میں نے معاشرے کو گرفت میں لینے والے گھٹیا رجحانات اور تباہ کن اثرات پر اکثر قلم اٹھایا ہے جن کی وجہ سے سب تکلیف میں ہیں ۔بدقسمتی سے تباہی کی یہ لہر ابھی تھمی نہیں ۔ ہرروزبربادی کی نت نئی داستانیں رقم ہورہی ہیں ۔ یہ اب انسانی زندگی کے ذاتی پہلوئوں میںجھانکنے اور ان سے جڑی انتہائی تنقیدی اور ذو معنی کہانیاں سامنے لانے والے منفی شغف کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔

مجھے امید تھی کہ سماج کا اجتماعی ضمیر ان افسوس ناک واقعات پر بیدار ہوتے ہوئے پہلے انھیں روکنے اور پھر اس منحوس لہر کا رخ پھیرنے کا راستہ نکالے گا۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ معاشرہ ایسی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستا چلا گیا جہاں سچ، اخلاقیات اور انسانی وقارچھپتے پھر رہے ہیں ۔ ان کے ارد گر نفرت، دشمنی اور تعصب کے زہریلے ناگ پھنکار رہے ہیں ۔ مختلف عوامل کے ملنے سے یہ زہریلے پودے تناور درخت بن چکے ہیں ۔ انھوںنے تمام ماحول کو زہرآلود کرتے ہوئے اسے اجتماعیت پذیر اور رواداری کا حامل معاشرہ بننے کے قابل نہیں چھوڑا۔

کسی خود کار طریقے سے یہ نوبت نہیں آئی ہے۔ بہت سے عوامل کی وجہ سے یہ لاوابرسوں سے پک رہا تھا، لیکن اس خوفناک پیش رفت سے نمٹنے کے لیے زبانی بیانات سے بڑھ کر کوئی سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب ایگزیکٹو اپنے شہریوں کی محرومیوں کے لیے وسائل اور حقوق دونوں کی فراہمی کے حق کو یرغمال بنالیتا ہے، اور اس عمرانی معاہدے کی سراسر خلاف ورزی کرتا ہے جو ریاست اور معاشرے کے درمیان ایک پائیدار بندھن قائم کرنے کا بنیادی چارٹر ہے، تو ان کا باہمی تعلق کمزور پڑ جاتا ہے۔اس کا نتیجہ مایوسی کی صورت نکلتا ہے۔ جب ریاست بھی حکمران اشرافیہ کے ایک مجرم طبقے کی سرپرستی میں مصروف ہو جاتی ہے جو اثاثوں کو بے تحاشا لوٹ کر اور کمزوروں اور غریبوں کے حقوق کو پامال کر کے ترقی کرتا ہے تو یہ مایوسی متعدی مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس کا پھیلائو بہت تیز ہوتا ہے۔ ہمارے معاملے میں ریاست نہ صرف اس دغابازی کی مرتکب ہوئی ہے بلکہ اس نے اپنے لوگوں کو زندگی کی اس نہج تک پہنچا دیا ہے جہاں وہ کسی بہتری کی امید کے بغیر محض جزوقتی بچائو کے ہاتھ پائوں مارنے پر مجبور ہیں ۔

ریاست کی جانب سے اپنے عوام کی ذمہ داری نظر انداز کرنے کے یہ تباہ کن نتائج ہیں ۔ زندگی کے بڑھتے ہوئے چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے اور اقتدار کی کرسیوں پر براجمان لوگوں کے ہاتھوں ریاستی اثاثوںکی لوٹ مار دیکھ کر عام لوگ بھی ایسا ہی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ہم ایک عملاً جرم زدہ ریاست بن چکے ہیں جس میں ہر ایک کے ہاتھ کسی نہ کسی قسم کی بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں: یا تو وہ لالچ سے متاثر ہے جس میں امیر لوگ مبتلا ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے اربوں کا ڈھیر مزید بڑھ جائے، یا پھر غریب افراد جنھیں زندگی گزارنے کیلئے ایسے ہتھکنڈے اختیار کرنا پڑتے ہیں ۔

