ہمارے ملک کو مختلف نوعیت کے بے شمار سنگین مسائل کا سامنا ہے ان مسائل میں ہماری معاشی بد حالی اور ابتری سر فہرست ہے ۔وطن عزیز قرضوں کے بوجھ تلے بری طرح دب چکا ہے۔ ملکی ادارے سنگین خسارے کا شکار ہیں۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے ۔لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان ہاتھوں میں تعلیمی اسناد پکڑے با عزت روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور بد قسمتی سے اس صورتحال میں بہتری کی بجائے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر نئی حکومت اقتدار سنبھالتے ہی خزانہ خالی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ذمہ داری پچھلی حکومت پر ڈال دیتی ہے پچھلے چالیس پچاس سال سے بس یہی سب کچھ چل رہا ہے اور قرض در قرض لے کر اس ملک کو چلایا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کو اس دلدل میں پھنسانے کا ذمہ دار کون ہے؟ اس اندھیری اور بھیانک رات کی کالک کس نے سجائی ؟اس سوال کا ایک آسان اور سادہ جواب یہ ہے کہ من حیث القوم ہم سبھی اس کے ذمہ دار ہیں ہم سب نے ملکر اس ملک کو بد ترین معاشی بحران سے دوچار کیا ہے۔ کبھی ڈیفالٹ کرنے کی باتیں ہوتی ہیں اور کبھی عالمی مالیاتی اداروں سے سخت شرائط کے باوجود قرض لے کر اس کو ایک بڑی کامیا بی کے طور پر دُھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ غیر ملکی قرض حاصل کر لینا ہی ایک کامیاب معاشی پالیسی کا ثبوت اور دلیل بن کر رہ گیا ہے۔ تباہ حال بڑے بڑے قومی اداروں کو اسکریپ کے طور پر اونے پونے داموں فروخت کرنے کے عمل کو نجکاری کا نام دے کر ڈھول پیٹتے ہوئے کریڈٹ لیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس جانب کیوں نہیں سوچا جاتا کہ آخر ہم اس معاشی بد حالی کی دلدل میں کیونکر پھنسے ہیں اور یہ کہ اس سے نکلنے کی کیا تدبیریں ہیں۔ قرضے لے کر ملک چلانا کون سی دانشمندی ہے اور جب گھر تباہ و برباد ہو جائے تو گھر کی قیمتی اشیاء کو فروخت کرکے گزارا کرنا کون سی عقلمندی ہے۔ اس ملک کی معاشی تباہی کی طویل داستان کا ہر باب اس قدر سنگین اور خوف ناک ہے کہ دل دہل جاتا ہے۔ انگریز صاحب بہادر نے یہاں سے جاتے وقت کم و بیش بائیس ہزار افراد میں جاگیریں تقسیم کی تھیں اور آج وہی خاندان اس ملک کے وسائل پر قابض اور سیاہ و سفید کے بلاشرکت غیرے مالک چلے آرہے ہیں ۔کیا کوئی عوام کو یہ بتانا پسند کرے گا کہ ماضی میں کن کن شرفاء نے کتنے قرضے اور کس عوض معاف کرائے ہیں ؟

