کوہِ بہشت سے ایک فرشتے نے آدمؑ کو دنیا کانظارہ کروایا، مقصود انسان کی ترقی اور کامرانی کی نشانیاں دکھانا تھا، مثال کے طور پرکچھ چنیدہ شہرآدم کو دکھائے گئے جن میں لاہور بھی شامل تھا۔ یہ ملٹن کی ’فردوسِ گم شدہ‘ میں مذکور ہے۔ اسی طرح ’اصفہان نصف جہاں بود، گر لاہور نہ باشد‘ والا فقرہ بھی بزرگوں سے اکثر سننے کو ملتا تھا، اور اپنا کپلنگ تو لاہور کی مدح میں لگا ہی رہتا تھا۔بلا شبہ، لاہور اہلِ دنیا اور خاص طور پر برِ صغیر کے باشندوں کے لیے ایک خیرہ کُن شہر رہا ہے، علم و فن کا مرکز، تہذیب کا گہوارہ، حُسنِ تعمیرات کا نمونہ۔ ایک بار جون بھائی پرانے لاہور کی سیر کے دوران کہنے لگے ’کاش میں کسی ایسے شہر میں رہتا جس میں چھوٹی اینٹ کے مکان ہوتے۔‘ ان کا مطلب تھا کوئی ایسا شہر جو ان کے تاریخی و تمدنی ورثہ کا مظہر ہوتا۔ یہ جون بھائی کی طرف سے لاہور کی تہذیبی عظمت کا اعتراف تھا۔

وقت گزرتا گیا، ہمارے شہروں کی شکلیں بدلتی گئیں، لاہور بھی ان مراحل سے گزرا، شہر کا بے ترتیب پھیلائو، ہر طرف سیمنٹ سریا اور بل بورڈ، بے ہنگم ٹریفک، لوگ ہی لوگ، جہاں تھے کُنج وہاں کارخانے ہو گئے، درخت کٹ گئے، پرندے روٹھ گئے، جہاں باغ تھے وہاں معاشی زاغ وارد ہوئے اور کالونیاں بنتی چلی گئیں۔ لاہور کی شکل بدلی نہیں بگڑی، کہیں ترقی کے نام پر، کہیں خالص غفلت کے باعث۔خیر، ان تمام قباحتوں کے باوجود لاہوری اپنی زندگی کر رہے تھے، مگر پھر سموگ آ گئی۔اور سموگ بھی اچانک نہیں آئی، آہستہ آہستہ ہر سال بڑھتی چلی گئی، حکومتیں نوحے پڑھتی رہیں مگر کوئی علاج نہ کر سکیں۔ اور اب یہ حالت ہے کہ کوئی حالت نہیں۔ میل ہا میل تک تازہ ہوا کا جھونکا میسر نہیں، ’چاروں جانب ہیں بستیاں صاحب...جائیں تو جائیں ہم کہاں صاحب۔‘ اب لاہور میں تازہ ہوا کے شوق میں کوئی کھڑکی نہیں کھلتی، کھڑکی کھلے تو کمرے میں سموگ آ جاتی ہے، باہر نکلیں تو آنکھیں جلتی ہیں، اکثر واک کرنے والے ’روتے‘ نظر آتے ہیں، ماسک لگا کر واک کرنا پڑتی ہے، اور ماسک لگا کر واک ہو نہیں پاتی، ہر سانس کے ساتھ خدا جانے کیا زہر پھانکتے ہیں، ہر سانس کے ساتھ اپنا اندر زخمی کرتے ہیں، دل، پھیپھڑے، سانس کی نالیاں، ہر سانس زہر میں بجھی ہوئی تلوار کی طرح ہمارے سینے میں اترتی ہے ، کاٹتی ہوئی، زخماتی ہوئی۔ جب کسی شہر کے اطراف و جوانب کے سارے درخت کاٹ کر بارڈر تک ہائوسنگ کالونیاں بن جائیں تو شہر سانس کیسے لے گا؟ ٹھوکر نیاز بیگ اور راوی کے ساتھ جو درختوں کے جھنڈ ہوا کرتے تھے وہ لاہور کے پھیپھڑے کہلایا کرتے تھے، وہ درخت کاٹ دیے گئے، یعنی لاہور کے پھیپھڑے کاٹ دیے گئے، تو شہر کا دم تو رکنا ہی تھا۔حال ہی میں لاہور سے باہر موٹر وے پر سفر کا اتفاق ہوا تو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بھوسے کو آگ لگی ہوئی تھی، جب کہ شہر میں سمارٹ لاک ڈائون لگا ہوا تھا، اور حکومت مصنوعی بارش کی افواہ سے جھوٹی تسلیاں دے رہی تھی۔ اور ذرا اندازہ لگائیے کہ کس سہولت سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اس آلودہ فضا میں سانس لینے والوں کی زندگی دو سے چار سال کم ہو جاتی ہے۔ یہ ہندسوں کی نہیں، انسانی جان کی بات ہو رہی ہے، یہ میری اور آپ کی بات ہو رہی ہے، ہمارے بچوں کی بات ہو رہی ہے، ہماری زندگیوں کے ہزاروں دنوں کی بات ہو رہی ہے، انشا جیؔ یاد آ گئے جو اس باب میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ پانچ برس یہ چار برس چھن جائیں تو لگیں ہزار برس‘‘۔ یہ سلوک تو مکوڑوں سے روا رکھنا بھی ظلم کے زمرے میں آئے گا۔

