یورپ میں سیاست کی ارتقاء پذیری نے یہ ثابت کیا ہے کہ" ریاست" انسان کی سماجی تخلیق کا اعلیٰ ترین مظہر ہے۔ ایسی ریاست میں سماجی تبدیلی کا سب سے بڑا محرک سیاست ہی ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ ریاست اور عوام کے درمیان حائل قوتوں کی بیخ کنی کرتے ہوئے ایک فلاحی ریاست کا تصور ابھارتی ہے اور یوں ریاست ایک حقیقی ماں کا کردار ادا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔لیکن پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال سیاسی پارٹیوں کی بے بسی کی عکاسی کرتی ہے کیونکہ ہماری 75 سالہ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ جس جس سیاسی پارٹی نے بھی مقتدرہ کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی ، اسے نشان عبرت بنادیا گیا۔ایک مشہور حکمران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوںنے اپنے دربار میں ایک اور قاضی مقرر کر دیا جس پر پرانے قاضی نے بادشاہ سے شکایت کی کہ آپ نے نہ صرف نیا قاضی رکھا ہے بلکہ بہت بڑی تنخواہ پر!جس پربادشاہ نے کہاکہ تمہیں نہیں پتا کہ ہم نے صرف اسے ہی نہیں رکھا بلکہ اسکا ضمیر بھی ساتھ خرید لیا ہے۔جس پر پرانے قاضی نے بے ساختہ کہا کہ حضور، میرا ضمیر بھی تو حاضر ہے۔ یہ مثال آج کی بڑی سیاسی پارٹیوں پر مطابقت رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ساری بڑی پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد حاصل کرنے کیلئے اتنی آگے بڑھ گئی ہیں کہ اس سے عوام میں سیاست سے بیگانگی کا تاثر ابھر رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مقتدر حلقوںنے 2011ء سے ہی عمران خان کی سیاسی پرورش کرنا شروع کردی جس کے نتیجے میں نواز شریف پر کیسز بنوائے گئے اور یوں 2018ء میں عمران خان برسر اقتدار آگئے۔2018ء سے لیکر 2022ءتک نوازشریف نے سویلین سپرمیسی اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر اپنی سیاست کو آگے بڑھایا جس سے پنجاب میں پہلی بار اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ابھر کر سامنے آیا۔یاد رہے کہ خان عبدالولی خان اور غوث بخش بزنجو کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں محکوم قوموں اور مظلوم طبقات کو اس وقت تک حقوق نہیں مل سکتے جب تک پنجاب سے مزاحمت کا عندیہ نہیں ملتا۔ یوں سیاسی مبصرین اور دانشور یہ کہہ رہے تھے کہ جلد ہی سیاسی جماعتیں ایسی سیاسی پختگی کا مظاہر ہ کریں گی کہ ملک اور عوام کے درمیان ایک وسیع تر اورموثر جمہوری محاذ قائم ہو جائے گاجس کی وجہ سے غیر جمہوری قوتیں سیاسی عمل میں مزیدمداخلت نہ کر سکیںگی۔لیکن پچھلے ماہ جب نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد لاہور میں پہلی تقریر کی تو انہوں نے سویلین سپرمیسی اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے بارے میں نہ صرف کوئی بات نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ پاکستان کے مستقبل کی خاطر تمام سیاسی پارٹیوں اور اداروں کو ملکر چلنا ہوگا۔اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ ن کے خلاف عمران خان کے دور میں قائم کیے گئے تقریباسارے مقدمات ایک ایک کر کے ختم کیے جارہے ہیں۔ حال ہی میں نواز شریف اور مسلم لیگ کی قیادت نے بلوچستان کا دورہ کیا جہاں بلوچستان عوامی پارٹی کے کئی سرداروں اور قبائلی عمائدین نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔یاد رہے کہ یہ وہی قبائلی سردار اور عمائدین ہیںجنہوں نے2017میں راتوں رات مسلم لیگ ن کی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور جب اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بلوچستان کا دورہ کیا تو انکی پارٹی کا ایک بھی ایم پی اے ان سے ملنے تک نہیں آیا۔یوں الیکشن سے پہلے ہی یہ تاثر عام ہے کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے اشیر بادسے دوبارہ اقتدار میں آئیں گے اور انکے ساتھ استحکام پاکستان پارٹی ، بلو چستان عوامی پارٹی (باپ) ، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے حکومت کا حصہ ہوں گے۔ لیکن ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ کچھ ہی عرصے بعد نواز شریف کا مقتدرہ سے پھر جھگڑا شروع ہو جائے گا اور پھر نواز شریف پر دبائو ڈالنے کیلئے کسی اور پارٹی کے سر پر ہاتھ رکھ دیا جائے گا اور مسلم لیگ ن کے خلاف کیسز بنیں گے اور ہماری سیاست پچھلے 75 سالوں کی طرح ایک گول دائرے میں گھومتے گھومتے تنزل پذیری کا شکارہی رہے گی۔