سرکاری اداروں کی تباہی کی ایک بڑی وجہ میرٹ سے ہٹ کر بھرتیاں ہے ۔اگر کسی دفتر میں ایک ملازم کی ضرورت ہو وہاں پچا س افراد بھرتی کر دیے جائیں تو اس ادارے کا تباہ ہو جانا بنتا ہے کچھ ایسا ہی ہمارے سرکاری اداروں میں بھی ہوا ہے درجنوں غیر ضروری سرکاری ادارے نظر آتے ہیں جن کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کی کوئی کارکردگی ہے سیاسی اشیر باد کی بنا پر احساسِ تحفظ اور عدم احتسابی نے سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ پرائیویٹ ادارے تو کامیا بی سے چلتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں مگر سرکاری ادارے ہمیشہ خسارے میں ہی نظر آتے ہیں کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ وہ تمام ادارے جن کے سربراہوں کی تنخواہ پچاس ساٹھ لاکھ روپے ہے، وہ سب کے سب خسارے میں چل رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سرکا ری ادارے کا کوئی physicalوالی وارث نہیں ہوتا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی اجناس اور اشیائے خوردونوش کی قلت اور ان کی امپورٹ کا عمل حد درجہ باعث تکلیف و افسوس ہے۔ زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار نے برے طریقے سے زراعت کے شعبے کو گزند پہنچائی ہے جبکہ دوسری جانب دنیا ریگستانوں میں زراعت کو فروغ دے رہی ہے۔ ہماری ایکسپورٹس میں بتدریج کمی اور امپورٹس میں اضافہ ہو رہا ہے لوکل انڈسٹری کو تحفظ دینے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کئی ممالک جو ہم سے بہت پیچھے تھے وہ آج ہم سے ترقی کے میدان میں بہت آگے نکل چکے ہیں ان کی کامیابی کا راز دیانت داری اور ایمانداری میں پنہاں ہے۔ ہمارے ہاںکرپشن،اقربا پروری اور بد انتظامی نے ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے لوگ رشوت اور بد عنوانی کو جرم اور برائی محسوس ہی نہیں کرتے ملک کے لیے قربانی دینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ پیٹ پر پتھر باندھنے کی گھنٹی بج چکی ہے یہ ملک ہم سے اپنا حق مانگ رہا ہے اس ملک کا حق ہے اس پر رحم کیا جائے اب معیشت کی بحالی کے لیے کھوکھلے اور روایتی نعرے ،وعدے اور دعوے نہیں چلیں گے۔ قوم اب عملی اقدامات ہوتے دیکھنا چاہتی ہے ۔ہمارے سامنے ایسے ممالک کی مثالیں موجود ہیں کہ جنگ عظیم دوئم میں تباہ برباد ہو جانے والے ممالک محض چند ہی دہائیوں میں اپنے پائوں پر دوبارہ کھڑے ہو گئے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے نیک نیتی سے درست سمت میں پالیسیاں بنائیں ہماری سیاسی جماعتوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معیشت کی بحالی کے لیے ایک میثاق پر متفق ہو جائیں اور عہد کریںکہ وہ اپنے سیاسی مفادات کو ملکی مفاد پر قربان کریں گی۔ مراعات یافتہ طبقاتی نظام کے خاتمہ کا یہی وقت ہے کیا ہی اچھا ہو کہ صدرِ مملکت ، وزیرِ اعظم، گورنر، وزرائے اعلیٰ اور اراکینِ پارلیمنٹ بغیر مراعات کے اپنی خدمات انجام دیں۔ ملکی معیشت کی بحالی کیلئے ضروری ہے کہ ٹیکس کے نظام کو مئوثر اور مربوط بنایا جائے، سرکاری دفاتر میں کفایت شعاری کو نافذ کیاجائے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

چارسدہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاق کو صوبوں کے حقوق پر ڈاکا نہیں ڈالنے دیں گے۔

پاکستانی ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل اپنی اہلیہ کے ساتھ بگھی میں سوار ہوکر بکنگھم پیلس پہنچے جہاں شاہ چارلس نے ہائی کمشنر اور ان کی اہلیہ کا خیر مقدم کیا۔

رپورٹس کے مطابق زخمی بھائیوں نے فائرنگ کرکے تندوے کو مار دیا۔

جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں بات چیت کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا نوازشریف کی پارٹی سربراہی کیس کا فیصلہ ان کے راستے کی رکاوٹ بن سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے کراچی میں متحدہ کی روایتی سیٹوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے معذرت کرلی۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی ) ورلڈ کپ 2023ء کی فاتح ٹیم آسٹریلیا کے کرکٹر مچل مارش کے خلاف بھارت میں مقدمہ درج ہوگیا۔

