حضرت علامہ اقبالؒ کے فرزند محترم ڈاکٹر جاوید اقبال کے ساتھ درویش کا ان کے آخری بیس بائیس برسوں کے دوران خاصا قریبی تعلق رہا، ان سے سوالات کرنے اور سیکھنے کے بہت سے مواقع میسر رہے، ڈاکٹر صاحب بڑے وسیع النظر اور محقق انسان تھے، ان سے کسی بھی نوع کی بحث کی جا سکتی تھی، وہ اخلاقی باتوں پر بھی منع کرنے کی بجائے اکثر حوصلہ بڑھاتے۔ انہوں نے اتنی ہمت بندھا دی تھی کہ اکثر ان کے سامنے حضرت علامہ اقبالؒ پر کئی حوالوں سے تنقیدی سوالات اٹھاتا تو انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ آپ اتنی بڑی شخصیت یا میرے والد محترم پر اتنی سخت تنقید کیوں کر رہے ہیں ، ان سے ہونیوالی گفتگو شاید اتنی اوپن محفل میں نوجوانوں کے ساتھ شیئر کرنا مناسب نہ ہو۔ ہلکی و بے ضرر باتیں کہنے میں کوئی قباحت نہیں، جیسے کہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں مذہب کا اتنا زیادہ استعمال کیوں کیا؟ ڈاکٹر صاحب کا جواب ہوتا کہ شاعری میں مذہب کا استعمال انہوں نے اپنے لوگوں کو اوپر اٹھانے یا ابھارنے کیلئے کیا۔ اقبال سمجھتے تھے کہ ہمارے لوگ مذہب کے نام پر زیادہ متحرک ہوتے ہیں ورنہ ذاتی زندگی میں اقبال کوئی ایسے خاص مذہبی نہیں تھے۔ اسی طرح جب ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب سے یہ پوچھتا کہ حضرت علامہ مغرب اور مغربی تہذیب کے اس قدر مخالف کیوں تھے؟ ان کا جواب ہوتا کہ وہ مغرب یا مغربی تہذیب کے ہرگز مخالف نہ تھے، وہ مغرب کے استعماری پہلو کے ناقد ضرور تھے اور وہ بھی زیادہ تر شاعری میں، اگر آپ ان کے خطبات Reconstruction Of Religious Thought In Islam کی اسٹڈی کریں تو آپکو انکی شاعری سے ایک مختلف اسلوب ملے گا اور وہ مغربی تہذیبوں خوبیوں کے قدردان اور جمہوریت کے مداح نظر آئینگے،مثلاًجب ترکی میں اتاترک کی قیادت میں ترکوں کا ماڈرن انقلاب آیا تو اقبالؒ نے سب سے بڑھ کر اس کی حمایت کی اور اپنے خطبات میں یہاں تک کہا کہ بالآخر دیگر تمام مسلم اقوام کو بھی ایک دن اٹھنا ہو گا اور قدامت پسندی و پس ماندگی کیخلاف آواز بلند کرتے ہوئے اتاترک جیسا انقلاب لانا ہو گا، اب خلافت کا حقدار فرد واحد نہیں ہونا چاہئے شخصی سلطانی یا حکمرانی کا خاتمہ کرتے ہوئے اتاترک نے یہ اتھارٹی منتخب اسمبلی کو منتقل کی ہے تو اس کی تحسین ہونی چاہئے۔

اے میرے نوجوانو! 1932ءمیں علامہ اقبال گول میز کانفرنس میں شرکت کی خاطر لندن گئے ہوئے تھے تو ننھے جاوید نے انہیں ایک خط لکھ کر گراموفون لانے کی فرمائش کی ، حضرت علامہ شاید وہ تو نہ لائے البتہ اپنے نورِ نظر کیلئے ایک معروف نظم لکھ بھیجی جس کا عنوان ہی ’’جاوید کے نام‘‘ ہے۔ اس میں اقبال نوجوانانِ قوم سے مخاطب نظر آتے ہیں۔

دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر

نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو

سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر

میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

قصۂ مختصر حضرت علامہ اقبالؒ کی یہ تمنا تھی کہ ہمارے نوجوان جو بھی کام کریں جس شعبے میں بھی جائیں ایک وقار کے ساتھ سخت محنت اور جانفشانی کے ساتھ کام کریں، وہ فرماتے ہیں ’’لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی‘‘ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے تاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند، اسی طرح وہ نوجوانوںسے کیا خوب فرماتے ہیں۔

ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے

خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے

عبث ہے شکوۂ تقدیر یزداں

تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

ایک جگہ طالب علم سے مخاطب ہوتے ہیں

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

آپ نوجوانوں کیلئے یہی اقبال اور فرزند ِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کا پیغام ہے لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا اور ڈاکٹر جاوید اقبال بھی اکثر مجھے یہ کہتے تھے کہ آپ اقبال کی شاعری کو لے کر نہ بیٹھ جایا کریں، ان کے خطبات پر زیادہ توجہ دیا کریں کیونکہ شاعری تو محض ایک نوع کا ہنگامی اُبال ہوتا ہے جبکہ دائمی حیثیت ان کے نثر پاروں کی ہے۔ اب آپ ان کی کتاب Reconstruction Of Religious Thought In Islamکے نام پر ہی غور فرمائیں۔ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ اسلام میں جو Religious Thought یا مذہبی فکر ہے اس کی درستی، مرمت یا Repairment ہونی چاہیے، آپ غور فرمائیں کسی بلڈنگ کی آپ نے درستی یا مرمت کروانی ہو تو آپ اس کیلئے Repairکا لفظ استعمال کرینگے لیکن اقبال Reconstruction کا لفظ بول رہے ہیں اب آپ لوگ مجھے یہ بتائیں کہ کسی بھی چیز کو Repair کروانے میں اور Reconstruct کروانے میں کیا فرق ہوتا ہے؟

علامہ اقبال دیگر تمام مذاہب اور ان کے بانیوں کا احترام کرتے تھے، انہوں نے اپنے کلام میں جہاں ہندوئوں کے شری رام چندر کوامام ہند قرار دیا وہیں گوتم بدھ کی عظمت کے گیت گائے اور افسوس کیا کہ

قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی

قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی

اسی طرح وہ بابا گرونانک جی کے متعلق فرماتے ہیں

پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو ایک مردِ کامل نے جگایا خواب سے

میرے بچو! یہ باتیں ختم نہ ہونگی اس لئے مزید بھاشن کی بجائے آپ لوگ سوالات پوچھئے تلخ سے تلخ سوال بھی اُٹھایئے۔

(پاکستان لاکالج کے نوجوانوں سے پیغامِ اقبال کے حوالے سے کی گئی تقریر)

نگراں وزیرِاعظم انوار الحق کاکڑ نے عالمی قوتوں کی غزہ میں جاری بربریت پر خاموشی کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان عالمی سطح پر فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا۔

نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے دورۂ سعودی عرب میں اردن کے ہم منصب ایمن الصفدی سے ملاقات کی۔

پاکستان ٹیم کے سابق آل راونڈر عبدالرزاق نے کہا ہے کہ بابراعظم کو خود کپتانی چھوڑ دینی چاہیے، ویرات کوہلی نے بھی کپتانی چھوڑ کر اچھا پرفارم کیا ہے۔

ملکی زرمبادلہ ذخائر 3 نومبر کو ختم ہوئے ہفتے میں 3.76 کروڑ ڈالر بڑھ کر 12 ارب 61 کروڑ ڈالر رہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) ترجمان نے کہا ہے کہ ایک اعلیٰ عہدیدار کی طرف سے انتخابات کی شفافیت مشکوک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) جہلم نے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کو 13 نومبر کو طلب کرلیا ہے۔

دوپہر میں قیلولہ کرنے والوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ بیٹھے رہنے سے بہتر دوپہر کو قیلولہ کرنا ہے۔