اس گراوٹ کے آگے بند باندھنے کی بجائے معاشرہ اس مرض کے پھیلائو کا سہولت کار بن چکا ہے ۔ یہ مرض قومی سیاست سے لے کر عام زندگی کی مجبوریوں تک کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ شخصی آزادیوں کے کھو جانے سے صورت حال کی سنگینی مزید بڑھ گئی ہے جو کہ عام حالات میں لوگوں کے درمیان روابط کو فروغ دینے اور مستقبل کی راہیں متعین کرنے کا راستہ فراہم کرتی ہیں۔ ہم اس وقت جس ماحول میں زندہ ہیں وہ ناقابل بیان حد تک گھٹن زدہ ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سنگینی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ یہ عجیب منظرنامہ ہے جو ایک طرف بقا کے لیے درکار وسائل کی عدم موجودگی اور دوسری طرف بنیادی آزادیوں سے محرومی کے امتزاج سے تشکیل پایا ہے۔ اس میں آزادی اظہار اور پرامن احتجاج کی گنجائش باقی نہیں بچی۔ ریاست کی جانب سے ایک سیاسی جماعت اور اس سے وابستہ تمام افراد پر وحشیانہ طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے۔ قانون کا سہارا لینے کے حق سے محرومی اس میں مزید اضافہ کررہی ہے۔ لاتعداد کارکنوں کی منظور شدہ ضمانتیں دیگر جعلی اور فضول مقدمات میں گرفتاری ڈال کر منسوخ کر دی جاتی ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد انھیں قید میں رکھنا ہے تاکہ وہ سیاسی سرگرمیاں شروع نہ کر سکیں، خاص طور پر اب جبکہ 8 فروری کو انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔

اس سارے معاملے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنما عمران خان کی نفرت کا عنصر غالب ہے۔انتخابی عمل میں پی ٹی آئی کی ممکنہ فتح سے خوفزدہ ریاست عوام کو آزادانہ، منصفانہ اور شفاف عمل میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اختیار سے محروم کرنے کا تہیہ کرچکی ہے۔ اس کے بجائے، کنٹرولڈ ’’سلیکشن‘‘ کا ماحول بنایا جا رہا ہے جہاں کچھ پسندیدہ افراد کو ریاستی سرپرستی حاصل ہو گی جبکہ پی ٹی آئی کو اس عمل سے باہر رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس طرح ان کے ممکنہ امیدواروں کو انصاف تک رسائی سے محروم کر کے جیل میں رکھا جاتا ہے جبکہ زیادہ ترکو گرفتار یا زبردستی اغوا کرکے دیگر جماعتوںمیں شامل ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ان رہنمائوں کو اپنی صفوں میں جگہ دینے کے لیے کچھ جماعتوں کو پہلے سے ہی تیار کرلیاگیا ہے ۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا، معاشرے کے اس بگاڑ کے متعدد عوامل ہیں جن کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ لیکن جب ریاست مشکوک انداز میں متعصبانہ کردار ادا کرتی ہے، تو معاملات بگڑ جاتے ہیں اور بالآخر بے قابو ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جس میں ہم اس وقت پھنس گئے ہیں جب مختلف حلقوں سے تشدد کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔کیا اس موقع پر ریاست اور اس کا بندوبست چلانے والے صورتحال کی سنگینی کا ادراک کریں گے اور اپنے آپشنز پر زیادہ معروضی انداز میں غور کرنے کیلئے ایک قدم پیچھے ہٹنے کا سوچیں گے؟ اگر وہ ایسا کرتے ہیں، توبھی اب تک ہونے والے نقصان کا کسی حد تک تدارک ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو معاملات ان کے قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ پھر کسی پر بھی ان کاکنٹرول نہیں رہے گا۔ اس کے بعد یہ ہو سکتا ہے کہ پھر ہم نفرت کو پروان چڑھانے اور عقل و خرد کا سودا کرنے کے بھیانک نتائج جھیلنے کیلئے زندہ رہیں۔

صاحب تحریر پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری انفارمیشن ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

چارسدہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاق کو صوبوں کے حقوق پر ڈاکا نہیں ڈالنے دیں گے۔

پاکستانی ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل اپنی اہلیہ کے ساتھ بگھی میں سوار ہوکر بکنگھم پیلس پہنچے جہاں شاہ چارلس نے ہائی کمشنر اور ان کی اہلیہ کا خیر مقدم کیا۔

رپورٹس کے مطابق زخمی بھائیوں نے فائرنگ کرکے تندوے کو مار دیا۔

جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں بات چیت کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا نوازشریف کی پارٹی سربراہی کیس کا فیصلہ ان کے راستے کی رکاوٹ بن سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے کراچی میں متحدہ کی روایتی سیٹوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے معذرت کرلی۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی ) ورلڈ کپ 2023ء کی فاتح ٹیم آسٹریلیا کے کرکٹر مچل مارش کے خلاف بھارت میں مقدمہ درج ہوگیا۔

