میں کسی قسم کی نصیحت آپ کے گوش گزار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ کسی قسم کا بھاشن دینا نہیں چاہتا ۔ مشورے اور ہدایتیں دینا ایک قسم کی بیماریوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ جب تک کسی کو لیکچر نہیں دیتے تب تک آپ بے چین رہتے ہیں۔ کسی پہلو آرام سے بیٹھ نہیں سکتے ۔ رات رات بھر کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ تمام تر کوششوں کے باوجود سو نہیں سکتے۔جب آپ بھاشن دے چکے ہوتے ہیں، یعنی لیکچر دے چکے ہوتے ہیں، تب آپ ذہنی طور پر سکون محسوس کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی بیماریاں اس قدر عام ہوچکی ہیں کہ آپ ان بیماریوں کو بیماری نہیں سمجھتے ۔آپ ان بیماریوں کو اپنی زندگی کا اٹوٹ انگ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اسقدر وثوق سے میں نے یہ باتیں آپ کو اسلئے بتلائی ہیں کہ میں خود اس نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہوتا رہا ہوں۔ اب یہ مت سوچئے گا کہ اس نوعیت کی بیماریاں صرف سینئر سٹیزن کو لگتی ہیں۔ اس طرح کی بدبخت بیماری عمر کا لحاظ نہیں کرتی۔پہلی بار مجھے یہ بیماری عالم شباب میں لگی تھی۔ کالج میں پڑھتا تھا۔ آج تک میں اس بدبخت بیماری کے اسباب سے نابلد ہوں۔ ایک علمی اور ادبی فنکشن میں وزیر تعلیم مہمان خصوصی ہوکر تشریف لارہے تھے۔ منسٹر صاحب میٹرک فیل تھے، ہمارے کالج کے پی ایچ ڈی پر نسپل نے اتنی بار منسٹر صاحب کو خوش آمدید کہا کہ میں حیران رہ گیا۔ تاریخ میں شاید ہی کسی پرنسپل نے میٹرک فیل وزیر تعلیم کو ایک کروڑ مرتبہ خوش آمدید کہا ہوگا!! وہیں سے اس بیماری کے جراثیم مجھے لگ گئے۔ میں کھیل کھلاڑیوں اور اسٹیج ڈراموں کا دلدادہ نہ جانے کس چکر میں پڑ گیا۔ میںنے لائبریری کا رخ کیا ۔ڈکشنریاں کھول کر بیٹھ گیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ لفظ خوش آمدید پہلی مرتبہ کس نے استعمال کیا تھا؟ اس لفظ کا مقصد اور مطلب کیاتھا؟ لائبریری میں رکھی ہوئی بیس پچیس ڈکشنریاں میں نے کھنگال ڈالیں، مگر بے سود ۔تمام ترکوششوں کے باوجود یہ معلوم کرنے میں ناکام رہا کہ لفظ خوش آمدید کا موجد کو ن تھا۔ پہلی مرتبہ یہ لفظ کب استعمال ہواتھا اور آج تک میٹرک فیل وزیر تعلیم کے ادب اور تعظیم کیلئے کتنی مرتبہ استعمال ہوچکا ہے؟مجھے لائبریری میں غرق دیکھ کر کسی نے اپنے ایک جملہ سے مجھے چونکا دیاتھا۔ کسی نے کہا تھا، ’’ لگتا ہے میاںکہ تم نے محقق بننے کی ٹھان لی ہے۔‘‘

میں اتنا بڑا الزام اپنے سر لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ میں لائبریری سے ایسے الوپ ہوا کہ پھر کبھی میں نے لائبریری کا رخ نہیں کیا۔ مگر ایک بات آپ کے گوش گزار کردوں کہ یہ مردود بیماری کبھی بھی دوبارہ آپ پر حملہ کر سکتی ہے۔ اور وہ بیماری مجھ پر حملہ کرچکی ہے۔ اور وہ بھی بڑھاپے میں۔

