ملک میں گزشتہ چند سال سے جو سیاسی عدم استحکام جاری ہے الیکشن کی حتمی تاریخ کا اعلان ہونے کی وجہ سے اس میں کسی حد تک کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔ تاہم عام انتخابات کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے مابین تلخیوں اور بیان بازی میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔ سیاسی قائدین ملک کو درپیش حقیقی معاشی مسائل کو پسِ پشت ڈال کر عوام کو سبز باغ دکھانے اور اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے مجموعی سیاسی ماحول کو پراگندہ کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اس روش کو ذہن میں رکھتے ہوئے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ ماضی میں کبھی بھی الیکشن ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا ۔ اس سیاسی طرز عمل کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نئی حکومت تشکیل پاتے ہی اپوزیشن اُس کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر دیتی ہے اور اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت بھی قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہو جاتی ہے۔

موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں الیکشن سے پہلے کم از کم معاشی ایجنڈے پر متفق ہوں تاکہ عام انتخابات کے بعد جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے وہ پوری دلجمعی سے اس پر عمل درآمد کر سکے۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم شہباز شریف متعدد مرتبہ سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں بلکہ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ پیشکش اس وقت کی تھی جب وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرتھے۔اسی طرح پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی ملک کو درپیش معاشی مسائل کو حل کرنے کیلئے مشترکہ سیاسی حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت پر متعدد مرتبہ آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی قیادت نے بھی حالیہ آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری سے قبل آئی ایم ایف حکام سے ملاقاتوں میں سیاسی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی تھی۔ علاوہ ازیں دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی بظاہر اس آئیڈیے سے کوئی بنیادی اختلاف سامنے نہیں آیا۔ اس لئے یہ بہترین وقت ہے کہ سیاسی قیادت عام انتخابات سے قبل میثاق معیشت پر دستخط کر کے قوم کو یہ اعتماد دلائے کہ مستقبل میں ملک کے معاشی معاملات کو سیاسی مفادات کی خاطر تختہ مشق نہیں بنایا جائے گا۔

اس سلسلے میں ایوان ہائے صنعت و تجارت اور تمام بڑی کاروباری ایسوسی ایشنز کے نمائندوں پر مشتمل کونسل بھی بنائی جا سکتی ہے جو اتفاق رائے سے تجاویز تیار کر کے ان پر عملدرآمدکیلئے روڈ میپ واضح کرے۔ سیاسی جماعتیں بھی اس میں اپنے منشور کے مطابق اہداف اور ان کے حصول کا طریقہ کار طے کریں۔ اس طرح ایک ایسی متفقہ قومی دستاویز تیار کی جا سکتی ہے جسے آئندہ اسمبلی کے ذریعے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے اٹھارہویں ترمیم کی طرح آئین کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا تاریخی اقدام ہو گا جس پر ہماری آنے والی نسلیں بھی ہمیں یاد رکھیں گی اور موجودہ سیاسی قیادت کا نام بھی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئےامر ہو جائے گا کہ انہوں نے قومی تقاضوں کا ادارک کرتے ہوئے مستقبل کیلئے ایک ایسا لائحہ عمل یا طریقہ کار طے کر دیا ہے جس پر چل کر پاکستان کے معاشی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل ملک میں نئے سیاسی کلچر کے پنپنے کا آغاز ثابت ہو گا اور امید کی جا سکتی ہے کہ اس کی بدولت ہماری سیاسی جماعتوں میں وہ برداشت اور رواداری فروغ پائے گی جو جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کیلئےضروری ہے۔ علاوہ ازیں میثاق معیشت پر سیاسی اتفاق رائے اس لئے بھی ضروری ہے کہ چند ماہ قبل تک پاکستان کے سر پر دیوالیہ ہونے کی تلوار لٹک رہی تھی اور معاشی غیر یقینی کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ارباب اقتدار اور صاحب الرائے طبقات مستقبل کے معاشی روڈ میپ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور سیاسی جماعتوں کو بھی یہ باور کروائیں کہ میثاق معیشت کے بغیر پاکستان کا آگے بڑھنا ممکن نہیں ۔اس سلسلے میں کاروباری برادری اور مختلف سیکٹرز کی صنعتی تنظیموں کے عہدیداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور جن جن سیاسی جماعتوں سے ان کی ورکنگ ریلیشن شپ موجود ہے انہیں اس بات کا احساس دلایا جانا چاہیے کہ ملک کی بقاء کیلئے متفقہ معاشی ایجنڈا تیار کرنا ضروری ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہر سیاسی جماعت کے مستقبل سے متعلق معاشی عزائم کا عوام کو الیکشن سے پہلے ہی ادراک ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں سیاسی جماعتوں کو اس بات کا بھی اندازہ ہو جائے گا کہ عوام اور کاروباری طبقہ اب ان کے’’ہوائی دعووں‘‘پر اعتبار کرنے کی بجائے عملی اقدامات کے ثمرات کا منتظر ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ گزشتہ چند سال کے معاشی حالات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ اب ہم کسی قسم کے سیاسی یا معاشی تجربات کے متحمل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت یا سیاستدان تن تنہا معاشی محاذ پر کوئی کرامت دکھا سکتا ہے۔ دنیا میں جتنے ممالک بھی ترقی کی منزل سے ہمکنار ہوئے ہیں ،اس کی بنیادی وجہ طویل المدت معاشی پالیسیاں اور ان پر بغیر کسی تعطل کے عملدرآمد ہے۔ اس لئے ملک اور قوم کی بہتری اسی میں ہے کہ سیاسی قیادت، اسٹیبلشمنٹ اورکاروباری طبقات میثاق معیشت کو عملی شکل دینے میں اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں بھارت کی شکست کے بعد عوام اور میڈیا نے اپنی ٹیم سے منہ موڑ لیا ہے، ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے نئے کپتان سوریا کمار یادیو کی پریس کانفرنس میں صرف 2 صحافی موجود تھے۔

چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں آج جوڈیشل کمپلیکس میں ہوگی۔

الیکشن کمیشن آج’’پی ٹی آئی بلے کے نشان کیلئے اہل ہے کہ نہیں‘‘ بارے میں فیصلہ آج سنائیگا ۔

اعلامیے کے مطابق دونوں محکموں کے سربراہ الگ الگ ہونگے، ملک کے تمام کمرشل ایئرپورٹس پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی کا حصہ ہونگے۔

اسرائیلی حملوں میں اب تک 14 ہزار 532 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جس میں 6 ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔

کینیڈا امریکا کی سرحد پر نیاگرا فالز کے قریب رینبو برج پر گاڑی میں دھماکے میں 2 افراد ہلاک ہوگئے۔

ضلع راجوری کے حملے میں بھارتی ایلیٹ فورس کے 3 اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین سائفر کیس کی سماعت کریں گے۔

اسرائیلی فوج نےاب بھی الشفااسپتال پر قبضہ کیا ہوا ہے، غزہ کی تباہ کن صورتحال بدترین رُخ اختیار کر چکی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینر مصطفٰی کمال نے کہا کہ اتنے سالوں میں کئے گئے وعدے سچ ہوتے تو پاکستان کے یہ حالات نہیں ہوتے۔ بلاول پورے پاکستان میں جلسے کر کے کہتے ہیں کہ ہمیں وزیر اعظم بناؤ۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق سیریز پاکستان کرکٹ بورڈ کی درخواست پر ملتوی کی گئی ہے۔

شاعر نے الفاظ کے روپ میں ایسا سمویا کہ جس نے سنا، پڑھا یا دیکھا ، وہ جذباتی ہوگیا۔

وزارت بین الصوبائی رابطہ نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو خط لکھ دیا۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق 13 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

ویڈیو میں اس کارخانے میں پاپے بنانے کے مکمل عمل کو دیکھا جاسکتا ہے، تاہم یہاں پر صفائی ستھرائی کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔

QOSHE - چوہدری سلامت علی - چوہدری سلامت علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

چوہدری سلامت علی

8 21
23.11.2023

ملک میں گزشتہ چند سال سے جو سیاسی عدم استحکام جاری ہے الیکشن کی حتمی تاریخ کا اعلان ہونے کی وجہ سے اس میں کسی حد تک کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔ تاہم عام انتخابات کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے مابین تلخیوں اور بیان بازی میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔ سیاسی قائدین ملک کو درپیش حقیقی معاشی مسائل کو پسِ پشت ڈال کر عوام کو سبز باغ دکھانے اور اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے مجموعی سیاسی ماحول کو پراگندہ کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اس روش کو ذہن میں رکھتے ہوئے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ ماضی میں کبھی بھی الیکشن ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا ۔ اس سیاسی طرز عمل کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نئی حکومت تشکیل پاتے ہی اپوزیشن اُس کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر دیتی ہے اور اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت بھی قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہو جاتی ہے۔

موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں الیکشن سے پہلے کم از کم معاشی ایجنڈے پر متفق ہوں تاکہ عام انتخابات کے بعد جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے وہ پوری دلجمعی سے اس پر عمل درآمد کر سکے۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم شہباز شریف متعدد مرتبہ سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں بلکہ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ پیشکش اس وقت کی تھی جب وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرتھے۔اسی طرح پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی ملک کو درپیش معاشی مسائل کو حل کرنے کیلئے مشترکہ سیاسی حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت پر متعدد مرتبہ آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی قیادت نے بھی حالیہ آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری سے قبل........

© Daily Jang


Get it on Google Play