کبھی پنجاب کو سیاسی مدوجزر کا مرکز خیال کیا جاتا تھا مگر اب بلوچستان سیاسی جوار بھاٹا کا محور سمجھاجاتا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور کوئٹہ میں بلوچستان عوامی پارٹی کو میدان سیاست میں مرغان بادنما کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ ان کی سمت سے ہوائوں کا رُخ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے لاہور میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحاد کا اعلان ہوا جبکہ ا ب میاں نواز شریف نے کوئٹہ پہنچ کر ’’باپ‘‘ کو گود لے لیا ہے۔ شاید آپ سب کو یاد ہو کہ جب مسلم لیگ (ن) زیر عتاب تھی تو تب بھی پراجیکٹ عمران کی کامیابی کیلئے سیاسی بندوبست کا آغاز بلوچستان سے کیا گیا تھا۔ جنوری 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ ثنااللہ زہر ی کیخلاف عدم اعتماد کی قرار داد لا کر حکومت گرائی گئی۔ مارچ 2018ء میں سینیٹ انتخابات کو سبوتاژ کیا گیا اور پھر 29مارچ 2018ء کو اسٹیبلشمنٹ کے ہیٹ سے اچانک بلوچستان عوامی پارٹی نمودار ہو گئی۔ تب پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ’’باپ‘‘ پر فریفتہ ہوئے جاتی تھیں اور مسلم لیگ (ن) کو جس طرح دیوار سے لگا دیا گیا اس پر کہا جا رہا تھا کہ ’’باپ تو باپ ہوتا ہے‘‘۔ مگر اب ’’باپ‘‘ کی وفاداریاں تبدیل ہو گئی ہیں تو نظر انداز کیے جانے والے سیاسی بچے تلملا رہے ہیں کیونکہ جسے جی ٹی روڈ کی پارٹی کہا جاتا تھا وہ اب تمام صوبوں میں قدم جما رہی ہے۔ بلوچستان کی بات کریں تو یہاں کم از کم 30سیاسی شخصیات نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ لسبیلہ ٹو سے بلوچستان اسمبلی کے سابق رُکن اور سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور جعفر آباد سے جہاندیدہ سیاستدان میر جان محمد خان جمالی اب مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکے ہیں۔ جب 12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے عنان اقتدار پر قبضہ کیا تو بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور نور محمد جمالی کے صاحبزادے میر جان محمد جمالی وزیر اعلیٰ تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے عہد میں جان محمد جمالی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے اور پھر 2006ء سے 2012ء تک مسلسل دو مرتبہ اس منصب پر براجمان رہے۔ 2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے مگر جب پارٹی پر برا وقت آیا تو بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے اور 2018ء کے الیکشن میں ’’باپ‘‘ کے ٹکٹ پر کامیابی کے بعد صوبائی اسمبلی کے اسپیکر بنائے گئے۔ ان کے بہنوئی فائق جمالی بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے ہیں۔ سابق صوبائی وزیر فائق جمالی کو جنرل پرویز مشرف کے دور میں احتساب عدالت نے 19جون 2001ء کو 14سال قید اور 6ملین روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ سزا مکمل ہونے کے بعد یہ اکتوبر 2013ء میں رہا ہوئے۔ ان کی نااہلی کا معاملہ سپریم کورٹ تک گیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 8جولائی2019ء کو فیصلہ دیا کہ چونکہ انہوں نے 29نومبر 2016ء کو جرمانہ ادا کیا اس لیے وہ 28نومبر2026ء تک الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ میر جان محمد جمالی کی ہمشیرہ راحت فائق جمالی بھی صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئیں اور جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی تو ثنا اللہ زہری کی کابینہ میں انہیں صوبائی وزیر بنایا گیا۔ نصیر آباد سے سابق رُکن صوبائی اسمبلی اور سابق وزیر محمد خان لہڑی اپنے بھائی غفور لہڑی سمیت مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے ہیں۔ محمد خان لہڑی گزشتہ دورِ حکومت جبکہ غفور لہڑی جام یوسف کی کابینہ میں صوبائی وزیر رہے۔ بارکھان سے سابق صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے ہیں۔ اسی طرح دُکی سے بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق رُکن صوبائی اسمبلی سردار مسعود علی لونی لورالائی سے سابق رُکن بلوچستان اسمبلی محمد خان طور اتمان خیل، زیارت کم ہرنائی سے نور محمد دُمڑ، صحبت پور سے سابق صوبائی وزیر میر سلیم احمد کھوسو اور مخصوص نشستوں پر سابق ایم پی اے ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہم شخصیات نے اپنا وزن مسلم لیگ (ن) کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ مثلاً سابق سینیٹر سردار فتح محمد حسنی، سابق ایم پی اے مجیب الرحمان محمد حسنی، میر علی حیدر محمد حسنی اور رامین ایم حسنی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے ہیں۔ سابق رُکن قومی اسمبلی میر دوستین ڈومکی جنہیں شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وفاقی وزیر بنایا گیا مگر موسم بدلتے ہی وہـ ’’باپ‘‘ کو پیارے ہو گئے، اب واپس مسلم لگ (ن) میں آ گئے ہیں۔ اسی طرح سابق وزیر داخلہ شعیب نوشیروانی جو اکبر بگٹی قتل کیس میں نامزد رہے، وہ بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے ہیں۔ سابق ایم پی اے میر عاصم کردسمیت کئی دیگر جماعتوں کے بعض الیکٹیلز بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے ہیں مثال کے طور پر بی این پی کی سابق ایم پی اے زینت شاہوانی اور نصیر آباد سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر شوکت علی بنگلزئی مسلم لیگ (ن) میں آ گئے ہیں۔ اگرچہ اس عمل میں پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کو بھی معقول حصہ ملا ہے مگر بالخصوص پیپلز پارٹی اس پر مطمئن نہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری اور سابق وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد کیچ ون سے ’’باپ‘‘کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ظہو بلیدی نے بھی ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ مگر پیپلز پارٹی کی قیادت چاہتی تھی کہ یہ پورے کا پورا ریوڑ انہیں دان کر دیا جاتا۔

