کچھ لوگ ستاروں کی طرح ہوتے ہیں کچھ سیاروں کی طرح، یعنی کچھ لوگ خود روشن ہوتے ہیں اور کچھ مستعار روشنی سے چمکتے ہیں، مثلاً عمران خان خود روشنی کا منبع ہیں، ان کی ساری چمک دمک ان کی تمام وجوہاتِ شہرت و بدنامی ان کی اپنی ذات سے پھوٹتی ہیں، جب کہ ان کے اردگرد درجنوں ایسے سیارہ صفت اصحاب محوِگردش رہے ہیں جو فقط عمران خان کی کرنوں میں نہانے کے باعث منور ہوئے۔ غالباً یہ معاملہ عمران خان تک محدود نہیں ہے، بل کلنٹن کی مونیکا لیونسکی سے علامہ اقبال کے علی بخش تک، تاریخ کے ہر نمایاں کردار کے گرد کچھ ایسا ہی ہالہ دکھائی دیتا ہے۔

عمران خان کے گرد سیارے تو بیسیوں تھے لیکن یہاں صرف ایک جُھنڈ کا تذکرہ مقصود ہے جس کا مرکزہ بشریٰ بی بی سے تاباں ہے۔ عمران خان سے تعلق کے باعث بشریٰ بی بی تو چمکیں لیکن یہ روشنی کا سفر یہاں تھما نہیں، انہوں نے عمران خان سے ملنے والی مستعار روشنی کو آگے ادھار پر دے دیا، اور یہ سلسلہ فرح گوگی اور احسن جمیل گجر صاحب تک جا پہنچا۔ بہرحال ہمیں اس کہکشاں کی یاد خاور مانیکا کے ایک انٹرویو سے آئی، جسے دیکھتے ہوئے پہلا خیال یہ آیا کہ یہ کون صاحب ہیں اور ٹی وی پر کیا کر رہے ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ اگر خاور مانیکا کی بشریٰ بی بی سے شادی نہ ہوتی یا طلاق نہ ہوتی، تو انہیں یہ انٹرویو کبھی نہ دینا پڑتا۔ایک انٹرویو خاور مانیکا کو چند سال پہلے عمران اور بشریٰ بی بی کی شادی پر بھی دینا پڑا تھا، اُس وقت وہ ’بشریٰ بی بی‘ ہوا کرتی تھیں، اب خاور مانیکا انہیں ’پنکی‘ کہہ کر یاد کر رہے تھے، یعنی جس نام سے وہ پچاس سال گھر اور شہر میں پکاری جاتی تھیں، اُس وقت وہ روئے زمین کی سب سے ’پاک بی بی‘ ہوا کرتی تھیںجب کہ اب وہ قابلِ تقلید کردار کی حامل نظر نہیں آ رہی تھیں، اسی طرح عمران خان پہلے انٹرویو میں حق کے متلاشی ایک بھلے آدمی قرار دیے گئے تھے جب کہ خاور مانیکا کے تازہ انٹرویو میں وہ ایک نقب زن کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ دو انٹرویوز کے تضادات تو بہت سے ہیں مگر ایک قدر مشترک بھی نظر آئی، یعنی دونوں کو ’انٹرویو بالجبر‘ کہا جا سکتا ہے۔اور ایسے انٹرویو پر بات کرنا بدذوقی کےذمرے میں آئے گا۔لیکن ان انٹرویوز سے منسلک کچھ مسائل ایسے ہیں جن پر ضرور بات ہونا چاہیے۔

