1982-83 کا اسلام آباد
جب بھی عید کے دن آتے تھے اسلام آباد کے رہنے والے مسافر اپنے اپنے آبائی گھروں کو جانے کیلئے اور اپنے پیاروں کیساتھ عید منانے کیلئے بے تاب نظر آنے لگتے تھے اور اس کے ساتھ ہی منت زاری اور سفارش بھی شروع ہو جاتی تھی کیونکہ سارے کا سارا دفتر تو مسافروں پر مشتمل تھا‘ عید کے شروع ہونے سے پہلے اور عید کے بعد آنےوالے پورے ہفتے دفتر کو بھیجوا دیا جاتا تو کام کیسے ہوتا‘ ایسے میں ساتھیوں کی دل جوئی کیلئے کچھ لوگ قربانی کے اصل بکرے بنتے‘ طے پاتا کہ بڑی عید پر وہ ڈیوٹی کرینگے اور قربانی دینے والا اس وقت کا شخص دراصل اپنی قربانی کرنے کیلئے اپنے گاﺅں یا اپنے شہر کو جائےگا‘ میں خود کئی کئی ساتھیوں کاکام اکیلے اپنے سر پر لے لیتی تھی کیونکہ ہم لوگ عید کے دن پشاور جاتے تھے اور پھر ایک دن کے بعد واپس آجاتے تھے اسی طرح مجھے بہت خوشی ہوتی تھی کہ میں اور میرے جیسے کئی لوگ اپنے مسافر ساتھیوں کیلئے اپنے آپ کو رضا کارانہ طورپر پیش کرکے ڈبل ٹرپل کام کرتے تھے اب تو اسلام آباد ایسا شہر ہے جہاں کوئی مسافر نہیں رہتا سب کے اپنے گھر ہیں‘ وہ عید جو خالی اسلام آباد کا ایسا ہولناک منظر پیش کرتی تھی کہ ہو کا عالم ہوتا ہے عید ختم ہونے کے بعد بھی چار پانچ دن تک دوکانیں بند رہتی تھیں اکثر لوگ پہلے سے گھر کا کچھ راشن سٹاک کر لیتے تھے‘ اسلام آباد کے تمام پکنکس........
© Daily AAJ
visit website