’’یہ نصف صدی کا قصہ ہےدوچاربرس کی بات نہیں‘‘زمانہ طالبعلمی کی بات ہے،آتش جواںتھا 1969میںایوب خان کیخلاف تحریک اپنے عروج پر تھی پورے ملک میں آغا شورش کاشمیری کی شعلہ بیانی کا چرچا تھا ان سے ملاقات کی خواہش شیخ رشید احمد (عوامی مسلم لیگ) اور مجھے لاہور لے آئی میری اور شیخ رشید احمد کی آغا شورش کاشمیری ؒسے 1969ء میں پہلی ملاقات میکلو روڈلاہور میں واقع ہفت روزہ چٹان کے دفتر ہوئی، ہم نے آغاشورش کاشمیری ؒ کولیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کی دعوت دی جسے انہوں نےبخوشی قبول کر لیا ۔آغا شورش کا شمیریؒ سے جو تعلق خاص قائم ہو ا وہ ان کی وفات کے بعد نصف صدی گزرنے کے بعد بھی قائم ہے ،ہر سال ان کی یاد مناتے ہیں گو ان کا تعلق مجلس احرار سے تھا اور ہمارا مجلس احرار سے کوئی لینا دینا نہیں تھا لیکن آغا شورش نے جس جرات و استقامت سے ختم نبوت کی وکالت کی ان کا انداز ’’تحریر و خطابت ‘‘ ہمیں انکی طرف کھینچ لایا۔ آغا شورش کاشمیری برصغیرپاک و ہند کے عظیم صحافی ، خطیب اور شاعرتو تھے ہی ، ملک بھر میں ان کی خطابت کا طوطی بولتا تھا،لوگ انکی دلآویز تقریر سننے کیلئے پہروں جلسہ گاہ میں بیٹھے رہتے نصف صدی گزر گئی ہے ان جیسا آتش نوا مقرر پیدا نہیں ہوا ۔آغا شورش کاشمیری کوقیام پاکستان سے قبل لڑکپن ہی میں جیل ہو گئی اور پھر یہ سلسلہ عمر بھر جاری رہا آغا صاحب اکثر کہا کرتے ان کچھ زندگی ریل میں کٹی اور جیل میں گزری ،ان آزمائشوں نے انہیں اس حد تک لاغر و کمزور کر دیا کہ 64سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ آغا شور شورش کا شمیریؒ دینی و سیاسی اجتماعات کی رونق تھے بڑے بڑے علما کرام و مشائخ عظام ان کو اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے کیلئے مدعو کرنےکیلئے قطار میں کھڑے رہتے تھے، آغا شورش کاشمیری ؒ کی وفات پر مجلس احرار کے قائد مولانا تاج محمد نے ایک بار کہا کہ ’’ مسعود شورش ،مشہود شورش اور مبشر شورش کیلئےان کے عظیم والد کی وفات کا صدمہ ہے جب کہ ہمارے جلسوں کی رونق ہی ختم ہو گئی ہے ‘ سید عطا شاہ بخاریؒ اپنے دور کے بہت بڑے خطیب تھے جب آغا صاحب نے ان کی موجودگی میں تقریر کی تو سید عطا اللہ شاہ بخاری نے ان کی تقریر سن کر بے اختیار شورش کا شمیری کو ’’جواں عطا اللہ شاہ‘‘ کا خطاب دے دیا۔نام تو ان کاآغا عبدالکریم تھا الفت تخلص اپنایا لیکن مزاج اور خطاب میں شورش نے انہیں شورش کاشمیری کے نام سے مشہور کر دیا ، انہوں نے اردو ادب و صحافت کو نئے اسلوب سے روشناس کیا اور تین سو سے زائد اصلاحات متعارف کرائیں جس کا جوش ملیح آبادی ،ساحر لدھیانوی اور احمد ندیم قاسمی نے اپنی تحریروں میں ذکر کیا، آغا صاحبؒ کا شمار بر صغیر کے ان رہنمائوں میں ہوتا ہے جنہوں قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے میں کلیدی کر دار ادا کیا مسئلہ ختم نبوت ہویا توہین رسالت،آغا شورش کا شمیری ؒناموس رسالت ﷺکے تحفظ شمشیر برہنہ بن کرمیدان میں نکل آتے تھے وہ حق و صداقت کے اس قافلہ کے سالار تھے جو صدیوں سے زمینی خدائوں اور جابر حکمرانوں کی حاکمیت کو چیلنج کرتا آرہا تھا اسی روش نے کئی بار جیل یاترا پر مجبور کیا ۔ سیاست میں بڑے بڑےلیڈروںنے جیلیں کاٹیں بھوک ہڑتالیں کیں لیکن شورش کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہوا۔ 1974ء میں تحریک ختم نبوت میں حکومت نے ہفت روزہ چٹان بند کر دیا اور آغا شورش کا شمیری ؒ کو جیل ہو گئی تو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے، آغا شورش کا شمیریؒ کی جن کے ساتھ ان کی دوستی تھی ، ہفت روزہ چٹان کی بندش سے ہونیوالے نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے اپنے پرائیویٹ سیکریٹری سعید افضل کے ہاتھ50ہزار روپے ان کے گھر بھجوا دیئے۔ آغا شورش کا شمیری ؒ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے صاحبزادے آغا مسعود شورش کے ہاتھوں یہ بیگ واپس وزیر اعظم ہائوس بھجوا دیا ان کے ہمراہ سینئر قانون دان اصغر حسین شاہ ایڈووکیٹ گئے تاکہ یہ رقم وزیر اعظم ہائوس میں دوبارہ سعید افضل کے پاس پہنچ جائے ۔ آغا شورش کا شمیری ؒ نے پوری زندگی اپنے قلم کا سودا نہیں کیا۔ 1974ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو قادیانیوں کو اقلیت قرار دلانے بارے تذبذب کا شکار تھے وہ اس بات سے خوفزدہ دکھائی دیتے کہ اگر انہوں نےقادیانیوں کو اقلیت قرار دے دیا تو وہ اپنے موت کے پروانہ پر دستخط کرینگے لیکن یہ آغا شورش کا شمیریؒ تھے جنہوں مولانا تاج محمود کے ہمراہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرکے جھولی پھیلا کر نہ صرف ان کا حوصلہ بڑھایا بلکہ تحفظ ختم نبوت کا قانون منظور کرنے نبی اکرم ﷺ کی شفاعت کی نوید سنائی ذوالفقار علی بھٹو کے پاس بخشش کیلئے یہی توشہ کافی ہے ۔آغاصاحب کی کچھ تقاریر میرے پاس محفوظ ہیںان کی تحریر اور تقریر دونوں مسحور کن تھیں۔جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق ادا کرنا کوئی ان سے سیکھےانہوں نے کم و بیش28کتب تحریر کیں ،اب یہ کتب نایاب ہیں ایک دن آغا شورش کاشمیریؒ سے کتب کے بارے میں بات ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ’’ انسان فانی ہے لیکن کتب اسے زندہ رکھتی ہیں۔ آغا شورش کاشمیریؒ کو عشق رسو ل ﷺ نے بڑے بڑے علما کرام اور ،مشائخ عظام سے زیادہ عزت و احترام دیا ہے وہ پیر صاحب گولڑہ شریف سید مہر علی شاہ سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے ان دونوں کے درمیان عشق رسولﷺ قدرِ مشترک تھا وہ پیر مہر علی شاہؒ کے اس کلام

کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں کا ذکر اپنی تحریرو تقریر میں کرتے تھے 24اے دی مال ۔ شورش کا شمیری کا ڈیرہ تھا ان کی زندگی میں شاید ہی ملک کی کوئی نامور شخصیت ہو جس نے ان کے پاس حاضری نہ دی ہو، ان کی وفات سے یہ ڈیرہ ایسا اجڑا کہ اس کے وارث بھی غیر ممالک میں جا بسے۔ سال بعد کوئی تقریب کرنے والا بھی کوئی نہیں کاش، کوئی شورش ثانی جنم لے لیتا ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حج کرائے میں کمی کی کوشش کر رہے ہیں، پاکستان میں کبھی ایسا نہیں ہوا آنے والا حج پچھلے حج سے سستا ہو۔

پولیس نے لٹنے والے سب انسپکٹر شوکت علی کی مدعیت میں تھانہ نوشہرہ ورکاں میں واقعہ کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق دہشتگردوں کا سرغنہ ابراہیم موسیٰ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی مطلوب تھا۔

اسرائیلی درخواستوں میں شامل 94 فیصد غزہ جنگ پوسٹوں کو ایپس پر سے ہٹا دیا گیا۔

اداکار سیف علی خان اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ اس وقت چٹھیاں گزارنے کےلیے سیاحتی مقام پر موجود ہیں جس کا انہوں نے نام ظاہر نہیں کیا۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد عامر نے کہا ہے کہ وسیم اکرم کا گیند پر جو کنٹرول تھا میں چاہتا ہوں مجھ میں بھی ہو۔

