپر مارکیٹ واحد دو مارکیٹیں ہوتی تھیں جہاں سر شام ہی امیر لوگوں کی گاڑیاں چکر لگانا شروع کر دیتی تھیں بڑی ماڈرن لڑکیاں‘ لڑکے جگہ جگہ ٹولیاں بناکر باتیں کرتے تھے شوارمے کا کاروبار عروج پر ہوتا تھا لوگ گاڑیاں پارک کرکے پیدل چکر لگاتے رہتے تھے درزیدہ نظروں سے ایک دوسرے کے فیشن بھی دیکھتے رہتے تھے یہ اتنا چھوٹا شہر تھا کہ اکثر ہی دوست کولیگ ان کی بیویاں بچے گھومتے ہوئے نظر آجاتے تھے افغانی لڑکے اپنے مخصوص برتنوں میں ابلے ہوئے تیل میں گرم گرم چپس تلتے تھے اور10روپے کا بھرا ہوا لفافہ لے کر ہر ایک اسکو کھانے پر ترجیح دیتا تھا ایک سے ایک نئی خوبصورت گاڑی سب جناح سپر مارکیٹ کے گول راستے کا چکر لگاتے ‘ سپر مارکیٹ شاپنگ کا گڑھ تھی‘ دوائیوں سے لے کر کپڑوں اور جوتوں تک لوگ یہاں سے خریداری کرتے تھے ان مارکیٹوں میں روزا نہ جائیں تو جیسے کچھ کھونے کا احساس ہوتا تھا ایک ہی راستہ ہوتا تھا‘ سپر مارکیٹ چلے جاتے تھے میلوڈی کے انڈر گراﺅنڈ پل بن جانے سے اس کے اوپر اونچے سے اب کئی راستے بن چکے ہیں لیکن ساتھ ہی کئی بہترین مال بھی وجود میں آگئے ہیں‘ وہ راستے‘ وہ لوگ ‘ وہ شوق ‘ وہ جذبہ اب نظر نہیں آتا اب نہ عیدالفطر‘ عیدالاضحیٰ پر ساتھیوں کے منت ترلے کئے جاتے ہیں لگتا ہے اب مسافر مستقل آباد ہوگئے ہیں واپس گھروں کو گاہے گاہے ہی پلٹتے ہیں ویسے بھی عید پر دو چھٹیاں ہوتی ہیں کرائے بہت زیادہ ہوگئے ہیں پٹرول کے مہنگا ہونے سے بجٹ پر بری طرح اثر پڑا ہے ٹیکنالوجی کی ترقی نے میڈیا کو بھی اتنا ایڈوانس کردیا ہے کہ مشینیں ایسی ریکارڈنگ اور ڈبنگ کرتی ہیں کہ حیرانگی ہوتی ہے اینکر اتنے سمجھدار ہوگئے ہیں کہ پروڈیوسر کچھ دن فون پر بھی ہدایات دے دے تو کام چل جاتا ہے1982-83ءکے وہ خوبصورت دن جب ہر کام کیلئے کابیئنٹ کا سہارا لینا پڑتا تھا ڈبنگ ایڈیٹنگ بار بار کرنا پڑتی تھی معمولی سی غلطی بھی سارا کام نئے آغاز کا متقاضی ہو جاتا تھا کیا خوبصورت دن تھے جب ہر ایک کو ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت پڑہی جاتی تھی اور ایسا کرکے کتنی خوشی حاصل ہوتی تھی۔

QOSHE - 1982-83 کا اسلام آباد - آفتاب اقبال بانو
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

1982-83 کا اسلام آباد

9 0
05.12.2023

جب بھی عید کے دن آتے تھے اسلام آباد کے رہنے والے مسافر اپنے اپنے آبائی گھروں کو جانے کیلئے اور اپنے پیاروں کیساتھ عید منانے کیلئے بے تاب نظر آنے لگتے تھے اور اس کے ساتھ ہی منت زاری اور سفارش بھی شروع ہو جاتی تھی کیونکہ سارے کا سارا دفتر تو مسافروں پر مشتمل تھا‘ عید کے شروع ہونے سے پہلے اور عید کے بعد آنےوالے پورے ہفتے دفتر کو بھیجوا دیا جاتا تو کام کیسے ہوتا‘ ایسے میں ساتھیوں کی دل جوئی کیلئے کچھ لوگ قربانی کے اصل بکرے بنتے‘ طے پاتا کہ بڑی عید پر وہ ڈیوٹی کرینگے اور قربانی دینے والا اس وقت کا شخص دراصل اپنی قربانی کرنے کیلئے اپنے گاﺅں یا اپنے شہر کو جائےگا‘ میں خود کئی کئی ساتھیوں کاکام اکیلے اپنے سر پر لے لیتی تھی کیونکہ ہم لوگ عید کے دن پشاور جاتے تھے اور پھر ایک دن کے بعد واپس آجاتے تھے اسی طرح مجھے بہت خوشی ہوتی تھی کہ میں اور میرے جیسے کئی لوگ اپنے مسافر ساتھیوں کیلئے اپنے آپ کو رضا کارانہ طورپر پیش کرکے ڈبل ٹرپل کام کرتے تھے اب تو اسلام آباد ایسا شہر ہے جہاں کوئی مسافر نہیں رہتا سب کے اپنے گھر ہیں‘ وہ عید جو خالی اسلام آباد کا ایسا ہولناک منظر پیش کرتی تھی کہ ہو کا عالم ہوتا ہے عید ختم ہونے کے بعد بھی چار پانچ دن تک دوکانیں بند رہتی تھیں اکثر لوگ پہلے سے گھر کا کچھ راشن سٹاک کر لیتے تھے‘ اسلام آباد کے تمام پکنکس........

© Daily AAJ


Get it on Google Play