لیڈر کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی، یہ بات تو طے ہے۔ یہ جو سیاست دان ہوتے ہیں انہوں نے ایک پرسونا اوڑھا ہوتا ہے، ایک ماسک پہنا ہوتا ہے، اور یہ ماسک کبھی کبھی نجی زندگی میں اتر جاتا ہے، تو کیا جب ہمارے راہ نما کا اصلی چہرہ نظر آ رہا ہو تو ہم منہ پھیر کر کھڑے ہو جائیں؟ اُس کا اصلی چہرہ دیکھنے سے انکار کر دیں کیوں کہ اس سے ہمارا تراشا ہوا بُت پاش پاش ہو جائے گا؟ اگر عوامی زندگی میں لیڈر عورتوں پر تشدد کے خلاف خُطبے دیتا ہو، اور اپنی خواب گاہ میں بیوی پر اکثر ہاتھ اٹھاتا ہو، تو کیا ہمیں اسے اس کا نجی معاملہ قرار دے کر آگے بڑھ جانا چاہیے؟ ایک سیاست دان جو ہر دوسری تقریر میں ہمیں یاد دلاتا ہو کہ اس ملک میں تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور اس کے گھر میں دس بارہ سال کے بچے ملازم ہوں تو کیا ہمیں ’نجی‘ معاملہ کہہ کر چپ ہو جانا چاہیے۔ حضرات، یہ آپ کے لیڈر کی منافقت ہے نجی معاملہ نہیں۔یہ درست ہے کہ شادی نجی معاملہ ہے، مگر شادی کے بارے جھوٹ بولنا نجی معاملہ نہیں ہے، تینوں شادیوں پر تین دفعہ قوم سے جھوٹ بولنا نجی معاملہ ہے؟ ہم جس لیڈر کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں، در اصل ہم اُس کے ماسک کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں، وہ زلف و چشم و لب دراصل ماسک کے خدوخال ہوتے ہیں، اور اگر ہمیں وہ ماسک ہٹا کر اس شخص کی اصل صورت دیکھنے کا موقع مل رہا ہو تو کیا ہم اسے نجی معاملہ قرار دے کر آنکھیں بند کر لیں؟ لیڈر کی خلوت بارے معلومات سے اگر آپ کے لیڈر کے قامت میں اضافہ نہیں ہوتا تو ایک دفعہ پھر غور کر لیں ، آخر یہ آپکےاور آپ کے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔

دوسری بات ہے مذہب اور روحانیت کے لبادے میں اپنے ـ’نیک ارادوں‘ کی تکمیل۔ آپ ذرا مقامِ مُرشِد کی رفعتوں کا اندازہ لگائیے۔ مرید تو بندگی و خود سپردگی کا دوسرا نام ہے، مرشد روح ہے، مرشد جسم نہیں ہے۔ جب آپ کا جسم بیمار ہوتا ہے آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور جب آپ کی روح علیل ہوتی ہے تو آپ مرشد تلاش کرتے ہیں۔اب آپ ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑائیے کہ ہم نے اس خالص روحانی رشتے کا کیا حال کر دیا ہے، یو ٹیوب پر درجنوں وڈیوز ہیں جن میں جعلی مرشد اپنی سادہ لوح مریدنیوں سے انتہائی گرم جوش معانقے کر رہے ہیں، نیم برہنہ خواتین کے جِن نکالے جا رہے ہیں، اور نہ جانے کیا کیا، اور یہ سب کچھ مذہب کی چھتری تلے کیا جا رہا ہے۔ آپ اس سے اندازہ لگائیے کہ چند سال پہلے ان صاحب نے اپنی تیس سالہ شادی توڑنے کی روحانی وجوہات بیان کی تھیں۔ حال آں کہ اسلامی تاریخ میں آج تک کسی نے طلاق کی روحانی وجوہ پر اصرار نہیں کیا۔ طلاق کی وجوہات تو ہمیشہ جسمانی یا دنیاوی ہوا کرتی ہیں، اور دنیاوی معاملات پر دنیاوی زبان میں ہی بات کرنا چاہیے۔

ہمارے ہاں منظر دھندلانے کیلئے مذہب کوبہترین سموک مشین سمجھا جاتا ہے، اس سے عوام کو کنفیوزکرنے میں آسانی ہوتی ہے اور اپنے اعمال کی دنیاوی وجوہات چھپانے میں سہولت ہوتی ہے۔ خدارا ’رحونیت‘کے نام پر دھوکہ مت کھایئے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں آج جوڈیشل کمپلیکس میں ہوگی۔

الیکشن کمیشن آج’’پی ٹی آئی بلے کے نشان کیلئے اہل ہے کہ نہیں‘‘ بارے میں فیصلہ آج سنائیگا ۔

اعلامیے کے مطابق دونوں محکموں کے سربراہ الگ الگ ہونگے، ملک کے تمام کمرشل ایئرپورٹس پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی کا حصہ ہونگے۔

اسرائیلی حملوں میں اب تک 14 ہزار 532 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جس میں 6 ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔

کینیڈا امریکا کی سرحد پر نیاگرا فالز کے قریب رینبو برج پر گاڑی میں دھماکے میں 2 افراد ہلاک ہوگئے۔

ضلع راجوری کے حملے میں بھارتی ایلیٹ فورس کے 3 اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین سائفر کیس کی سماعت کریں گے۔

