معاش (ECONOMY)روز اول سے انسان زندگی کی سرگرمیوں (DYNAMMIC) کا محور چلا آ رہا ہے ۔سیاست و ریاست ،اس کے جملہ انواع کے انتظام و انصرام، جنگیں، فتوحات، غلامی، احتساب و استحصال اور اجتماعی انسانی زندگی کا مرکز بھی یہی معاش ہے ۔اقوام کے سوشل سسٹم، رسم و رواج و ثقافت اور ان سے تشکیل پائے امتیازی سماجی رویوں کے مخصوص حوالوں (LOCAL VARIABLES)نے نظام معاش و سیاست و ریاست کے مختلف ماڈلز تشکیل دینے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔اب جو دنیا میں موجود زندگی کے مختلف نظام ہائے انسانی زندگی نافذ العمل ہیں ،ان کی تخلیق میں ان ویری ایبلز ہی نے اہم ترین محرکات کا کردار ادا کیا ہے ۔ان محرکات کا گہرا تعلق ہی کسی ریاست کے اجتماعی رویے، مجموعی ذہنیت اور عوامی جذبات و احساسات و عادات کاگہرا عکاس ہے۔سو کسی بھی ریاست کے نظام معیشت و سیاست و حکومت کا بہت گہرا تعلق انہی عوامی رویوں اور ذہنیت، جو جمہوریت،آمریت، بادشاہت و ملوکیت و اشتراکیت جیسے نظام ہائے انسانی زندگی کی تشکیل کے لازمے ہیں کسی ریاست کی کامیابی و ناکامی کے ضامن اور سب سے بڑی وجہ بنتے ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ انسانی تشکیل پایارویہ اپنی انفرادی اور اجتماعی دونوں ہی حیثیت میں بہت سخت گیر واقع ہوا ہے اور اس کی تبدیلی انسانی زندگی کے مشکل ترین کاموں ،چیلنجز میں بھی اولین ہے اور بہت (طویل) وقت کا طالب اور عمومی طور پر ناممکن (انہونی )بھی ہوتا ہے۔ تاہم سوشل سائنسز کی باڈیز آف نالج (ڈسپلنز ) نے بتدریج اس (انہونی) کو ہونی (ممکن) میں تبدیل کرنے کے اہداف کو بتدریج حاصل کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ یوں پوری انسانی تہذیب میں مخصوص لوکل حوالوں (ویری ایبلز) کے زور و خواص سے مختلف سماجی رویوں کی بنیاد پر بنے نظام ہائےمعیشت و سیاست و حکومت کی تشکیل اور ان میں تغیر سے مختلف اور تبدیل شدہ نظام بننے کا سلسلہ بھی جاری ہے ،چونکہ یہ سرگرمی مشکل ترین اور طویل وقت کی طالب ہوتی ہے سو اسٹیٹس کو اور آئین نو (نئے مطلو ب نظام ) میں بالادستی کی تگ ودو شدت پکڑتی ہے اور ریاستیں ایک بڑے انٹر اسٹیٹ کنفلکٹ (CONFLICT)(باہمی متنازع) میں مبتلا ہو جاتی ہیں تاہم اس کا نتیجہ بڑے اور عوام الناس کے وسیع تر مفادات کے حامل نظام کی اختیاریت (OPTIONALITY)کی صورت میں برپا ہوتا ہے، اس نوع کی جنگ اب عالمی سطح تک محیط ہو کر عالمی نظام کے فیصلہ ساز اجارہ دار، بالادست اور محبوس و کمزور اقوام کے درمیان جاری ہے ۔ اور ریاستی حدود میں دوسری اور بڑی سرگرم شکل (INTRA STATE (CONFLICTS) کی صورت میں بھی جاری ہے۔

اس موضوع کو نام نہاد اشرافیہ اور عوام الناس کی سطح پر سمجھنے اور اس کی مہم عام ہونے سے عالمی معاشرے میں خوشحال ریاستوںکے سیاسی، معاشی، حکومتی کو یقینی بنانے کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے۔