طرح طرح کے الفاظ آپ روزانہ سنتے ہیں۔ میں بھی آپ کی طرح روزانہ مختلف نوعیت کے الفاظ سنتا ہوں۔مگر آپ کی طرح میں بھی ہر بار نیا لفظ سن کر کسی قسم کی سوچ میں غلطاں نہیں ہوتا۔ پرانی بیماریوں کے جراثیم جانے کے باوجود اپنی باقیات ہمارے وجود میں چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسے میں پرانے امراض کے جراثیم پھر سے کروٹ بدل کر جاگ جاتے ہیں اور آپ کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیتے ہیں،میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوچکا ہے اور میں ایک پرانے مرض میں مبتلا ہوچکا ہوں۔ لفظ خوش آمدید کی طرح میں نے ایک لفظ جمہوریت پچھلے پچھتر برسوں میں اتنی مرتبہ سنا ہے کہ مجھے ہرلفظ جمہوریت سنائی دیتا ہے۔ برگر خرید کرکھانے بیٹھتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں جمہوریت کھارہا ہوں۔ لسی مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ مگر لسی پیتے ہوئے مجھے لگتا ہے جیسے میں لسی نہیں بلکہ جمہوریت پی رہا ہوں۔کریلے خریدتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ میں کریلے نہیں بلکہ جمہوریت خرید رہا ہوں۔یہاں ہر ایک بات آپ کو بتانا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ اس بیماری کے معالج ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ اس بیماری کا علاج آپ کو خود کرنا پڑتا ہے۔میں نے سوچا کہ سب سے پہلے مجھے یہ پتہ چلناچاہیے کہ جمہوریت اصل میں ہے کیا کہ جس کا دنیا بھر میں بول بالا ہے۔ کھوج درکھوج سے پتہ چلا کہ اگر ایک معاشرے کی ایک سوفیصد آبادی نوے گدھوں اور دس گھوڑوں پر مامور ہے، تو پھر جمہوریت کے تقاضوں کے تحت نوے گدھے حکومت کے قانونی حقدار ہونگے اور دس فیصد گھوڑوں کو کبھی حکومت نہیں مل سکتی۔ یہ جمہوریت کا فیصلہ ہے۔ معاشرے میں جو لوگ کم تعداد میں ہوں گے وہ لوگ زیادہ تعداد میں رہنے والوں کے رحم وکرم پرہوں گے۔ یہ جمہوریت کا بنیادی اصول ہے۔ اقلیت میں زندگی بسر کرنے والوںکا اختیار نہیں کہ جوان کے جی میں آئے وہ بولیں، وہ لکھیں اور معاشرے کے اندھے ، بہرے اور گونگوں تک دل کی بات پہنچائیں۔اگر آپ نے کبھی ایسا کیا تو آپ کے گلے میںکبھی ختم نہ ہونے والی مصیبتوں کا سلسلہ ڈال دیا جائے گا۔ہر بات کہنے اور لکھنے کا حق صرف اکثریت کو ملا ہوا ہے۔ وہ جو چاہیں لکھ سکتے ہیں، بول سکتے ہیں۔ حکومت ان کی ہوتی ہے۔ حاکمیت ان کی چلتی ہے۔میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتا ہوں۔ آج تک میں اس ایک شخص کو تلاش کرنے میں ناکام رہا ہوں جس نے لفظ جمہوریت ایجاد کیا تھا۔

خبر رساں اداروں کے مطابق اوپن اے آئی کی جانب سے کمپنی کے بانیوں میں سے ایک سیم آلٹمین کو واپس نہ لینے پر ادارے میں افراتفری مچ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہے تو توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے ایران سے استفادہ حاصل کرسکتا ہے۔

حکام کے مطابق گاڑی میں کالے شیشوں کے استعمال اور اسلحہ کی نمائش پر بھی پابندی ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ مرمتی کام آج صبح 9 سے رات 9 بجے تک جاری رہے گا۔

اسرائیل نے جنوبی افریقا سے اپنا سفیر واپس بلالیا، اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ سفیر کو مشاورت کے لیے بلایا ہے۔

کنوینئر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان خالد مقبول صدیقی کی والدہ انتقال کر گئی، نماز جنازہ آج ادا کی جائیگی۔

لاہور ہائیکورٹ نے سیالکوٹ موٹروے زیادتی کیس کے مجرم عابد ملہی اور شفقت بگا کی سزائے موت کے خلاف اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کردیں، دو رکنی ببنچ آج سماعت کرے گا۔

ذرائع کے مطابق یہ اضافہ اکتوبر 2023 کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مانگا گیا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ آمنہ ملک نے تسلیم کیا ان کے جسٹس سردار طارق پر لگائے الزامات میں صداقت نہیں۔

