(گزشتہ سے پیوستہ )

اورینٹل کالج کی چندماہ کلاسیں گورنمنٹ کالج لاہور کی موجودہ عمارت میں ہوتی رہیں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ گورنمنٹ کالج کی انتظامیہ اس حوالے سے یہاں پر بھی کوئی ہسٹری تحریر کرے۔ اورینٹل کالج والوں کو چاہئے کہ وہ بھی اپنی تاریخی عمارت پر اُس حوالے سے کچھ معلومات درج کریں۔گورنمنٹ کالج لاہور کی اس وقت کی انتظامیہ نے کالج کے چند کمرے اورینٹل کالج کی کلاسوں کیلئے مختص کئے تھے ۔

گوروں نے 1928ء میں اورینٹل کالج میں اردو، پنجابی اور ہندی کے اساتذہ مقرر کئے تھے سنسکرت زبان کابہت بڑا خزانہ اورینٹل کالج کے پا س محفوظ ہے ۔1948ء میں ایم اے اردو، ادیب عالم، اور ادیب فاضل کی کلاسیں شروع کر دی گئی تھیں۔ ہمارے ہاں کبھی منشی فاضل کی بھی کلاسیں ہوتی تھیں۔ شائد لاہوریوں کو یقین نہ آئے گا کہ ایک زمانے میں اورینٹل کالج کے طلباء سے فیس نہیں لی جاتی تھی ۔اور پھر عزیزانِ من یہ کیا کمال کا کالج تھا کہ کسی دور میں یہاں پر طب یونانی اور آیو ویدک کی بھی تعلیم دی جاتی تھی اس کالج کا شیرانی ہال بڑا مشہور رہا ،وہاں پر کسی زمانے میں بڑی خوبصورت محفلیں اور مشاعرے بھی ہوتے رہے ہیں۔برصغیر میں مشرقی علوم و فنون کا یہ قدیم ترین ادارہ ہے اس کالج نے دیسی زبانوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ افسوس ہمارے ہاں آج اردو زبان کو تعلیمی اداروں اور معاشرے میں اس قدر منزلت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہ بڑا تاریخی کالج ہے اور اس کالج میں پنج پیرؒ کا ایک مزار ہے جو کالج میں مرکزی دروازے کے ساتھ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1912ء تک اورینٹل کالج کی کلاسیں گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصے میں ہوتی رہی ہیں آج سے چند برس قبل جب لاکالج نیو کیمپس منتقل ہوا تو لا کالج کی عمارت بھی اورینٹل کالج کو مل گئی ۔اگر ہم شہر لاہور کا جائزہ لیں تویہ بات سامنے آئے گی کہ لاہور میں سب سے زیادہ علم و ادب ،فن، دانشوروں کا علاقہ بھاٹی دروازہ رہا ہے ۔جس بھاٹی دروازے کو ہم نے اور ہمارے بڑوں نے دیکھا تھا آج اس بھاٹی دروازے کا کوئی نام ونشان نہیں ۔بھاٹی گیٹ چوکی (اب تھانہ ہے) سے ٹبی چوکی (اب تھانہ) کے درمیان کا یہ علاقہ بہت تاریخی اور نامور لوگوں کی بستی ہے دوسری طرف شاہی محلہ(بازار حسن، ہیرا منڈی) جس نے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم انڈسٹری کو کئی نامور ہیرو، ہیروئنز، گانے والے اور گانے والیاں دیں۔یہ علاقہ بھی بھرپور تاریخ رکھتا ہے ۔بھاٹی گیٹ کا گورنمنٹ کالج اور اورینٹل کالج سے ایک خاص تعلق رہا مگر افسوس کہ نہ تو گورنمنٹ کالج والوں نے اور نہ ہی اورینٹل کالج والوں نے اس بھاٹی دروازہ کے تحصیل بازار کو یاد رکھا اور نہ کبھی اس کا ذکر کیا۔