قومی سیاسی اُفق پر نظر ڈالتے ہیں تو اسے بھی سموگ کے دبیز غلاف میں لپٹا ہوا پاتے ہیں، حدِ نظر نہ ہونے کے برابر، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا، سیسہ و غبار پھانکتے ہوئے کروڑوں نفوس، آنکھوں میں جلن سینے میں طوفان لیے، نامعلوم منزل کی طرف رینگ رہے ہیں۔بڑے باخبر صحافی ہمیں آگاہ کر رہے ہیںکہ اربابِ بست و کشاد کے دلوں میں انتخابات موخر کرنے کی خواہش بیدار ہو رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک مہینے یا چند مہینوں کی تاخیر سے کیا حاصل کرنا مقصود ہو گا؟ آٹھ فروری کو الیکشن ہو گا تو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ’پری الیکشن رگنگ‘ کافی نہیں ہو گی، بلکہ انتخابات والے دن بھی برہنہ واردات ڈالنی پڑے گی، جس سے الیکشن مزید متنازع ہو جائیں گے ؟ جب کہ کچھ ماہ بعد الیکشن کروانے سے ـ’سب اچھا‘ ہو جائے گا؟ اگلے چند مہینوں میں اربوں ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری آ جائے گی اور سارا منظر ہی بدل جائے گا؟ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ بزرجمہروں کی بہت ہی عمدہ اسکیم ہے، اس سے سانپ بھی مر جائے گا اور ’سٹک‘ بھی نہیں ٹوٹے گی، مطلوبہ نتائج بھی مل جائیں گے اور بے لباس بھی نہیں ہونا پڑے گا۔ اس گرینڈ اسکیم پر اب کیا تبصرہ کیا جائے، مسئلہ یہ ہے کہ ہم برسوں سے یہ غبار پھانک رہے ہیں، ان چالاکیوں کا آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی، الیکشن آٹھ فروری کو ہویا جب بھی ہو ’مطلوبہ نتائج‘ کے لیے وہی ہتھکنڈے استعمال کرنا پڑیں گے۔

سموگ بڑھ رہی ہے، یہ یونہی بڑھتی چلی جائے گی، اس کے اوٹ پٹانگ حل مت تجویز کیجیے، یہ مسئلہ الیکشن پر سمارٹ لاک ڈائون لگانے سے حل نہیں ہو گا، یہ آگ ڈالرز کی مصنوعی بارش سے نہیں بجھائی جا سکے گی، اس کا ایک ہی علاج ہے، شجرِ آئین کی آب یاری کیجیے، یہ درخت زیادہ سے زیادہ لگائیے، اور اس کی گھنی اور خنک چھائوں میں لمبے لمبے سانس لیجیے، انشا اللہ کچھ ہی دیر میں سموگ ختم ہو جائے گی اور جلتی ہوئی آنکھیں پھر سے چمک اٹھیں گی۔

پاکستان کیمیائی ہتھیاروں کیخلاف تنظیم او پی سی ڈبلیو کے ایگزیکٹو بورڈ کا رکن منتخب کرلیا گیا، جبکہ روس کو اس کونسل سے نکال دیا گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں ماں اور 3 بیٹے شامل ہیں، بچوں کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔

اردو کانفرنس میں دنیا بھر سے 200 سے زائد دانشور شرکت کریں گے۔

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ یکم اور دو دسمبر کو عالمی ماحولیاتی ایکشن کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے۔

فائر بریگیڈ حکام کے مطابق 8 فائر ٹینڈر، 2 واٹر باوزر اور4 واٹر ٹینکر آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔

گوجرانوالہ میں گھمن والا کے قریب مبینہ پولیس مقابلے میں زیر حراست ملزم عبدالجبار ہلاک ہوگیا۔

پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) سے ڈیڑھ ارب روپے کے واجبات کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کردیا۔