کل جب یہ لوگ مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر ’’باپ‘‘ کے پاس جارہے تھے تو اس عمل کو وکٹیں گرانا کہاگیا اب یہ لوگ واپس آرہے ہیں تو ان پر ’’لوٹوں‘‘ کی پھبتی کیوں؟ معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ ’’باپ‘‘سے نہیں شکایت یہ ہے کہ ہمیں گود کیوں نہیں لیا گیا۔ بہر حال بلوچستان سے چلنے والی ہوائیں بتارہی ہیں کہ موسم بدل چکا ہے۔

برطانیہ میں کینسر کا علاج نہ ہونے سے مریض مرنے لگے، برطانوی میڈیا کے مطابق این ایچ ایس کے کینسر کے علاج کا ویٹنگ ٹائم بلند ترین سطح پر ہے۔

قرارداد میں غزہ میں کافی دنوں کے لیے فوری اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وقفوں اور راہداریوں کا مطالبہ کیا گیا تاکہ محصور علاقے میں عام شہریوں تک امداد پہنچائی جا سکے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں زیرتعلیم پاکستانی طلباء کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

اسرائیلی فوج نے کئی دن کے محاصرے کے بعد غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال پر دھاوا بول دیا، ڈاکٹروں نے مریضوں کو چھوڑ کر اسپتال سے نکلنے سے انکار کردیا۔

افضل خان، یاسمین قریشی، ناز شاہ اور خالد محمود نے قرارداد پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا، افضل خان اور یاسمین قریشی سمیت کئی شیڈو وزرا عہدے سے مستعفی ہوگئے۔

قومی فاسٹ بولر محمد عامر نے کہا ہے کہ ورلڈ کپ 2023ء کی بھارتی ٹیم میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی، وہ ایونٹ میں 10 میچز جیتا ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 2 روپے 4 پیسے فی لیٹر کمی کر دی گئی،

پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیجنڈ آل راونڈر عبدالرزاق نے کہا ہے کہ ہمیں غیر ملکی کوچ نہیں رکھنے چاہئے،پاکستانی ٹیم کی کپتانی بہت آسان ہے۔

پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے نئے کپتان شان مسعود نے کہا ہے کہ ہم سب مل کر پاکستان کو ریڈ بال کرکٹ میں آگے لے جائیں گے۔

خاتون نے الزام لگایا کہ گاؤں کے 4 لڑکوں نے بیٹے کو 6 ماہ قبل اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

ویرات کوہلی کے اس زبردست سنگ میل پر ٹینس کی دنیا کے لیجنڈری کھلاڑی نوواک جوکووچ بھی بھارتی بیٹر کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔

نیب ٹیم جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی سے تین روز تک تفتیش کرے گی۔

ویرات کوہلی نے اس اننگز کے دوران ٹنڈولکر کا ہی ایک میگا ایونٹ میں سب سے زیادہ رنز کرنے کا عالمی ریکارڈ توڑا۔

ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کپتان مقرر کے جانے کے بعد شاہین آفریدی نے بابر اعظم کیلئے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا۔

بحیرہ احمر میں امریکی جنگی جہاز نے یمن سے آنے والا ڈرون مار گرایا۔

ملزم کو برآمدگی کیلئے لے جایا جا رہا تھا، اس کےساتھیوں نے حملہ کر دیا۔

QOSHE - محمد بلال غوری - محمد بلال غوری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد بلال غوری

13 15
16.11.2023

کبھی پنجاب کو سیاسی مدوجزر کا مرکز خیال کیا جاتا تھا مگر اب بلوچستان سیاسی جوار بھاٹا کا محور سمجھاجاتا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور کوئٹہ میں بلوچستان عوامی پارٹی کو میدان سیاست میں مرغان بادنما کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ ان کی سمت سے ہوائوں کا رُخ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے لاہور میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحاد کا اعلان ہوا جبکہ ا ب میاں نواز شریف نے کوئٹہ پہنچ کر ’’باپ‘‘ کو گود لے لیا ہے۔ شاید آپ سب کو یاد ہو کہ جب مسلم لیگ (ن) زیر عتاب تھی تو تب بھی پراجیکٹ عمران کی کامیابی کیلئے سیاسی بندوبست کا آغاز بلوچستان سے کیا گیا تھا۔ جنوری 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ ثنااللہ زہر ی کیخلاف عدم اعتماد کی قرار داد لا کر حکومت گرائی گئی۔ مارچ 2018ء میں سینیٹ انتخابات کو سبوتاژ کیا گیا اور پھر 29مارچ 2018ء کو اسٹیبلشمنٹ کے ہیٹ سے اچانک بلوچستان عوامی پارٹی نمودار ہو گئی۔ تب پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ’’باپ‘‘ پر فریفتہ ہوئے جاتی تھیں اور مسلم لیگ (ن) کو جس طرح دیوار سے لگا دیا گیا اس پر کہا جا رہا تھا کہ ’’باپ تو باپ ہوتا ہے‘‘۔ مگر اب ’’باپ‘‘ کی وفاداریاں تبدیل ہو گئی ہیں تو نظر انداز کیے جانے والے سیاسی بچے تلملا رہے ہیں کیونکہ جسے جی ٹی روڈ کی پارٹی کہا جاتا تھا وہ اب تمام صوبوں میں قدم جما رہی ہے۔ بلوچستان کی بات کریں تو یہاں کم از کم 30سیاسی شخصیات نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ لسبیلہ ٹو سے بلوچستان اسمبلی کے سابق رُکن اور سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور جعفر آباد سے جہاندیدہ سیاستدان میر جان محمد خان جمالی اب مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکے ہیں۔ جب 12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے عنان اقتدار پر قبضہ کیا تو بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور نور محمد جمالی کے صاحبزادے میر جان محمد جمالی وزیر اعلیٰ تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے عہد میں جان محمد جمالی ڈپٹی........

© Daily Jang


Get it on Google Play