اس ذاتی تجزیے نہیں بلکہ علمی نوٹس کے تناظر میں اگر ہمارے موجود پاکستانیوں کے فیصلہ ساز، مقتدر اور قومی سیاست کے بڑے کھلاڑی اگر اصل پاکستان یعنی اس کے عوام سے حقیقی معنوں میں محب و مخلص ہیںتو اس زندگی اور تاریخی حقیقت کو مان اور جان لیں کہ جمہوریت اور اس پر بیس کرتا نظریہ اسلام کا عظیم ترین ویری ایبل (عالمی تناظر) پاکستانی عوام کے اجتماعی خمیر و ضمیر کا عکاس ہے۔ پاکستان کی تشکیل ان دو عوامی و آفاقی محرکات (عوامل) پر ہوئی ۔حادثہ اور المیہ پاکستان کے ساتھ یہ ہوا کہ پاکستان کی تشکیل تو اس جمہوری اور اسلامی جذبے سے ہوئی لیکن ملک تشکیل پاتے ہی قیام مملکت کے سب سے غالب و حاوی عنصر ولولہ انگیز قیادت 13ماہ میں ہی مائنس ہوگئی اور تاک میں بیٹھے انٹرسٹ گروپس نے ’’نومولود و شیر خوار‘‘ پاکستان کو اپنی وراثت میں لینے کی تگ ودو شروع کر دی اور انتظامی اختیارات کے جائز و ناجائز سے ابتدائے سفر میں ہی انٹر سٹ گروپس پر مشتمل اس اولیگارکی (مافیا راج) کی تشکیل ہو گئی جو دس گیارہ سال میں ہی طاقت پکڑ کر طویل عرصے کےلئے مسلط ہو گئی ۔عوام ریاست سے کٹ گئے لیکن مقتدر ہوئی قوت نے اتنی حد ضرور مقرر کی کہ ’’اختیار کل‘‘ کی ملکیت کو پائیدار بنانے کےلئے سیاست و حکومت سے کٹے عوام کو خوشحال ضرور بنایا جائے۔

کوئی شک نہیں کہ ایوبی دور میں بڑے نتیجہ خیز ترقیاتی اقدامات کئے گئے عملی نتائج بھی نکلے، لیکن دیگر انٹرسٹ گروپ نے اصل مقتدر ہ سے گٹھ جوڑ سے حکومتی معاون بن کر عوام اور ریاست کے درمیان حائل ہو کر عوام کی مطلوب آئینی مقتدر حیثیت کو اپنے بنائے نظام میں جکڑ دیا ۔آج بھی اصل اور پاکباز وبااختیار وارثین پاکستان اور اس کی معاون اولیگارکی ، عوام اور مقتدرین کی تگ ودو میں ملک ٹوٹنے کے بعد ریاست پاکستان پچاس سال بعد بھی متفقہ بنائے آئین پاکستان کے مکمل اطلاق اور قانون کے سب شہریوں پر یکساں نفاذ کے تاریخی قومی عزم کو عمل میں ڈھالنے کی عوامی جدوجہد کے خلاف ریاست پاکستان INTRA STATE CONFLICTمیں بڑی شدت سے مبتلا ہے پاکستانی اولیگارکی آئین کی بالادستی جو 70سالہ اسٹیٹس کو کی قوتوں (نظام بد) کے دفاع اور متفقہ آئین 1973ء کے حقیقی اطلاق کے خلاف غیر آئینی حربوں سے مسلسل مزاحمت کر رہی ہے نظام بد آج اپنی غیر جمہوری اور فسطائی شکل میں ملک پر مسلط ہے، تشویشناک دیدہ دلیری سے آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے پاکستانی عوام کو ’’آزادانہ‘‘ حق رائے دہی برائے تشکیل منتخب حکومت سے محروم رکھنے، مرضی کے الیکشن کرانے اور ٹیلر میڈ حکومت کی تشکیل کےلئے الیکشن بمطابق آئین میں پہاڑ جیسی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ایسا نہ ہو کہ اس کےساتھ ساتھ ہوتی، سنبھلتی معیشت کی مخلصانہ اور کچھ کامیاب کوششیں بھی ’’ویل ڈیزائنڈ‘‘ الیکشن سے بنی اولیگارکی حکومت عوامی عدم قبولیت کے بلند درجے سے ریورس ہو جائیں ؟ جیسے کہ ایوبی دور کی بنیادی اور نظر آتی ترقی حقیقی انتخابی نتائج سے انکار اور عوام و اولیگارکی کے داخلی تنازعے INTRA STATE CONFLICT میں چند سالوں میں ہی ریورس ہو کر سیاسی انتشار میں تبدیل ہو گئی۔ وما علینا الالبلاغ

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ غزہ لڑائی میں وقفے، یرغمالیوں کی رہائی کیلئے مسلسل دباؤ ڈالا ہے۔

عام انتخابات کے لیے مسلم لیگ ن کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے ارکان کے ناموں کا اعلان کردیا گیا۔

باپ نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر لفٹ توڑی اندر داخل ہوکر بیٹے سمیت کئی افراد کی زندگیاں بچائیں۔

غزہ میں عارضی جنگ بندی کا آج چوتھا دن تھا۔ ادھر حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں سے آج رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں کے نام مل گئے۔

اجلاس میں ضلع اٹک سے پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواستیں دینے والے امیدواروں کے انٹرویوز کیے گئے۔

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے خلیج عدن میں کمرشل بحری جہاز کے اغوا کے معاملے پر ردعمل دیا ہے۔

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کامیاب معاہدوں پرعوام کو مبارکباد دی۔

