غزہ میں ایک ماہ سے جاری اسرائیلی دہشت گردی اور سفاکانہ حملوں میں 10ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور معصوم بچوں کی ہے۔ اس دوران امریکہ نے اقوام متحدہ میں حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی کی پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو کرکے ناکام بنادیا ، جس سے اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم پر کئی ممالک نے سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرکے اپنے سفیروں کو واپس بلالیا ہے جن میں اردن، بحرین، ترکیہ، بولیویا، چلی، کولمبیا، چاڈ اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک شامل ہیں لیکن اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات رکھنے والے بیشتر اسلامی ممالک نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی سنجیدہ ردعمل ظاہر نہیں کیا ، حالانکہ ان اسلامی ممالک کے عوام اسرائیلی مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور اپنی حکومتوں سے اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے 192رکن ممالک میں سے 168 کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی و تجارتی تعلقات ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے 28 رکن ممالک، جن میں پاکستان، کویت، عمان، سعودی عرب اور بنگلہ دیش شامل ہیں، نے اسرائیل کو نہ کبھی تسلیم کیا اور نہ ہی ان کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں۔ یاد رہے کہ حماس، اسرائیل جنگ سے قبل اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوہن نے انکشاف کیا تھا کہ بہت جلد سعودی عرب سمیت 6 سے 7 اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ امن مسلم دنیا اور یہودیوں کے درمیان امن کا پیش خیمہ ثابت ہوگا تاہم پاکستان کا شروع سے ہی یہ واضح موقف ہے کہ پاکستان، اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک مسئلہ فلسطین وہاں کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہوجاتا۔

اسرائیل کے جن اسلامی ممالک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں، حالیہ چند برسوں میں ان اسلامی ممالک کی اسرائیل کے ساتھ تجارت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس پر گزشتہ دنوں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ان اسلامی ممالک سے صہیونی ملک اسرائیل کے ساتھ معاشی تعاون ختم کرنے اور تیل سمیت دیگر تجارت روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کی ترکی کے ساتھ تجارت 8.5 ارب ڈالر اور یواے ای کے ساتھ تجارت 2.5 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ اسرائیل کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے اسلامی ممالک کے درمیان تجارت میں بھی نمایاں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ اسی طرح اردن کے ساتھ اسرائیل کا تجارتی حجم 225 ملین ڈالر، مصر کا 122.4 ملین ڈالر اور مراکو کے ساتھ تجارتی حجم 20.8 ملین ڈالر ہوچکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے ’’معاہدہ ابراہیم‘‘ کے بعد تجارتی تعلقات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ معاہدے پر اسرائیل نے 2020 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں عرب لیگ کے چار ممالک بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور مراکو کے ساتھ دستخط کئے تھے۔یو اے ای معاہدے پر دستخط کرنے والا پہلا خلیجی ملک تھا جس کے بعد بحرین، مراکو اور سوڈان نے بھی اس کی پیروی کی جبکہ مصر اور اردن وہ عرب ممالک ہیں جنہوں نے بالترتیب 1979 اور 1994 میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حماس اسرائیل جنگ سے قبل سوشل میڈیا پر پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات کے آغاز کا خوب زور و شور سے واویلا کیا گیا اور پاکستانی نژاد یہودی فشیل بن خلد نے پہلی بار پاکستانی مصالحہ جات، کھجوریں، خشک میوہ جات اور دیگر اشیاء اسرائیلی مارکیٹوں میں ایکسپورٹ کرنے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اسرائیل کیلئے واحد پاسپورٹ عمران حکومت نے انہیں جاری کیا۔ اس بات کا امکان ہے کہ جو پاکستانی اشیاء اسرائیل ایکسپورٹ کی گئیں، وہ براہ راست نہیں بلکہ دبئی یا کسی دوسرے ملک کے ذریعے اسرائیل ایکسپورٹ ہوئیں۔

دنیا میں اس وقت دو مسائل اپنے حل کے منتظر ہیں جس میں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین سرفہرست ہیں۔ مسئلہ فلسطین ہر مسلمان کیلئے اتنا ہی اہم ہے جتنا پاکستان کیلئے مسئلہ کشمیر مگر ان دو بڑے عالمی مسائل پر دنیا بالخصوص اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایران کا مسلم ممالک سے اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ مثبت پیشرفت ہے۔ ایران اور ترکیہ نے حماس اسرائیل جنگ بندی کیلئے علاقائی کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن زیادہ اچھا ہوتا کہ یہ مطالبہ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کی جانب سے کیا جاتا جو ابھی تک حماس، اسرائیل جنگ پر خاموشی تماشائی بنی بیٹھی ہے جس کا سربراہی اجلاس تک نہیں بلایا جاسکا ہے جبکہ کئی عرب اور اسلامی ممالک مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرکے معیشت کو بنیاد بناکر اسرائیل سے تعلقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عالمی برادری کا یوکرین اور فلسطین کے معاملے میں دہرا معیار ان کے دوغلے پن کا مظہر ہے۔ اگر وہ دنیا میں انصاف چاہتے ہیں تو انہیں اصول اور قوانین پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ غزہ میں فوری جنگ بندی نہ ہوئی اور امریکی و صہیونی ریاست کی جانب سے معصوم فلسطینیوں پر حملے جاری رہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں جب غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم عروج پر پہنچ چکے ہیں اور اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں پر وحشیانہ حملوں اور خواتین اور بچوں کا قتل عام جاری ہے، اسرائیل اور اسلامی ممالک کے مابین بڑھتے تجارتی تعلقات لمحہ فکریہ ہیں۔ اسلامی ممالک کو چاہئے کہ وہ اسرائیل سے اپنے سفیروں کو فوری واپس بلائیں اور تجارتی تعلقات منقطع کرکے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ ان کا یہ اقدام غزہ کے معصوم لوگوں کی حقیقی مدد کرسکتا ہے اور اسرائیل پر معاشی دبائو کے نتیجے میں غزہ کے مسلمانوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