زلفی بخاری نے خاور مانیکا کو بد دیانت انسان کہہ دیا۔

برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت 2027 میں ورلڈکپ بھی 10 ٹیموں کا کروانا چاہتا ہے۔

ہولینڈ سے تعلق رکھنے والی کک (باورچن) کو اپنے دوستوں کے لیے تیار کردہ بھنگ ملا، اسپیس کیک تیار کرنا مہنگا پڑ گیا اور انکے خلاف مقدمہ کر دیا گیا۔

امریکی اداکارہ و ماڈل نرگس فخری جنھوں نے بھارت کی ہندی فلموں میں کام کرکے کافی شہرت کمائی انھوں نے حال ہی میں اداکار رنبیر کپور اور شاہد کپور کے ساتھ ڈیٹنگ کے افواہوں کی تردید کی ہے۔

سوشل میڈیا پر مچل مارش کی ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جسے آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز نے انسٹاگرام پر شیئر کیا تھا۔

آسٹریلیا نے ورلڈکپ کے فائنل میں بھارت کو 6 وکٹوں سے شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔

کنوینئر ایم کیو ایم خالد مقبول صدیقی کی والدہ انتقال کرگئیں۔ ایم کیو ایم کے ترجمان کے مطابق خالد مقبول صدیقی کی والدہ کی نمازجنازہ کل بعد نماز ظہر ادا کی جائے گی۔

QOSHE - امر جلیل - امر جلیل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

امر جلیل

24 1
21.11.2023

میں کسی قسم کی نصیحت آپ کے گوش گزار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ کسی قسم کا بھاشن دینا نہیں چاہتا ۔ مشورے اور ہدایتیں دینا ایک قسم کی بیماریوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ جب تک کسی کو لیکچر نہیں دیتے تب تک آپ بے چین رہتے ہیں۔ کسی پہلو آرام سے بیٹھ نہیں سکتے ۔ رات رات بھر کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ تمام تر کوششوں کے باوجود سو نہیں سکتے۔جب آپ بھاشن دے چکے ہوتے ہیں، یعنی لیکچر دے چکے ہوتے ہیں، تب آپ ذہنی طور پر سکون محسوس کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی بیماریاں اس قدر عام ہوچکی ہیں کہ آپ ان بیماریوں کو بیماری نہیں سمجھتے ۔آپ ان بیماریوں کو اپنی زندگی کا اٹوٹ انگ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اسقدر وثوق سے میں نے یہ باتیں آپ کو اسلئے بتلائی ہیں کہ میں خود اس نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہوتا رہا ہوں۔ اب یہ مت سوچئے گا کہ اس نوعیت کی بیماریاں صرف سینئر سٹیزن کو لگتی ہیں۔ اس طرح کی بدبخت بیماری عمر کا لحاظ نہیں کرتی۔پہلی بار مجھے یہ بیماری عالم شباب میں لگی تھی۔ کالج میں پڑھتا تھا۔ آج تک میں اس بدبخت بیماری کے اسباب سے نابلد ہوں۔ ایک علمی اور ادبی فنکشن میں وزیر تعلیم مہمان خصوصی ہوکر تشریف لارہے تھے۔ منسٹر صاحب میٹرک فیل تھے، ہمارے کالج کے پی ایچ ڈی پر نسپل نے اتنی بار منسٹر صاحب کو خوش آمدید کہا کہ میں حیران رہ گیا۔ تاریخ میں شاید ہی کسی پرنسپل نے میٹرک فیل وزیر تعلیم کو ایک کروڑ مرتبہ خوش آمدید کہا ہوگا!! وہیں سے اس بیماری کے جراثیم مجھے لگ گئے۔ میں کھیل کھلاڑیوں اور اسٹیج ڈراموں کا دلدادہ نہ جانے کس چکر میں پڑ گیا۔ میںنے لائبریری کا رخ کیا ۔ڈکشنریاں کھول کر بیٹھ گیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ لفظ خوش آمدید پہلی مرتبہ کس نے استعمال کیا تھا؟ اس لفظ کا مقصد اور مطلب کیاتھا؟ لائبریری میں........

© Daily Jang


Get it on Google Play