آج 16نومبر ہے، ہماری ملکی سیاست اور قومی تاریخ کا ایک اہم ترین دن جب آج سے 35سال قبل 1988ء کے قومی الیکشن میں شہید ِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کی عظیم صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے تیر کے انتخابی نشان پر بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ اپنے نام کی۔شہید بھٹو عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیا کرتے تھے تو پاکستان کے عوام نے بھی محترمہ کو بطور وزیراعظم منتخب کرکے انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کے عظیم اعزاز سے نوازا۔اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کا ایک روشن جمہوری چہرہ تھیں، چاروں صوبوں کی زنجیر کہلانے والی بے نظیر ملک کے ہر حصے میں یکساں مقبول تھیں، محترمہ بے نظیر تہذیبوں کے تصادم کورد کرکے مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں،وہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ تھیں، وہ سیاست کے میدان میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کی علمبردار تھیں، وہ اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ زندگی چند روز کی ہے، اسلئے ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ کچھ اچھا کرنا چاہیے، ہمیں لوگوں کے درمیان فاصلوں کو مٹانا چاہیے اور مثبت اندازِ فکر سے منفی قوتوں کو شکست دینی چاہیے۔ بی بی شہیدکی سب سے بڑی خواہش پاکستان سے غربت و افلاس کا خاتمہ کرکے ملک کو امن و ترقی کا گہوارہ بنانا تھی،وہ اپنے جلسوں میں کہا کرتی تھیں کہ’’میں شہید بھٹو کی بیٹی اپنے شہید بابا اور پاکستان کے عوام سے یہ وعدہ کرتی ہوں کہ برائی کے خلاف اور نیکی کی فتح کے لیے اپنی تمام توانائیاں وقف کر دوں گی اور مادرِ وطن کو مشکلات سے نجات دلانے کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گی‘‘۔تاہم عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار محترمہ بے نظیر کی حکومت کو ایک سال کے مختصر عرصے میں گرانے کیلئے کچھ قوتیں متحرک ہوگئیں اور پھراگلے سال اکتوبرکے اختتامی ایام میں تحریک عدم اعتماد اسپیکرقومی اسمبلی کو جمع کرادی گئی۔ بطور تاریخ کے طالب علم ،مجھے آج بھی 23اکتوبر سے یکم نومبر 1989کے دن یاد آتے ہیں جب ملکی سیاست پر بے یقینی کے گہرے بادل چھا گئے تھے، ایک طرف حکومت اور دوسری طرف اپوزیشن اتحاد اپنے ممبران قومی اسمبلی پر خصوصی توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے، ایسے حالات میں جب ایک اہم اتحادی جماعت نے حکومت چھوڑنے کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمے کی افواہیں زور پکڑ گئیں، امریکی حکومت کا یہ ذومعنی بیان بھی میڈیا کی زینت بنا کہ پاکستان میں جو بھی حکومت میں آئے گا، امریکہ اس سے تعاون کرے گا۔ تاہم محترمہ نے ان تمام کٹھن سیاسی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو پارلیمانی عمل کا حصہ اور اپوزیشن کا جمہوری حق قرار دیا،ایسے نازک موڑ پر انکے شوہر ِنامدار آصف علی زرداری ہر سیاسی محاذ پر سب سے آگے نظر آئے، جب صحافیوں نے اپوزیشن کی کامیابی کے امکانات کے حوالے سے سوال کیا تو زرداری صاحب کا یہ بیان اخبارات کی شہ سرخی بنا کہ شرط لگا سکتا ہوں کہ معاملہ برعکس ہوگا۔ اور پھر وقت نے انکی سیاسی بصیرت کو سچ ثابت کر دکھایا جب دو نومبر 1989ء کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی گئی تو محترمہ بے نظیر بھٹواپنی حکومت بچانے میں کامیاب قرار پائیں۔بلاشبہ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک عالمی سطح کی شخصیت تھیں، انہوں نے یہ اعلیٰ مقام اپنے سیاسی تدبر، جہد مسلسل، انتھک کاوش، دبنگ انداز اور عظیم قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت حاصل کیا،عالمی برادری بالخصوص امریکہ، یورپ اور مغربی ممالک کے مختلف ادارے اپنی رپورٹس میں محترمہ شہید کی جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور معیشت کے استحکام کیلئے خدمات کا اعتراف کرتے ہیں، محترمہ کے عالمی ممالک کے دوروں کے دوران وہاں کے مقامی اخبارات ان کیلئے تعریفی کلمات شائع کرتے تھے اور انہیں’’مشرق کی شہزادی‘‘ اور’’آئرن لیڈی‘‘قرار دیکر کر نمایاں کوریج دیتے تھے۔بطور خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے دور اقتدار میں خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے خصوصی اقدامات کیے۔ فرسٹ وومن بینک اور وومن پولیس اسٹیشن کا قیام، کراچی،کوئٹہ، لاہور، پشاور اور اسلام آبادکے پانچ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں وومن اسٹڈی سنٹرز کا قیام، سرکاری ملازمتوں میں خواتین کیلئے پانچ فیصد کوٹہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام، خواتین کی ترقی کیلئے وفاقی وزارت کا قیام، لیڈی کمپیوٹر سنٹرز کا قیام اور خواتین کیلئے قرضوںکے اجرا ء جیسے اقدامات انکی قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج اگر ہم ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں تو اسکا کریڈٹ قائداعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان کی کامیابی کو جاتا ہے، پاکستان میں دنیا کے دیگر جدید ممالک کی طرز پر طاقت کا سرچشمہ عوام کو بنانا اورملک کو متفقہ آئین دینے کا اعزاز ذولفقار علی بھٹو کو حاصل ہے تومحترمہ بے نظیر بھٹو کی پارلیمان کی بالادستی اور استحکامِ جمہوریت کیلئے انتھک جدوجہد کسی تعریف کی محتاج نہیں۔محترمہ کی پارلیمانی سیاست کا محور تحمل، امن اور برداشت کی پالیسی پر مبنی تھا، انہوں نے ناسازگار حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن کبھی ریاست اور ریاستی اداروں کو نقصان پہچانے کا سوچابھی نہیں۔انکی لیاقت باغ راولپنڈی میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے سامنے آخری تقریرنے قوم کو ایک نیا عزم و حوصلہ عطا کیا تھا،تاہم بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت سے پاکستان ایک عظیم راہنما سے محروم ہو گیا، یہ بلاشبہ ایک ناقابل تلافی قومی سانحہ تھا، جسکا سب سے بڑا نقصان پاکستان کوپہنچا، وہ وفاق پاکستان کی علامت اور عوام کی امنگوں کا مظہر تھیں، انکی شہادت پر ہر پاکستانی نے آنسو بہائے اور رنج و غم کا اظہار کیا۔ آج شہید رانی ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن انکاپرامن سیاسی وژن ہمیشہ پاکستان کی سیاست میں برداشت، رواداری اور مفاہمت کی اہمیت اجاگر کرتا رہے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