سیاسی مبصرین ایک نئے میثاق جمہوریت کے بارے میںبھی کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں کیونکہ اس سے پہلے بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے جو میثاق جمہوریت اپنایا تھا، اس میں یہ تہیہ کیا گیا تھا کہ وہ نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئیں گے اور نا ہی کسی جمہوری حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے میں مددگار ثابت ہونگے۔اس میثاق جمہوریت میں نگران حکومت کی غیر جانبداری کے بارے میں لکھا گیا تھا کہ یہ نیوٹرل ہوگی اور اسکا کام آزاد اور منصفانہ الیکشن کرانا ہوگا۔ لیکن حال ہی میں سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کے خلاف جو فیصلہ دیا ہے ، اس پرسندھ کے علاوہ وفاق اور تینوں صوبوں کی حکومتوں نے ملٹری ٹرائل کوکالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر دی ہیں جس سے نگران حکومتوں کے نیوٹرل ہونے کا تاثر زائل ہو رہا ہے۔

گو کہ اس میثاق جمہوریت پر عمل در آمد نہ ہوسکا لیکن اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ایک ارتقا پذیر سیاسی عمل ہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔ اس لیے نواز شریف اور تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرکے الیکشن کیلئے ایک لیول پلینگ فیلڈ مہیا کریںتاکہ ایک نئے میثاق جمہوریت کی راہ ہموار ہو سکے جو پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ، جمہوری ، فلاحی اور سماجی انصاف پر مبنی ملک کے راستے پر ڈال سکے تاکہ غربت ، بیماری ،ناخواندگی اور ناانصافی کا خاتمہ ہو سکے اور ایسے ادارے وجود میں آئیں جن کی روایات اتنی مضبوط ہوں کہ نہ تو مقتدر حلقےاور نہ ہی جاگیردار،سرمایہ دار اور قبائلی سردار ان روایات کے پنپنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

چارسدہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاق کو صوبوں کے حقوق پر ڈاکا نہیں ڈالنے دیں گے۔

پاکستانی ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل اپنی اہلیہ کے ساتھ بگھی میں سوار ہوکر بکنگھم پیلس پہنچے جہاں شاہ چارلس نے ہائی کمشنر اور ان کی اہلیہ کا خیر مقدم کیا۔

رپورٹس کے مطابق زخمی بھائیوں نے فائرنگ کرکے تندوے کو مار دیا۔

جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں بات چیت کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا نوازشریف کی پارٹی سربراہی کیس کا فیصلہ ان کے راستے کی رکاوٹ بن سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے کراچی میں متحدہ کی روایتی سیٹوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے معذرت کرلی۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی ) ورلڈ کپ 2023ء کی فاتح ٹیم آسٹریلیا کے کرکٹر مچل مارش کے خلاف بھارت میں مقدمہ درج ہوگیا۔