اردو ادب کی نامور ہستی مولانا محمد حسین آزاد دہلی کے حالات سے تنگ آکر لاہور میں بھاٹی دروازے کے تحصیل بازار میں رہائش پذیر ہوئے تھے اور پھر 1887ءمیں اورینٹل کالج میں شعبہ عربی کےاستاد اور سپرنٹنڈنٹ رہے اور کربلا گامے شاہ میں دفن ہوئے ۔شیخ سرعبدالقادر بھی کسی زمانے میں بھاٹی دروازے کے اندر موتی بٹے میں رہتے تھے لاہور میں کبھی بہت بٹے تھے ،شیخ سر عبدالقادر مسلمانوں کے پہلے انگریزی اخبار ’’پنجاب آبزرور‘‘ 1895ء میںکے ایڈیٹر بھی رہے ۔وہ اردو زبان کے بہت بڑے حامی تھے اسی بھاٹی گیٹ سے مشہور رسالہ ’’مخزن‘‘ بھی شائع ہوتا تھا۔ بھاٹی گیٹ میں ایک طرف ادبی محفلیں برپا ہوتی تھیںتو دوسری طرف حلوہ پوری اوردو گونگا پہلوان کی برفی بڑی مشہور تھی ہم نے ان دو گونگے پہلوانوں کو دیکھا ہے اور ان سے برفی لیکر کھائی ہےان دونوں بھائیوں میں سے کوئی ایک گونگا پہلوان دو بجے کے قریب اپنی برفی کا تھال لیکر بھاٹی گیٹ چوکی کے قریب ایک دکان کے باہر سڑک پر موڑھے کے اوپر تھال رکھ کر برفی فروخت کیا کرتا تھا اور صرف دو گھنٹے میں اس کی برفی فروخت ہو جاتی تھی اور یہ غالباً دو بھائی تھے اور دونوں گونگے تھے دوسری طرف بھا گوٹھا حلوائی کی حلوہ پوری پورے شہر میں مشہور تھی اس کی ایک آنکھ پتھر کی تھی، کیا دیسی گھی میں حلوہ پوری ہوتی تھی پھر کالے کی لسی !اب صرف یادیں رہ گئی ہیں۔ بھاٹی گیٹ میں کبھی مزمل کے پان بڑے مشہور تھے بھاٹی دروازے کے اندر جو قدیم دکانیں کھانے پینے کی تھیں وہ اب کم رہ گئی ہیں البتہ پچھلے 20،25 برسوں میں کئی نئی دکانیں آ چکی ہیںوہ دکانیں جو کبھی ہم نے آج سے پچاس /ساٹھ برس پہلے دیکھی تھیں اب وہ نظر نہیں آتیں۔

تو جناب بھاٹی گیٹ میں رہنے والی مشہور شخصیات کا ذکر ہو رہا تھا ۔پنجاب کی قانون ساز مجلس کے صدر سر شہاب الدین بھی بھاٹی دروازے میں محلہ سمیاں میں رہتے تھے اور ان کے مشورے پر بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاں نے ’’زمیندار‘‘ اخبار کرم آباد سے لاہور میں کٹڑی امیر چند ٹیکسالی دروازے سے اس کا اجرا کیا تھا یہ علاقہ بھی شاہی محلہ کے بالکل قریب واقع ہے شاہی محلہ میں آج بھی سرگنگا رام اور ملکہ ترنم نور جہاں کے مکان موجود ہیں۔دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سر گنگا رام کے اس مکان کی حالت بہت مخدوش ہے اوربانسوں کے ذریعے مکان کو سپورٹ دی گئی ہے اور مکان کسی بھی وقت گر سکتا ہے ۔دوسری طرف یہیں پر برصغیر کا قدیم ترین اور بعض حوالوں سے سینما پاکستان ٹاکیز (عزیز تھیٹر ، رائل ٹاکیز)ہے۔ اور تاریخی سینما کو چلانے والے دونوں بھائی فوت ہو چکے ہیں ۔ اب یہ سینما بے یارو مدد گار پڑا ہے البتہ اب یہاں پر کچھ پراسرار لوگ ضرور بیٹھے ہیں اور کٹڑی بھی ہے ہم جب یہاں پر پہنچے تو کچھ پٹھان ضرور موجود تھے اور کوئی بھی شخص صحیح بات بتانے کو تیار نہیں تھا یہ وہ تاریخی سینما ہے جہاں پر برصغیر کی پہلی بولتی فلم عالم آرا کی نمائش ہوئی تھی، دنیا میں لوگ قدیم اور تاریخی چیزوں کو محفوظ کرتے ہیں ان کی تاریخ مرتب کرتے ہیں ہمارے ہاں ایک خفیہ مافیا بیٹھا ہے جو ہر تاریخی عمارت کو گرانے کے چکر میں ہے ۔شاہی محلہ میں کبھی تین سینما تھے اب ایک بھی نہیں رہا۔منٹو پارک کے اندر منڈوے لگا کرتے تھے ہم نے بھی یہ منڈوے دیکھے ہیں پاکستان ٹاکیز لاہور کا پہلا سینما گھر تھا ہیرا منڈی چوک میں بھی ایک سینما تھا جہاں پر اب پلازہ بن چکا ہے ۔ (جاری ہے )

ان کا مزید کہنا تھا کہ حج کرائے میں کمی کی کوشش کر رہے ہیں، پاکستان میں کبھی ایسا نہیں ہوا آنے والا حج پچھلے حج سے سستا ہو۔

پولیس نے لٹنے والے سب انسپکٹر شوکت علی کی مدعیت میں تھانہ نوشہرہ ورکاں میں واقعہ کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق دہشتگردوں کا سرغنہ ابراہیم موسیٰ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی مطلوب تھا۔