فلسطینی خاتون 5 گھنٹے کا پیدل سفر کرکے غزہ سے 14 کلو میٹر دور اپنے دو کمسن بچوں کے ساتھ منتقل ہوئی ہیں۔

اپنے بیان میں اسلم اقبال نے کہا کہ بھائی امجد اقبال کے سیاسی فیصلے سے کوئی تعلق نہیں،

لندن پولیس نے جنگ عظم کی یادگار سینو ٹاف کے قریب جانے پر پابندی عائد کر دی۔

بھارت کے معروف شاعر اور گیت نگار جاوید اختر نے فلم نگری کے بھائی جان سلمان خان سے متعلق تعریفی کلمات کہہ دیے۔

مسرورخان نے مزید کہا کہ گیس کی قیمت بڑھائے بغیر چارہ نہ تھا، گیس کمپنیاں خسارے کا شکار ہو رہی ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس مرکزی الیکشن آفس رازی روڈ کراچی میں ہوا۔

پولیس حکام کے مطابق قانونی کارروائی کے بعد شاہ زیب کی لاش ورثا کے حوالے کردی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر مولابخش چانڈیو نے کہا ہے کہ الیکشن آ رہے ہیں، بہت سی باتیں سننے کو ملیں گی۔

QOSHE - افضال ریحان - افضال ریحان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

افضال ریحان

10 9
11.11.2023

حضرت علامہ اقبالؒ کے فرزند محترم ڈاکٹر جاوید اقبال کے ساتھ درویش کا ان کے آخری بیس بائیس برسوں کے دوران خاصا قریبی تعلق رہا، ان سے سوالات کرنے اور سیکھنے کے بہت سے مواقع میسر رہے، ڈاکٹر صاحب بڑے وسیع النظر اور محقق انسان تھے، ان سے کسی بھی نوع کی بحث کی جا سکتی تھی، وہ اخلاقی باتوں پر بھی منع کرنے کی بجائے اکثر حوصلہ بڑھاتے۔ انہوں نے اتنی ہمت بندھا دی تھی کہ اکثر ان کے سامنے حضرت علامہ اقبالؒ پر کئی حوالوں سے تنقیدی سوالات اٹھاتا تو انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ آپ اتنی بڑی شخصیت یا میرے والد محترم پر اتنی سخت تنقید کیوں کر رہے ہیں ، ان سے ہونیوالی گفتگو شاید اتنی اوپن محفل میں نوجوانوں کے ساتھ شیئر کرنا مناسب نہ ہو۔ ہلکی و بے ضرر باتیں کہنے میں کوئی قباحت نہیں، جیسے کہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں مذہب کا اتنا زیادہ استعمال کیوں کیا؟ ڈاکٹر صاحب کا جواب ہوتا کہ شاعری میں مذہب کا استعمال انہوں نے اپنے لوگوں کو اوپر اٹھانے یا ابھارنے کیلئے کیا۔ اقبال سمجھتے تھے کہ ہمارے لوگ مذہب کے نام پر زیادہ متحرک ہوتے ہیں ورنہ ذاتی زندگی میں اقبال کوئی ایسے خاص مذہبی نہیں تھے۔ اسی طرح جب ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب سے یہ پوچھتا کہ حضرت علامہ مغرب اور مغربی تہذیب کے اس قدر مخالف کیوں تھے؟ ان کا جواب ہوتا کہ وہ مغرب یا مغربی تہذیب کے ہرگز مخالف نہ تھے، وہ مغرب کے استعماری پہلو کے ناقد ضرور تھے اور وہ بھی زیادہ تر شاعری میں، اگر آپ ان کے خطبات Reconstruction Of Religious Thought In Islam کی اسٹڈی کریں تو آپکو انکی شاعری سے ایک مختلف اسلوب ملے گا اور وہ مغربی تہذیبوں خوبیوں کے قدردان اور جمہوریت کے مداح نظر آئینگے،مثلاًجب ترکی میں اتاترک کی قیادت میں ترکوں کا ماڈرن انقلاب آیا تو اقبالؒ نے سب سے بڑھ کر اس........

© Daily Jang


Get it on Google Play