نگراں حکومت نے سردیوں میں گیس کی قلت پر قابو پانے کےلیے اقدامات کرلیے۔

سرگودھا میں بہن کی شادی سے ناخوش بھائیوں نے گھر آئی بارات پر فائرنگ کر دی۔

آرمی چیف نے حکومت کے معاشی اقدامات کی حمایت کےلیے پاک فوج کے غیر متزلزل عزم کی یقین دہانی کرائی۔

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو کا دبئی جانا پہلے سے طے شدہ تھا، وہ پیر کو پاکستان آجائیں گے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق ٹیسٹ کرکٹر عمران نذیر نے کہا ہے کہ پاکستان کی ورلڈ کپ میں غلطیوں کو بڑا نہیں کہا جاسکتا۔

قلات اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے، تاہم جانی و مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

سوریا پہلے ہی اپنی اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ اپنے والد کی طرح اداکار بنیں گے۔

یہ رواں ماہ کراچی سے کانگو کا دوسرا کیس ہے۔ اس سے قبل متاثرہ شخص علاج کے بعد صحتیاب ہوگیا تھا۔

پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر یاسر حمید نے کہا ہے کہ قومی ٹیم کو پاور ہٹنگ کرنے والے بیٹرز اور کوچز کی ضرورت ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری دبئی پہنچیں گے۔

QOSHE - ایوب ملک - ایوب ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایوب ملک

13 2
25.11.2023

یورپ میں سیاست کی ارتقاء پذیری نے یہ ثابت کیا ہے کہ" ریاست" انسان کی سماجی تخلیق کا اعلیٰ ترین مظہر ہے۔ ایسی ریاست میں سماجی تبدیلی کا سب سے بڑا محرک سیاست ہی ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ ریاست اور عوام کے درمیان حائل قوتوں کی بیخ کنی کرتے ہوئے ایک فلاحی ریاست کا تصور ابھارتی ہے اور یوں ریاست ایک حقیقی ماں کا کردار ادا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔لیکن پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال سیاسی پارٹیوں کی بے بسی کی عکاسی کرتی ہے کیونکہ ہماری 75 سالہ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ جس جس سیاسی پارٹی نے بھی مقتدرہ کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی ، اسے نشان عبرت بنادیا گیا۔ایک مشہور حکمران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوںنے اپنے دربار میں ایک اور قاضی مقرر کر دیا جس پر پرانے قاضی نے بادشاہ سے شکایت کی کہ آپ نے نہ صرف نیا قاضی رکھا ہے بلکہ بہت بڑی تنخواہ پر!جس پربادشاہ نے کہاکہ تمہیں نہیں پتا کہ ہم نے صرف اسے ہی نہیں رکھا بلکہ اسکا ضمیر بھی ساتھ خرید لیا ہے۔جس پر پرانے قاضی نے بے ساختہ کہا کہ حضور، میرا ضمیر بھی تو حاضر ہے۔ یہ مثال آج کی بڑی سیاسی پارٹیوں پر مطابقت رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ساری بڑی پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد حاصل کرنے کیلئے اتنی آگے بڑھ گئی ہیں کہ اس سے عوام میں سیاست سے بیگانگی کا تاثر ابھر رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مقتدر حلقوںنے 2011ء سے ہی عمران خان کی سیاسی پرورش کرنا شروع کردی جس کے نتیجے میں نواز شریف پر کیسز بنوائے گئے اور یوں 2018ء میں عمران خان برسر اقتدار آگئے۔2018ء سے لیکر 2022ءتک نوازشریف نے سویلین سپرمیسی اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر اپنی سیاست کو آگے بڑھایا جس سے پنجاب میں پہلی بار اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ابھر کر سامنے آیا۔یاد رہے کہ خان عبدالولی خان اور غوث بخش بزنجو کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں محکوم قوموں اور مظلوم طبقات کو اس وقت تک حقوق نہیں مل........

© Daily Jang


Get it on Google Play