سکھر میں منڈو ڈیرو کے اسٹیشن کے قریب پھاٹک پر جعفر ایکسپریس حادثے سے بال بال بچ گئی۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل خالد یوسف چوہدری نے کہا ہے کہ کل عمران خان کو عدالت میں پیش کیا جارہا ہے۔

غزہ جنگ بندی میں دو روز کی توسیع ہوگئی۔ وائٹ ہاؤس نے جنگ بندی میں توسیع کا خیر مقدم کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیس بک پر ایک لڑکےکی آئی ڈی سے دو لڑکیوں کی تصاویر وائرل ہوئی۔

کیلے کی شکل کا ہتھوڑا بنانے والی جاپانی مینو فیکچرنگ فیکٹری کا نام انٹر نیٹ پر وائرل ہوگیا۔ ہیرو شیما میں واقع آئرن فیکٹری اکیڈا عام سی دھاتی مینو فیکچرنگ پلانٹ کی حامل نہیں۔

کراچی کی مختلف عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات پر میئر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے بڑا فیصلہ کرلیا۔

سینئر ڈپٹی کنوینر ایم کیو ایم مصطفٰی کمال نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی گزشتہ 15 سالوں سے اس صوبے پر قابض ہے، یہ شہر لاقانونیت اور بدترین گورننس کا نمونہ پیش کر رہا ہے۔

دو روز قبل کینیڈا میں گپی گریوال کے گھر پر حملہ ہوا تھا، اس حملے کی ذمہ داری گینگسٹر لارینس بشنوئی نے قبول کی تھی۔

نوجوانوں کا کہنا تھا کہ اسرائیلی قید خانوں میں فلسطینیوں پر بدترین تشدد کیا جا رہا ہے، چار قیدی مر چکے ہیں۔

QOSHE - ڈاکٹر مجاہد منصوری - ڈاکٹر مجاہد منصوری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر مجاہد منصوری

15 1
28.11.2023

معاش (ECONOMY)روز اول سے انسان زندگی کی سرگرمیوں (DYNAMMIC) کا محور چلا آ رہا ہے ۔سیاست و ریاست ،اس کے جملہ انواع کے انتظام و انصرام، جنگیں، فتوحات، غلامی، احتساب و استحصال اور اجتماعی انسانی زندگی کا مرکز بھی یہی معاش ہے ۔اقوام کے سوشل سسٹم، رسم و رواج و ثقافت اور ان سے تشکیل پائے امتیازی سماجی رویوں کے مخصوص حوالوں (LOCAL VARIABLES)نے نظام معاش و سیاست و ریاست کے مختلف ماڈلز تشکیل دینے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔اب جو دنیا میں موجود زندگی کے مختلف نظام ہائے انسانی زندگی نافذ العمل ہیں ،ان کی تخلیق میں ان ویری ایبلز ہی نے اہم ترین محرکات کا کردار ادا کیا ہے ۔ان محرکات کا گہرا تعلق ہی کسی ریاست کے اجتماعی رویے، مجموعی ذہنیت اور عوامی جذبات و احساسات و عادات کاگہرا عکاس ہے۔سو کسی بھی ریاست کے نظام معیشت و سیاست و حکومت کا بہت گہرا تعلق انہی عوامی رویوں اور ذہنیت، جو جمہوریت،آمریت، بادشاہت و ملوکیت و اشتراکیت جیسے نظام ہائے انسانی زندگی کی تشکیل کے لازمے ہیں کسی ریاست کی کامیابی و ناکامی کے ضامن اور سب سے بڑی وجہ بنتے ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ انسانی تشکیل پایارویہ اپنی انفرادی اور اجتماعی دونوں ہی حیثیت میں بہت سخت گیر واقع ہوا ہے اور اس کی تبدیلی انسانی زندگی کے مشکل ترین کاموں ،چیلنجز میں بھی اولین ہے اور بہت (طویل) وقت کا طالب اور عمومی طور پر ناممکن (انہونی )بھی ہوتا ہے۔ تاہم سوشل سائنسز کی باڈیز آف نالج (ڈسپلنز ) نے بتدریج اس (انہونی) کو ہونی (ممکن) میں تبدیل کرنے کے اہداف کو بتدریج حاصل کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ یوں پوری انسانی تہذیب میں مخصوص لوکل حوالوں (ویری ایبلز) کے زور و خواص سے مختلف سماجی رویوں کی بنیاد پر بنے نظام ہائےمعیشت و سیاست و حکومت کی تشکیل اور ان میں تغیر سے مختلف اور تبدیل شدہ نظام بننے کا سلسلہ بھی جاری ہے ،چونکہ یہ سرگرمی مشکل ترین اور طویل وقت کی طالب ہوتی ہے سو اسٹیٹس کو اور آئین نو (نئے مطلو ب نظام ) میں بالادستی کی تگ ودو شدت پکڑتی ہے........

© Daily Jang


Get it on Google Play