افغان طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لوگ پاکستان کے خلاف کہاں سے کارروائیاں کر رہے ہیں، نگراں وزیراعظم

ملزمان نے ان کے کپڑے بھی پھاڑ دیے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینئر مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ ہمیں مینڈیٹ ملا تو کراچی کو سنوار دیں گے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اجتماعی کوششوں سے پاکستان کو معاشی بحرانوں سے نکالیں گے،

سوشل میڈیا پر کچھ اسی طرح کی تصاویر وائرل ہورہی ہیں جن سے متعلق بتایا جارہا ہے کہ یہاں ایک ریسکیور نے کتے کے پلے کی جان بچالی۔

مقدمے میں نامزد تینوں پولیس اہلکار کراچی کے انڈسٹریل ایریا تھانے میں تعینات ہیں۔

نو منتخب صدر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر ملک سے بھارتی فوج کو بے دخل کریں گے۔

اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی سابق وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) احسن سلیم حیات تھے۔

اسرائیلی فوج کے غزہ میں حملے جاری ہیں، جبالیا کیمپ میں اقوام متحدہ کے اسکول پر فضائی حملہ کیا گیا۔

فائنل آج پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ڈیڑھ بجے نریندر مودی اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔

QOSHE - نواز رضا - نواز رضا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

نواز رضا

14 15
19.11.2023

’’یہ نصف صدی کا قصہ ہےدوچاربرس کی بات نہیں‘‘زمانہ طالبعلمی کی بات ہے،آتش جواںتھا 1969میںایوب خان کیخلاف تحریک اپنے عروج پر تھی پورے ملک میں آغا شورش کاشمیری کی شعلہ بیانی کا چرچا تھا ان سے ملاقات کی خواہش شیخ رشید احمد (عوامی مسلم لیگ) اور مجھے لاہور لے آئی میری اور شیخ رشید احمد کی آغا شورش کاشمیری ؒسے 1969ء میں پہلی ملاقات میکلو روڈلاہور میں واقع ہفت روزہ چٹان کے دفتر ہوئی، ہم نے آغاشورش کاشمیری ؒ کولیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کی دعوت دی جسے انہوں نےبخوشی قبول کر لیا ۔آغا شورش کا شمیریؒ سے جو تعلق خاص قائم ہو ا وہ ان کی وفات کے بعد نصف صدی گزرنے کے بعد بھی قائم ہے ،ہر سال ان کی یاد مناتے ہیں گو ان کا تعلق مجلس احرار سے تھا اور ہمارا مجلس احرار سے کوئی لینا دینا نہیں تھا لیکن آغا شورش نے جس جرات و استقامت سے ختم نبوت کی وکالت کی ان کا انداز ’’تحریر و خطابت ‘‘ ہمیں انکی طرف کھینچ لایا۔ آغا شورش کاشمیری برصغیرپاک و ہند کے عظیم صحافی ، خطیب اور شاعرتو تھے ہی ، ملک بھر میں ان کی خطابت کا طوطی بولتا تھا،لوگ انکی دلآویز تقریر سننے کیلئے پہروں جلسہ گاہ میں بیٹھے رہتے نصف صدی گزر گئی ہے ان جیسا آتش نوا مقرر پیدا نہیں ہوا ۔آغا شورش کاشمیری کوقیام پاکستان سے قبل لڑکپن ہی میں جیل ہو گئی اور پھر یہ سلسلہ عمر بھر جاری رہا آغا صاحب اکثر کہا کرتے ان کچھ زندگی ریل میں کٹی اور جیل میں گزری ،ان آزمائشوں نے انہیں اس حد تک لاغر و کمزور کر دیا کہ 64سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ آغا شور شورش کا شمیریؒ دینی و سیاسی اجتماعات کی رونق تھے بڑے بڑے علما کرام و مشائخ عظام ان کو اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے کیلئے مدعو کرنےکیلئے قطار میں کھڑے رہتے تھے، آغا شورش کاشمیری ؒ کی وفات پر مجلس احرار کے قائد مولانا تاج محمد نے ایک بار کہا کہ ’’ مسعود شورش ،مشہود شورش اور مبشر شورش کیلئےان کے عظیم........

© Daily Jang


Get it on Google Play