اگست 2023ءمیں منتخب حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعدنگران حکومت وجود میں آئی۔جب سے نگران حکومت تشکیل دی گئی ہے، اسی روز سے عام انتخابات کو لے کر ہر پاکستانی تذبذب کا شکار تھا۔مختلف مفروضے زیر گردش تھے کہ عام انتخابات کا بروقت انعقاد تو ممکن ہی نہیں ہے،البتہ ڈیڑھ ،دو سال بعد کوئی امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔خاکسار ہمیشہ سے ہی بروقت عام انتخابات کا حامی رہا ہے۔نگران حکومت کے قیام کے ٹھیک دوہفتے بعد روزنامہ جنگ کے اسی ادارتی صفحہ پر مورخہ 28اگست،2023ء کو ’’بروقت عام انتخابات‘‘ کے عنوان سے میرا کالم شائع ہوا۔ جس کا اختتام میں نے کچھ یوں کیا تھا۔ (’’بہتر ہوگا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان 16ستمبر سے قبل عام انتخابات کی تاریخ دینے کے حوالے سے تمام ہوم ورک مکمل کرلے ،وگرنہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے شاید نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سب سے آگے کھڑے ہوں اور اگر سپریم کورٹ کے حکم پر 15فروری یا اس کے آس پاس کی تاریخ دی گئی تو پھر انتخابات کے حوالے سے معاملات کوکنٹرول کرنا بہت مشکل ہو جائیگا‘‘۔) اس کالم میں 16ستمبر کا اس لیا لکھا تھا کیونکہ اس تاریخ کو قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھانا تھا اور آج بہر حال ٹھیک دو ماہ بعد عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان سپریم کورٹ سے ہی ہوا ہے۔اسی طرح مورخہ 4ستمبر،2023کو "عام انتخابات کے نتائج کیا ہونگے"کے عنوان سے شائع ہونے والے کالم میں متوقع عام انتخابات کی تاریخ کا نقشہ کچھ یوں بیان کیا تھا۔("پاکستان میں عام انتخابات کرانے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔نگران حکومت کے طویل ہونے کے سارے مفروضے دم توڑ چکے ہیں۔عام انتخابات کی حتمی تاریخ کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے،لیکن قوی امکان ہے کہ 2024ءجنوری کے آخری ہفتے سے لے کر فروری کا دوسرا ہفتہ کے درمیان عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔عام انتخابات کو لے کر ادارے کی رائے تقسیم تھی۔ایک رائے یہ تھی کہ نگران کابینہ کا دورانیہ ڈیڑھ سے دو سال کیا جائے۔جس میں اسٹیبلشمنٹ کی منتخب کردہ نگران حکومت زبردست کارکردگی دکھائے اور یوں نگران حکومت کی بہتر کارکردگی کا کریڈٹ اسٹیبلشمنٹ لے سکے ۔اس طرح عوام کی اکثریت جو کہ اس وقت مہنگائی اور بدا نتظامی سے نالاں ہے۔جب اسٹیبلشمنٹ کی من پسند نگران حکومت مہنگائی کو کم کرے گی تو عوام میں اسٹیبلشمنٹ کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔یہ رائے رکھنے والوں کا یہ بھی خیال تھاکہ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے بھی کچھ وزراء کے خلاف احتساب کی کارروائی کرے ،تاکہ عوام میں تحریک انصاف کے خلاف یکطرفہ کارروائی کا تاثر زائل ہوسکے۔