اسرائیلی درخواستوں میں شامل 94 فیصد غزہ جنگ پوسٹوں کو ایپس پر سے ہٹا دیا گیا۔

اداکار سیف علی خان اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ اس وقت چٹھیاں گزارنے کےلیے سیاحتی مقام پر موجود ہیں جس کا انہوں نے نام ظاہر نہیں کیا۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد عامر نے کہا ہے کہ وسیم اکرم کا گیند پر جو کنٹرول تھا میں چاہتا ہوں مجھ میں بھی ہو۔

افغان طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لوگ پاکستان کے خلاف کہاں سے کارروائیاں کر رہے ہیں، نگراں وزیراعظم

ملزمان نے ان کے کپڑے بھی پھاڑ دیے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینئر مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ ہمیں مینڈیٹ ملا تو کراچی کو سنوار دیں گے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اجتماعی کوششوں سے پاکستان کو معاشی بحرانوں سے نکالیں گے،

سوشل میڈیا پر کچھ اسی طرح کی تصاویر وائرل ہورہی ہیں جن سے متعلق بتایا جارہا ہے کہ یہاں ایک ریسکیور نے کتے کے پلے کی جان بچالی۔

مقدمے میں نامزد تینوں پولیس اہلکار کراچی کے انڈسٹریل ایریا تھانے میں تعینات ہیں۔

نو منتخب صدر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر ملک سے بھارتی فوج کو بے دخل کریں گے۔

اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی سابق وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) احسن سلیم حیات تھے۔

اسرائیلی فوج کے غزہ میں حملے جاری ہیں، جبالیا کیمپ میں اقوام متحدہ کے اسکول پر فضائی حملہ کیا گیا۔

فائنل آج پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ڈیڑھ بجے نریندر مودی اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔

QOSHE - واصف ناگی - واصف ناگی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

واصف ناگی

7 0
19.11.2023

(گزشتہ سے پیوستہ )

اورینٹل کالج کی چندماہ کلاسیں گورنمنٹ کالج لاہور کی موجودہ عمارت میں ہوتی رہیں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ گورنمنٹ کالج کی انتظامیہ اس حوالے سے یہاں پر بھی کوئی ہسٹری تحریر کرے۔ اورینٹل کالج والوں کو چاہئے کہ وہ بھی اپنی تاریخی عمارت پر اُس حوالے سے کچھ معلومات درج کریں۔گورنمنٹ کالج لاہور کی اس وقت کی انتظامیہ نے کالج کے چند کمرے اورینٹل کالج کی کلاسوں کیلئے مختص کئے تھے ۔

گوروں نے 1928ء میں اورینٹل کالج میں اردو، پنجابی اور ہندی کے اساتذہ مقرر کئے تھے سنسکرت زبان کابہت بڑا خزانہ اورینٹل کالج کے پا س محفوظ ہے ۔1948ء میں ایم اے اردو، ادیب عالم، اور ادیب فاضل کی کلاسیں شروع کر دی گئی تھیں۔ ہمارے ہاں کبھی منشی فاضل کی بھی کلاسیں ہوتی تھیں۔ شائد لاہوریوں کو یقین نہ آئے گا کہ ایک زمانے میں اورینٹل کالج کے طلباء سے فیس نہیں لی جاتی تھی ۔اور پھر عزیزانِ من یہ کیا کمال کا کالج تھا کہ کسی دور میں یہاں پر طب یونانی اور آیو ویدک کی بھی تعلیم دی جاتی تھی اس کالج کا شیرانی ہال بڑا مشہور رہا ،وہاں پر کسی زمانے میں بڑی خوبصورت محفلیں اور مشاعرے بھی ہوتے رہے ہیں۔برصغیر میں مشرقی علوم و فنون کا یہ قدیم ترین ادارہ ہے اس کالج نے دیسی زبانوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ افسوس ہمارے ہاں آج اردو زبان کو تعلیمی اداروں اور معاشرے میں اس قدر منزلت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہ بڑا تاریخی کالج ہے اور اس کالج میں پنج پیرؒ کا ایک مزار ہے جو کالج میں مرکزی دروازے کے ساتھ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1912ء تک اورینٹل کالج کی کلاسیں گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصے میں ہوتی رہی ہیں آج سے چند برس قبل جب لاکالج نیو کیمپس منتقل ہوا تو لا کالج کی عمارت بھی اورینٹل کالج کو مل گئی ۔اگر ہم شہر لاہور کا جائزہ لیں تویہ بات سامنے آئے گی کہ لاہور میں سب سے زیادہ علم و ادب ،فن، دانشوروں کا علاقہ بھاٹی دروازہ رہا ہے ۔جس بھاٹی دروازے کو ہم نے اور ہمارے بڑوں نے دیکھا تھا آج........

© Daily Jang


Get it on Google Play