نگراں حکومت نے سردیوں میں گیس کی قلت پر قابو پانے کےلیے اقدامات کرلیے۔

سرگودھا میں بہن کی شادی سے ناخوش بھائیوں نے گھر آئی بارات پر فائرنگ کر دی۔

آرمی چیف نے حکومت کے معاشی اقدامات کی حمایت کےلیے پاک فوج کے غیر متزلزل عزم کی یقین دہانی کرائی۔

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو کا دبئی جانا پہلے سے طے شدہ تھا، وہ پیر کو پاکستان آجائیں گے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق ٹیسٹ کرکٹر عمران نذیر نے کہا ہے کہ پاکستان کی ورلڈ کپ میں غلطیوں کو بڑا نہیں کہا جاسکتا۔

قلات اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے، تاہم جانی و مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

سوریا پہلے ہی اپنی اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ اپنے والد کی طرح اداکار بنیں گے۔

یہ رواں ماہ کراچی سے کانگو کا دوسرا کیس ہے۔ اس سے قبل متاثرہ شخص علاج کے بعد صحتیاب ہوگیا تھا۔

پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر یاسر حمید نے کہا ہے کہ قومی ٹیم کو پاور ہٹنگ کرنے والے بیٹرز اور کوچز کی ضرورت ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری دبئی پہنچیں گے۔

QOSHE - رؤف حسن - رؤف حسن
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

رؤف حسن

15 5
25.11.2023

میں نے معاشرے کو گرفت میں لینے والے گھٹیا رجحانات اور تباہ کن اثرات پر اکثر قلم اٹھایا ہے جن کی وجہ سے سب تکلیف میں ہیں ۔بدقسمتی سے تباہی کی یہ لہر ابھی تھمی نہیں ۔ ہرروزبربادی کی نت نئی داستانیں رقم ہورہی ہیں ۔ یہ اب انسانی زندگی کے ذاتی پہلوئوں میںجھانکنے اور ان سے جڑی انتہائی تنقیدی اور ذو معنی کہانیاں سامنے لانے والے منفی شغف کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔

مجھے امید تھی کہ سماج کا اجتماعی ضمیر ان افسوس ناک واقعات پر بیدار ہوتے ہوئے پہلے انھیں روکنے اور پھر اس منحوس لہر کا رخ پھیرنے کا راستہ نکالے گا۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ معاشرہ ایسی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستا چلا گیا جہاں سچ، اخلاقیات اور انسانی وقارچھپتے پھر رہے ہیں ۔ ان کے ارد گر نفرت، دشمنی اور تعصب کے زہریلے ناگ پھنکار رہے ہیں ۔ مختلف عوامل کے ملنے سے یہ زہریلے پودے تناور درخت بن چکے ہیں ۔ انھوںنے تمام ماحول کو زہرآلود کرتے ہوئے اسے اجتماعیت پذیر اور رواداری کا حامل معاشرہ بننے کے قابل نہیں چھوڑا۔

کسی خود کار طریقے سے یہ نوبت نہیں آئی ہے۔ بہت سے عوامل کی وجہ سے یہ لاوابرسوں سے پک رہا تھا، لیکن اس خوفناک پیش رفت سے نمٹنے کے لیے زبانی بیانات سے بڑھ کر کوئی سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب ایگزیکٹو اپنے شہریوں کی محرومیوں کے لیے وسائل اور حقوق دونوں کی فراہمی کے حق کو یرغمال بنالیتا ہے، اور اس عمرانی معاہدے کی سراسر خلاف ورزی کرتا ہے جو ریاست اور معاشرے کے درمیان ایک پائیدار بندھن قائم کرنے کا بنیادی چارٹر ہے، تو ان کا باہمی تعلق کمزور پڑ جاتا ہے۔اس کا نتیجہ مایوسی کی صورت نکلتا ہے۔ جب ریاست بھی حکمران اشرافیہ کے ایک مجرم طبقے کی سرپرستی میں مصروف ہو جاتی ہے جو اثاثوں کو بے تحاشا لوٹ کر اور کمزوروں اور غریبوں کے حقوق کو پامال کر کے ترقی کرتا ہے تو یہ مایوسی متعدی مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس کا پھیلائو بہت تیز ہوتا ہے۔ ہمارے معاملے میں ریاست نہ صرف اس دغابازی کی مرتکب ہوئی ہے بلکہ........

© Daily Jang


Get it on Google Play