جب عمران خان اور تحریک انصاف کے درجنوں ممبران کے خلاف نیب کیسزدرج ہونگے اور ساتھ ساتھ ایک ،دو مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے وزراء کے خلاف بھی کارروائیاں ہوتی نظر آئیں گی تو اس سے عمومی تاثر جائے گا کہ بلا امتیاز احتساب کیا جارہا ہے۔اس طرح عمران خان کی خاطر اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ پانچ سال کے دوران جیسے اپنی ساکھ داؤ پر لگائی ہے ،نگران حکومت کی دو سالہ مدت سے وہ بحال ہوجائے گی۔جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقتور ترین شخصیات کی رائے قدرے مختلف تھی۔اسٹیبلشمنٹ کے فیصلہ ساز روز اول سے یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشی مسائل کا حل جلد از جلد فوری عام انتخابات میں ہے۔اور عام انتخابات کے نتیجے میں بھی ایسی حکومت معرض وجود میں آئے ،جو کہ اپنی اتحادی جماعت کی بیساکھیوں پر نہ کھڑی ہو۔بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام جائے کہ ہم جس حکومت سے بات کررہے ہیں ،وہ سیاسی حوالے سے مستحکم ہے اور پانچ سال کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے۔اس لئے پاکستان سے ٹھوس بنیادوں پر بات کی جاسکتی ہے۔آج اسٹیبلشمنٹ کے فیصلہ سازوں نے حتمی فیصلہ کرلیا ہے کہ عام انتخابات میں آئینی گنجائش سے ہٹ کر ایک دن کی بھی تاخیر نہ کی جائے۔اس لئے عام انتخابات کا انعقاد ہونے جارہا ہے۔جبکہ اس انتخابات کے نتیجے میں پاکستان میں ایک مستحکم اور بیساکھیوں کے بغیر حکومت وجود میں آئے گیـ"۔یہ وہ کالم تھے جن میں خاکسار نے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کو بیان کیا تھا۔ آج عام انتخابات کا فروری 2024ء میں انعقاد کا اعلان ہوچکا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ا ٓج بھی مفروضوں کا بازار گرم ضرور ہے مگر 8فروری پاکستان میں پولنگ کا دن ہوگا۔ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ ن بھاری مینڈیٹ سے کامیاب ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ وفاقی حکومت میں مسلم لیگ ن اتحادی جماعتوں کو کابینہ میں شامل کریگی لیکن مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کسی اتحادی جماعت کی محتاج نہیں ہوگی۔سندھ کے حوالے سے حتمی فیصلے ہونا باقی ہیں لیکن اب تک کی معلومات کے مطابق سندھ کی قومی اداروں کو بہت فکر ہے اور پیپلزپارٹی کے کسی نااہل وزیراعلیٰ کے حوالے سندھ نہیں کیا جائے گا۔اس حوالے سے مسلم لیگ ن،جی ڈی اے،جے یو آئی ف،آزاد اور ایم کیو ایم کے اتحاد پر مشتمل اچھی شہرت کا حامل وزیراعلیٰ سندھ لایا جاسکتا ہے۔کیونکہ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز کی اولین ترجیح پاکستان کو 2017کے ٹریک پرواپس لاناہے اور اس مرتبہ پاکستان میں صرف پنجاب نہیں ہے بلکہ سندھ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان بھی ترجیحات میں شامل ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے کے بعد عراق کا دورہ کروں گا۔

سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا فوج سے پھڈا نہیں ہوگا، موجودہ ملٹری لیڈر شپ انتہائی ایماندار اور قابل ہے۔

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے اپنی جیت پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے نام کردی اور کہا کہ آج بھی اپنےمؤقف پر قائم ہوں کہ مل کر کراچی کی ترقی کے لیے کام کریں۔

طالبہ نے کہا کہ میڈیا اس طرح رپورٹنگ کر رہا ہے جیسے یہ اسرائیل حماس کی جنگ ہے۔

لبنانی میڈیا کے مطابق اسرائیلی حملے میں ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

پولیس نے مین روڈ بلاک ہونے پر جے یو آئی (ف) کی انتظامیہ کو کیمپ تھوڑا پیچھے ہٹانے کےلیے کہا تھا، ترجمان لاہور پولیس

ملبے میں دبی لڑکی کہتی ہے کہ مہربانی کر کے مجھے یہاں سے باہر نکالو۔

دیگر لوگوں کی طرح میری بیٹی کے اس اقدام سے مجھے بہت مایوسی ہوئی، امریکی اداکار

اسرائیلی فوج کی نگرانی میں مقامی اور غیرملکی صحافیوں کو شمالی غزہ کا دورہ کرایا گیا۔

غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی شوبز شخصیات نے صدر جو بائیڈن کے نام کُھلا خط تحریر کیا ہے۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایوارڈ یافتہ صحافی جیزمین ہیوز سے استعفیٰ لے لیا۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینئر مصطفٰی کمال نے کہا ہم نے راتوں کو جاگ کر آپ کی صبح بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ اللہ نے ہماری بات آپ کے دل میں ڈالی ہے تو رب کو پتا ہے ہماری نیت صاف ہے۔

یہاں دو طبقے ہیں ایک ظالم اور ایک مظلوم، حقوق کی جدوجہد میں ایم کیو ایم آپ کے ساتھ کھڑی ہے، کنوینر ایم کیو ایم

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے اسرائیلی پائلٹوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی مطالبات کے باوجود غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوگی۔

اسرائیلی وزیر کا یہ بیان ثبوت ہے کہ صیہونی ریاست اور ایٹمی قوت انتہاپسند جنونیوں کے ہاتھ میں ہے، شہباز شریف

جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں ویرات کوہلی نے 101 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔

QOSHE - حذیفہ رحمٰن - حذیفہ رحمٰن
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

حذیفہ رحمٰن

8 1
06.11.2023

اگست 2023ءمیں منتخب حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعدنگران حکومت وجود میں آئی۔جب سے نگران حکومت تشکیل دی گئی ہے، اسی روز سے عام انتخابات کو لے کر ہر پاکستانی تذبذب کا شکار تھا۔مختلف مفروضے زیر گردش تھے کہ عام انتخابات کا بروقت انعقاد تو ممکن ہی نہیں ہے،البتہ ڈیڑھ ،دو سال بعد کوئی امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔خاکسار ہمیشہ سے ہی بروقت عام انتخابات کا حامی رہا ہے۔نگران حکومت کے قیام کے ٹھیک دوہفتے بعد روزنامہ جنگ کے اسی ادارتی صفحہ پر مورخہ 28اگست،2023ء کو ’’بروقت عام انتخابات‘‘ کے عنوان سے میرا کالم شائع ہوا۔ جس کا اختتام میں نے کچھ یوں کیا تھا۔ (’’بہتر ہوگا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان 16ستمبر سے قبل عام انتخابات کی تاریخ دینے کے حوالے سے تمام ہوم ورک مکمل کرلے ،وگرنہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے شاید نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سب سے آگے کھڑے ہوں اور اگر سپریم کورٹ کے حکم پر 15فروری یا اس کے آس پاس کی تاریخ دی گئی تو پھر انتخابات کے حوالے سے معاملات کوکنٹرول کرنا بہت مشکل ہو جائیگا‘‘۔) اس کالم میں 16ستمبر کا اس لیا لکھا تھا کیونکہ اس تاریخ کو قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھانا تھا اور آج بہر حال ٹھیک دو ماہ بعد عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان سپریم کورٹ سے ہی ہوا ہے۔اسی طرح مورخہ 4ستمبر،2023کو "عام انتخابات کے نتائج کیا ہونگے"کے عنوان سے شائع ہونے والے کالم میں متوقع عام انتخابات کی تاریخ کا نقشہ کچھ یوں بیان کیا تھا۔("پاکستان میں عام انتخابات کرانے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔نگران حکومت کے طویل ہونے کے سارے مفروضے دم توڑ چکے ہیں۔عام انتخابات کی حتمی تاریخ کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے،لیکن قوی امکان ہے کہ 2024ءجنوری کے آخری ہفتے سے لے کر فروری کا........

© Daily Jang


Get it on Google Play