گوجرانوالہ، حافظ آباد، نارووال، قصور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور سیالکوٹ میں بھی دفعہ 144 نافذ رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ان فیصلوں میں سب سے آگے ہونا چاہیے، غزہ فلسطینی سرزمین ہے اور یہ فلسطینی سرزمین رہے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ نومبر میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور تنصیبات پر حملوں کی اطلاعات سے آگاہ ہیں، جس پر اظہار افسوس کرتے ہیں۔

پاکستان ٹیم کے آل راؤنڈر عماد وسیم کا کہنا ہے کہ میکس ویل نے ون ڈے کی تاریخ کی بہترین اننگز کھیلی۔

پاکستان ٹیم کے سابق آل راؤنڈر عبدالرزاق کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا افغانستان کا میچ ورلڈ کپ کا تاریخی میچ تھا۔

کراچی میں ٹریفک پولیس افسر دوسروں کے لیے ایمان داری کی مثال بن گیا ۔

خیبر پختونخوا میں مالی بحران کی وجہ سے حکومت نے 4 ماہ کیلیے کفایت شعار پالیسی جاری کر دی۔

شام میں کئی کرکٹرز نے ہوٹل کے نزدیک واقع شاپنگ مال میں خریداری کی۔

میگا شوٹنگ ایونٹ 3 اکتوبر سے7 نومبر تک جہلم میں منعقد ہوا، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر تقریب کے مہمان خصوصی تھے، آئی ایس پی آر

پاکستان کا سیمی فائنل میں پہنچنے کا دارومدار نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے درمیان میچ پر ہے۔

اسرائیلی فوج کے غزہ میں ظلم اور ستم نے اسرائیلی اخبار کے نامور صحافی کو بھی رلادیا۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ پٹی پر قبضے کے ارادے ظاہر کردیے۔

ککڑ کے مطابق اسکے باوجود انہوں نے عامر خان کے ساتھ اسے شوٹ کیا جبکہ شاہ رخ کے ساتھ مختلف کمرشل کیے۔

مغوی شکیل مسیح کو 5 روز قبل مراد پور سے اغوا کیا گیا تھا۔

مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے امریکی خفیہ ادارے، سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنس سے ملاقات میں غزہ میں فوری جنگ بندی پر زور دیا ہے۔

غزہ میں اسرئیلی فوج کی وحشیانہ بم باری جاری ہے، اسرائیلی فوج نے غزہ کو معصوم بچوں کا قبرستان بنا دیا۔

QOSHE - مرزا اشتیاق بیگ - مرزا اشتیاق بیگ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مرزا اشتیاق بیگ

11 11
08.11.2023

غزہ میں ایک ماہ سے جاری اسرائیلی دہشت گردی اور سفاکانہ حملوں میں 10ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور معصوم بچوں کی ہے۔ اس دوران امریکہ نے اقوام متحدہ میں حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی کی پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو کرکے ناکام بنادیا ، جس سے اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم پر کئی ممالک نے سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرکے اپنے سفیروں کو واپس بلالیا ہے جن میں اردن، بحرین، ترکیہ، بولیویا، چلی، کولمبیا، چاڈ اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک شامل ہیں لیکن اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات رکھنے والے بیشتر اسلامی ممالک نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی سنجیدہ ردعمل ظاہر نہیں کیا ، حالانکہ ان اسلامی ممالک کے عوام اسرائیلی مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور اپنی حکومتوں سے اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے 192رکن ممالک میں سے 168 کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی و تجارتی تعلقات ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے 28 رکن ممالک، جن میں پاکستان، کویت، عمان، سعودی عرب اور بنگلہ دیش شامل ہیں، نے اسرائیل کو نہ کبھی تسلیم کیا اور نہ ہی ان کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں۔ یاد رہے کہ حماس، اسرائیل جنگ سے قبل اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوہن نے انکشاف کیا تھا کہ بہت جلد سعودی عرب سمیت 6 سے 7 اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ امن مسلم دنیا اور یہودیوں کے درمیان امن کا پیش خیمہ ثابت ہوگا تاہم پاکستان کا شروع سے ہی یہ واضح موقف ہے کہ پاکستان، اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک مسئلہ فلسطین وہاں کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہوجاتا۔

اسرائیل کے جن اسلامی ممالک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں، حالیہ چند برسوں میں ان اسلامی ممالک کی........

© Daily Jang


Get it on Google Play