قرارداد میں غزہ میں کافی دنوں کے لیے فوری اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وقفوں اور راہداریوں کا مطالبہ کیا گیا تاکہ محصور علاقے میں عام شہریوں تک امداد پہنچائی جا سکے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں زیرتعلیم پاکستانی طلباء کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

اسرائیلی فوج نے کئی دن کے محاصرے کے بعد غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال پر دھاوا بول دیا، ڈاکٹروں نے مریضوں کو چھوڑ کر اسپتال سے نکلنے سے انکار کردیا۔

افضل خان، یاسمین قریشی، ناز شاہ اور خالد محمود نے قرارداد پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا، افضل خان اور یاسمین قریشی سمیت کئی شیڈو وزرا عہدے سے مستعفی ہوگئے۔

قومی فاسٹ بولر محمد عامر نے کہا ہے کہ ورلڈ کپ 2023ء کی بھارتی ٹیم میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی، وہ ایونٹ میں 10 میچز جیتا ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 2 روپے 4 پیسے فی لیٹر کمی کر دی گئی،

پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیجنڈ آل راونڈر عبدالرزاق نے کہا ہے کہ ہمیں غیر ملکی کوچ نہیں رکھنے چاہئے،پاکستانی ٹیم کی کپتانی بہت آسان ہے۔

پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے نئے کپتان شان مسعود نے کہا ہے کہ ہم سب مل کر پاکستان کو ریڈ بال کرکٹ میں آگے لے جائیں گے۔

خاتون نے الزام لگایا کہ گاؤں کے 4 لڑکوں نے بیٹے کو 6 ماہ قبل اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

ویرات کوہلی کے اس زبردست سنگ میل پر ٹینس کی دنیا کے لیجنڈری کھلاڑی نوواک جوکووچ بھی بھارتی بیٹر کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔

نیب ٹیم جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی سے تین روز تک تفتیش کرے گی۔

ویرات کوہلی نے اس اننگز کے دوران ٹنڈولکر کا ہی ایک میگا ایونٹ میں سب سے زیادہ رنز کرنے کا عالمی ریکارڈ توڑا۔

ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کپتان مقرر کے جانے کے بعد شاہین آفریدی نے بابر اعظم کیلئے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا۔

بحیرہ احمر میں امریکی جنگی جہاز نے یمن سے آنے والا ڈرون مار گرایا۔

ملزم کو برآمدگی کیلئے لے جایا جا رہا تھا، اس کےساتھیوں نے حملہ کر دیا۔

مقتولہ خاتون کا سابقہ شوہر کے ساتھ عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا۔

QOSHE - ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی - ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی

12 1
16.11.2023

آج 16نومبر ہے، ہماری ملکی سیاست اور قومی تاریخ کا ایک اہم ترین دن جب آج سے 35سال قبل 1988ء کے قومی الیکشن میں شہید ِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کی عظیم صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے تیر کے انتخابی نشان پر بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ اپنے نام کی۔شہید بھٹو عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیا کرتے تھے تو پاکستان کے عوام نے بھی محترمہ کو بطور وزیراعظم منتخب کرکے انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کے عظیم اعزاز سے نوازا۔اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کا ایک روشن جمہوری چہرہ تھیں، چاروں صوبوں کی زنجیر کہلانے والی بے نظیر ملک کے ہر حصے میں یکساں مقبول تھیں، محترمہ بے نظیر تہذیبوں کے تصادم کورد کرکے مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں،وہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ تھیں، وہ سیاست کے میدان میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کی علمبردار تھیں، وہ اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ زندگی چند روز کی ہے، اسلئے ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ کچھ اچھا کرنا چاہیے، ہمیں لوگوں کے درمیان فاصلوں کو مٹانا چاہیے اور مثبت اندازِ فکر سے منفی قوتوں کو شکست دینی چاہیے۔ بی بی شہیدکی سب سے بڑی خواہش پاکستان سے غربت و افلاس کا خاتمہ کرکے ملک کو امن و ترقی کا گہوارہ بنانا تھی،وہ اپنے جلسوں میں کہا کرتی تھیں کہ’’میں شہید بھٹو کی بیٹی اپنے شہید بابا اور پاکستان کے عوام سے یہ وعدہ کرتی ہوں کہ برائی کے خلاف اور نیکی کی فتح کے لیے اپنی تمام توانائیاں وقف کر دوں گی اور مادرِ وطن کو مشکلات سے نجات دلانے کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گی‘‘۔تاہم عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار محترمہ بے نظیر کی حکومت کو ایک سال کے مختصر عرصے میں گرانے کیلئے کچھ قوتیں متحرک ہوگئیں اور پھراگلے سال اکتوبرکے اختتامی ایام میں تحریک عدم اعتماد اسپیکرقومی اسمبلی کو جمع کرادی گئی۔ بطور تاریخ کے طالب علم ،مجھے آج بھی 23اکتوبر سے یکم نومبر 1989کے دن یاد آتے ہیں........

© Daily Jang


Get it on Google Play