اسرائیلی فوج نےاب بھی الشفااسپتال پر قبضہ کیا ہوا ہے، غزہ کی تباہ کن صورتحال بدترین رُخ اختیار کر چکی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینر مصطفٰی کمال نے کہا کہ اتنے سالوں میں کئے گئے وعدے سچ ہوتے تو پاکستان کے یہ حالات نہیں ہوتے۔ بلاول پورے پاکستان میں جلسے کر کے کہتے ہیں کہ ہمیں وزیر اعظم بناؤ۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق سیریز پاکستان کرکٹ بورڈ کی درخواست پر ملتوی کی گئی ہے۔

شاعر نے الفاظ کے روپ میں ایسا سمویا کہ جس نے سنا، پڑھا یا دیکھا ، وہ جذباتی ہوگیا۔

وزارت بین الصوبائی رابطہ نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو خط لکھ دیا۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق 13 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

مرغی فروشوں نے ہڑتال کرتے ہوئے اپنی دوکانیں بھی بند کردی اور مطالبہ کیا کہ جبری ریٹ لسٹ ختم کرکے ظالمانہ جرمانے واپس لیے جائیں۔

ویڈیو میں اس کارخانے میں پاپے بنانے کے مکمل عمل کو دیکھا جاسکتا ہے، تاہم یہاں پر صفائی ستھرائی کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔

QOSHE - حماد غزنوی - حماد غزنوی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

حماد غزنوی

8 1
23.11.2023

کچھ لوگ ستاروں کی طرح ہوتے ہیں کچھ سیاروں کی طرح، یعنی کچھ لوگ خود روشن ہوتے ہیں اور کچھ مستعار روشنی سے چمکتے ہیں، مثلاً عمران خان خود روشنی کا منبع ہیں، ان کی ساری چمک دمک ان کی تمام وجوہاتِ شہرت و بدنامی ان کی اپنی ذات سے پھوٹتی ہیں، جب کہ ان کے اردگرد درجنوں ایسے سیارہ صفت اصحاب محوِگردش رہے ہیں جو فقط عمران خان کی کرنوں میں نہانے کے باعث منور ہوئے۔ غالباً یہ معاملہ عمران خان تک محدود نہیں ہے، بل کلنٹن کی مونیکا لیونسکی سے علامہ اقبال کے علی بخش تک، تاریخ کے ہر نمایاں کردار کے گرد کچھ ایسا ہی ہالہ دکھائی دیتا ہے۔

عمران خان کے گرد سیارے تو بیسیوں تھے لیکن یہاں صرف ایک جُھنڈ کا تذکرہ مقصود ہے جس کا مرکزہ بشریٰ بی بی سے تاباں ہے۔ عمران خان سے تعلق کے باعث بشریٰ بی بی تو چمکیں لیکن یہ روشنی کا سفر یہاں تھما نہیں، انہوں نے عمران خان سے ملنے والی مستعار روشنی کو آگے ادھار پر دے دیا، اور یہ سلسلہ فرح گوگی اور احسن جمیل گجر صاحب تک جا پہنچا۔ بہرحال ہمیں اس کہکشاں کی یاد خاور مانیکا کے ایک انٹرویو سے آئی، جسے دیکھتے ہوئے پہلا خیال یہ آیا کہ یہ کون صاحب ہیں اور ٹی وی پر کیا کر رہے ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ اگر خاور مانیکا کی بشریٰ بی بی سے شادی نہ ہوتی یا طلاق نہ ہوتی، تو انہیں یہ انٹرویو کبھی نہ دینا پڑتا۔ایک انٹرویو خاور مانیکا کو چند سال پہلے عمران اور بشریٰ بی بی کی شادی پر بھی دینا پڑا تھا، اُس وقت وہ ’بشریٰ بی بی‘ ہوا کرتی تھیں، اب خاور مانیکا انہیں ’پنکی‘ کہہ کر یاد کر رہے تھے، یعنی جس نام سے وہ پچاس سال گھر اور شہر میں پکاری جاتی تھیں، اُس وقت وہ روئے زمین کی سب سے ’پاک بی بی‘ ہوا کرتی تھیںجب کہ اب وہ قابلِ تقلید کردار کی حامل نظر نہیں آ رہی تھیں، اسی طرح عمران خان پہلے انٹرویو میں حق کے........

© Daily Jang


Get it on Google Play