نگراں حکومت نے سردیوں میں گیس کی قلت پر قابو پانے کےلیے اقدامات کرلیے۔

سرگودھا میں بہن کی شادی سے ناخوش بھائیوں نے گھر آئی بارات پر فائرنگ کر دی۔

آرمی چیف نے حکومت کے معاشی اقدامات کی حمایت کےلیے پاک فوج کے غیر متزلزل عزم کی یقین دہانی کرائی۔

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو کا دبئی جانا پہلے سے طے شدہ تھا، وہ پیر کو پاکستان آجائیں گے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق ٹیسٹ کرکٹر عمران نذیر نے کہا ہے کہ پاکستان کی ورلڈ کپ میں غلطیوں کو بڑا نہیں کہا جاسکتا۔

قلات اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے، تاہم جانی و مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

سوریا پہلے ہی اپنی اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ اپنے والد کی طرح اداکار بنیں گے۔

یہ رواں ماہ کراچی سے کانگو کا دوسرا کیس ہے۔ اس سے قبل متاثرہ شخص علاج کے بعد صحتیاب ہوگیا تھا۔

پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر یاسر حمید نے کہا ہے کہ قومی ٹیم کو پاور ہٹنگ کرنے والے بیٹرز اور کوچز کی ضرورت ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری دبئی پہنچیں گے۔

QOSHE - محمد طیب ایڈووکیٹ - محمد طیب ایڈووکیٹ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد طیب ایڈووکیٹ

19 8
25.11.2023

ہمارے ملک کو مختلف نوعیت کے بے شمار سنگین مسائل کا سامنا ہے ان مسائل میں ہماری معاشی بد حالی اور ابتری سر فہرست ہے ۔وطن عزیز قرضوں کے بوجھ تلے بری طرح دب چکا ہے۔ ملکی ادارے سنگین خسارے کا شکار ہیں۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے ۔لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان ہاتھوں میں تعلیمی اسناد پکڑے با عزت روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور بد قسمتی سے اس صورتحال میں بہتری کی بجائے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر نئی حکومت اقتدار سنبھالتے ہی خزانہ خالی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ذمہ داری پچھلی حکومت پر ڈال دیتی ہے پچھلے چالیس پچاس سال سے بس یہی سب کچھ چل رہا ہے اور قرض در قرض لے کر اس ملک کو چلایا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کو اس دلدل میں پھنسانے کا ذمہ دار کون ہے؟ اس اندھیری اور بھیانک رات کی کالک کس نے سجائی ؟اس سوال کا ایک آسان اور سادہ جواب یہ ہے کہ من حیث القوم ہم سبھی اس کے ذمہ دار ہیں ہم سب نے ملکر اس ملک کو بد ترین معاشی بحران سے دوچار کیا ہے۔ کبھی ڈیفالٹ کرنے کی باتیں ہوتی ہیں اور کبھی عالمی مالیاتی اداروں سے سخت شرائط کے باوجود قرض لے کر اس کو ایک بڑی کامیا بی کے طور پر دُھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ غیر ملکی قرض حاصل کر لینا ہی ایک کامیاب معاشی پالیسی کا ثبوت اور دلیل بن کر رہ گیا ہے۔ تباہ حال بڑے بڑے قومی اداروں کو اسکریپ کے طور پر اونے پونے داموں فروخت کرنے کے عمل کو نجکاری کا نام دے کر ڈھول پیٹتے ہوئے کریڈٹ لیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس جانب کیوں نہیں سوچا جاتا کہ آخر ہم اس معاشی بد حالی کی دلدل میں کیونکر پھنسے ہیں اور یہ کہ اس سے نکلنے کی کیا تدبیریں ہیں۔ قرضے لے کر ملک چلانا کون سی دانشمندی ہے اور جب گھر تباہ و برباد ہو جائے تو گھر کی قیمتی اشیاء کو فروخت کرکے گزارا کرنا کون سی........

© Daily Jang


Get it on Google Play