ترجمان حیسکو کا کہنا ہے کہ حیسکو چیف نے واقعے سے متعلق انکوائری کا حکم دیا ہے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ متاثرہ شاپنگ مال کے چیف سیکیورٹی آفیسر سمیت 5 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

یہ ارون ہے۔ ہم بالکل نہیں جانتے کہ وہ یہاں کیا کہہ رہا ہے لیکن یہ یقینی طور پر اطالوی لہجے میں بات کر رہا ہے، پوسٹ کا عنوان

سوشل میڈیا انفلوئنسر نے مظلوم بچی کی پھوٹ پھوٹ کر رونے کی ویڈیو اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر شیئر کردی۔

ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ زیا بیطس ٹائپ ٹو کے لاحق ہونے کے خطرے سے محفوظ رہنے کے لیے تیز رفتاری سے چلنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔

دونوں نے سوشل میڈیا پر کچھ روز قبل اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ 29 نومبر کو شادی کر رہے ہیں۔

پولیس نے گاڑی کے رجسٹریشن نمبر کے ذریعے اس کے مالک کے گھر پر چھاپہ مارا تو وہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھا۔

ہمارے خلاف گندی اور غلیظ باتیں اچھالی گئیں۔ ایسا کرنے سے انہیں کیا ملا؟ کیا جمعیت کی ترقی کا سفر رک گیا؟، سربرا جے یو آئی (ف)

پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منير کی کویتی ولی عہد شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح سے کویت سٹی میں ملاقات ہوئی۔

QOSHE - حماد غزنوی - حماد غزنوی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

حماد غزنوی

22 1
30.11.2023

کوہِ بہشت سے ایک فرشتے نے آدمؑ کو دنیا کانظارہ کروایا، مقصود انسان کی ترقی اور کامرانی کی نشانیاں دکھانا تھا، مثال کے طور پرکچھ چنیدہ شہرآدم کو دکھائے گئے جن میں لاہور بھی شامل تھا۔ یہ ملٹن کی ’فردوسِ گم شدہ‘ میں مذکور ہے۔ اسی طرح ’اصفہان نصف جہاں بود، گر لاہور نہ باشد‘ والا فقرہ بھی بزرگوں سے اکثر سننے کو ملتا تھا، اور اپنا کپلنگ تو لاہور کی مدح میں لگا ہی رہتا تھا۔بلا شبہ، لاہور اہلِ دنیا اور خاص طور پر برِ صغیر کے باشندوں کے لیے ایک خیرہ کُن شہر رہا ہے، علم و فن کا مرکز، تہذیب کا گہوارہ، حُسنِ تعمیرات کا نمونہ۔ ایک بار جون بھائی پرانے لاہور کی سیر کے دوران کہنے لگے ’کاش میں کسی ایسے شہر میں رہتا جس میں چھوٹی اینٹ کے مکان ہوتے۔‘ ان کا مطلب تھا کوئی ایسا شہر جو ان کے تاریخی و تمدنی ورثہ کا مظہر ہوتا۔ یہ جون بھائی کی طرف سے لاہور کی تہذیبی عظمت کا اعتراف تھا۔

وقت گزرتا گیا، ہمارے شہروں کی شکلیں بدلتی گئیں، لاہور بھی ان مراحل سے گزرا، شہر کا بے ترتیب پھیلائو، ہر طرف سیمنٹ سریا اور بل بورڈ، بے ہنگم ٹریفک، لوگ ہی لوگ، جہاں تھے کُنج وہاں کارخانے ہو گئے، درخت کٹ گئے، پرندے روٹھ گئے، جہاں باغ تھے وہاں معاشی زاغ وارد ہوئے اور کالونیاں بنتی چلی گئیں۔ لاہور کی شکل بدلی نہیں بگڑی، کہیں ترقی کے نام پر، کہیں خالص غفلت کے باعث۔خیر، ان تمام قباحتوں کے باوجود لاہوری اپنی زندگی کر رہے تھے، مگر پھر سموگ آ گئی۔اور سموگ بھی اچانک نہیں آئی، آہستہ آہستہ ہر سال بڑھتی چلی گئی، حکومتیں نوحے پڑھتی رہیں مگر کوئی علاج نہ کر سکیں۔ اور اب یہ حالت ہے کہ کوئی حالت نہیں۔ میل ہا میل تک تازہ ہوا کا جھونکا میسر نہیں، ’چاروں جانب ہیں بستیاں صاحب...جائیں تو جائیں ہم کہاں صاحب۔‘ اب لاہور میں تازہ ہوا کے شوق میں کوئی کھڑکی نہیں کھلتی، کھڑکی کھلے تو کمرے........

© Daily Jang


Get it on Google Play